Sindhi Press Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ میں موسم اور سیاست کے مزاج میں تلخی
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
روزنامہ کاوش بجلی کا بحران اور الزامات کا کھیل کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں موسم کے مزاج کی تلخی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ایک طرف نامہربان موسم ہے تو دوسری جانب ارباب اختیار کی بے حسی۔ جو اس قیامت خیز گرمی میں لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے لوگوں کو نجات نہیں دلاسکے ہیں۔ لوگ گرمی کی شدت کے باعث بے موت مر رہے ہیں۔ دوسری جانب حکمران عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کر رہے ہیں قومی اسمبلی میں بجلی اور توانائی کے بحران پر بحث کے دوران پانی و بجلی کے وفاقی وزیر نے کہا کہ کراچی میں فوتگی کے واقعات کا بجلی سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے سندھ حکومت پر بقایاجات کا بھی ذکر کیا۔ جبکہ حزب اختلاف کے رہنما سید خورشی شاہ کا کہنا ہے کہ وفاق گرمی کے باعث رونما ہونے والے سانحے کے موقعہ پر بہی کھاتے کھولنا بند کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ بجلی کا بحران آج کا نہیں اور نہ ہی ایک روز میں پیدا ہوا ہے۔ یہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ جو بھی حکومتیں آئیں وہ اس بحران کو حل کرنے کے بجائے اس پر سیاست کرتی رہیں ۔ نواز لیگ کے رہنما حکومت میں آنے سے پہلے یہ دعوے کرتے رہے کہ حکومت میں آتے ہی وہ بجلی کا بحران ختم کردیں گے۔ لیکن جب یہ جماعت اقتدار کی سیٹ پر بیٹھی تو وس کے وزراء کہنے لگے کہ اس کو حل کرنے میں وقت درکار ہے۔
سندھ میں لوڈ شیڈنگ کتنی ہو رہی ہے اس کا اندازہ صوبے بھر میں جاری احتجاجوں سے ہو سکتا ہےْ ضرورت اس بات کی ہے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے یا جھوٹے وعدے اور دعوے کرکے بجلی پر سیاست کرنے کے بجائے حقائق کو تسلیم کر کے اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس نے بھی حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے بجلی پر سیاست کرنے کو پنے اداریے کا موضوع بنایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ سندھ اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر نے قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر بجلی و پانی سے استعیفا کا مطالبہ کیا ہے۔ اپوزیشن کے اس موقف کے ردعمل میں کہا ہے کہ کراچی میں فوتگی کی تعداد میں اضافے کی وجہ صرف لوڈ شیڈنگ نہیں۔ بلکہ بڑی وجہ غربت ہے۔ کیونکہ مرنے والوں میں سے ستر فیصد محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں۔ جبکہ ماحولیاتی تبدیلی ایک اور وجہ ہے۔ صوبائی خواہ وفاقی حکومتوں کے موقف سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں اپنی کوتاہی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔
روزنامہ عبرت سندھ میں کرپشن کے الزام میں بعض اعلیٰ افسران کی گرفتاریوں کے بارے میں ’’اخلاقی دیوالیہ پن کے نتائج‘‘ کے عنوان سے اداریے میں رقمطراز ہے کہ کوئی فرد ہو یا گروہ شعوری خطائیں اس سے حوصلہ چھین لیتی ہیں اور وہ حق اور سچ کی بات کرنے کے قابل نہیں رہتے ۔ موجودہ حالات میں حکومت سندھ کے مہر نظر بیوروکریٹس کا بھی یہی حال ہے۔ گزشتہ خواہ حالیہ دور میں کرپشن کو جس طرح سے لازمی قرار دیا گیا، ملازمتوں سے لیکر ترقیاتی کاموں تک پولیس تھانوں سے لیکر روینیو عہدوں پر تقرر اور تبادلوں تک جو ریٹ مقرر کئے گئے اور جو بولی لگی رہی تھی اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ جو موجودہ وقت میں نظر آرہا ہے۔
بعض اعلیٰ افسران ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ یا جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جبکہ چند ایک قانون کی گرفت میں ہیں جنہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ صوبائی کابینہ کے وزراء سمیت 26 افراد کے نام اگزٹ کنٹرول لسٹ پر ہیں۔ یہ نام ای سی ایل پر کیوں ڈالے گئے ہیں؟ ایک دو روز میں اس کی تفصیلات منظر عام پر آجائے گی۔
میڈیا رپورٹس ک مطابو صوبائی وزیر اویس مظفر کو کراچی ایئر پورٹ پر روک دیا گیا۔ لیکن انہوں نے جب اپنے بھائی کی لاش وصول کرنے کا جواز پیش کیاتو انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ سندھ کی بعض طاقتور شخصیات دبئی پہنچ چکی ہیں ۔
مطلب سندھ حکومت کے اعلیٰ افسران میں بھام دوڑ مچی ہوئی ہے ۔ بینظیر ہاؤسنگ سیل کے چیئرمین مظفر عباس کو نیب کے ہاتھوں گرفتار ہیں ۔ ان پرکشمور کی ایک اسکیم میں 37 کروڑ روپے کی کرپشن پر الزام ہے۔ چند روز میڈیا میں خبروں کی سرخیاں بننے والے افسر منظور قادر کاکا کینیڈا اور کراچی کے ایڈ منسٹریٹرثاقب سومرو جرمنی میں موجودگی کی اطلاعات ہیں۔
تجزیہ نگار اس پر پریشان ہیں کہ کیا یہ وہی پارٹی ہے جو وقت کے جابروں سے مقابلہ کرتی تھی؟ اسکے جسمانی طور پر کمزور کارکنوں سے بندوق بردار بھی خائف رہتے تھے۔ اس پارٹی کے وزراء اور ان کے منظور نظر افسران کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں ۔
یہ اخلاقیات کی قوت تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی لاہور آمد کی حبیب جالب نے صحیح الفاظ میں عکاسی کی:’’ ڈرتے ہیں بندوق والے، ایک نہتی لڑکی سے۔‘‘ اب یہ پارٹی گزشتہ سات سال سے سندھ میں حکمرانی کر رہی ہے کہ مگر اس میں اخلاقی جرئت نہیں کہ وہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر احتجاج کرے۔
سندھ کے عوام نے حکمرانی کے حوالے سے اتنی بے حسی پہلے کبھی نہیں دیکھی جتنی پیپلزپارٹی نے اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کی ہیں۔ اسے عجب اتفاق کہئے کہ جب یہ دونوں جماعتیں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل بنانے جارہی تھیں ، متحدہ کے حوالے سے بی بی سی کی رپورٹ آئی ہے کہ متحدہ کے دو رہنماؤں نے برطانوی حکام کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ بھارتی حکومت ان کی مالی مدد کرتی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران متحدہ کے سینکڑوں کارکنوں کو بھارت نے تربیت دی۔ 2012 میں متحدہ کے رہنماؤں نے پولیس تفتیش کے دوران بھارت سے مالی امداد لینے کا اعتراف کیا۔
اس رپورٹ کے بعد پیپلزپارٹی خود کو کمزور محسوس کر رہی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اپنی جڑیں عوام میں مضبوط رکھتی تو اسے یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔
Daily Nai Baat - - Sindh Nama - Sohail Sangi
http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%A7%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D9%88%D8%B3%DB%8C%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D8%A7%D9%85
سندھ میں موسم اور سیاست کے مزاج میں تلخی
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
روزنامہ کاوش بجلی کا بحران اور الزامات کا کھیل کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں موسم کے مزاج کی تلخی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ایک طرف نامہربان موسم ہے تو دوسری جانب ارباب اختیار کی بے حسی۔ جو اس قیامت خیز گرمی میں لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے لوگوں کو نجات نہیں دلاسکے ہیں۔ لوگ گرمی کی شدت کے باعث بے موت مر رہے ہیں۔ دوسری جانب حکمران عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کر رہے ہیں قومی اسمبلی میں بجلی اور توانائی کے بحران پر بحث کے دوران پانی و بجلی کے وفاقی وزیر نے کہا کہ کراچی میں فوتگی کے واقعات کا بجلی سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے سندھ حکومت پر بقایاجات کا بھی ذکر کیا۔ جبکہ حزب اختلاف کے رہنما سید خورشی شاہ کا کہنا ہے کہ وفاق گرمی کے باعث رونما ہونے والے سانحے کے موقعہ پر بہی کھاتے کھولنا بند کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ بجلی کا بحران آج کا نہیں اور نہ ہی ایک روز میں پیدا ہوا ہے۔ یہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ جو بھی حکومتیں آئیں وہ اس بحران کو حل کرنے کے بجائے اس پر سیاست کرتی رہیں ۔ نواز لیگ کے رہنما حکومت میں آنے سے پہلے یہ دعوے کرتے رہے کہ حکومت میں آتے ہی وہ بجلی کا بحران ختم کردیں گے۔ لیکن جب یہ جماعت اقتدار کی سیٹ پر بیٹھی تو وس کے وزراء کہنے لگے کہ اس کو حل کرنے میں وقت درکار ہے۔
سندھ میں لوڈ شیڈنگ کتنی ہو رہی ہے اس کا اندازہ صوبے بھر میں جاری احتجاجوں سے ہو سکتا ہےْ ضرورت اس بات کی ہے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے یا جھوٹے وعدے اور دعوے کرکے بجلی پر سیاست کرنے کے بجائے حقائق کو تسلیم کر کے اس بحران کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس نے بھی حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے بجلی پر سیاست کرنے کو پنے اداریے کا موضوع بنایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ سندھ اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر نے قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر بجلی و پانی سے استعیفا کا مطالبہ کیا ہے۔ اپوزیشن کے اس موقف کے ردعمل میں کہا ہے کہ کراچی میں فوتگی کی تعداد میں اضافے کی وجہ صرف لوڈ شیڈنگ نہیں۔ بلکہ بڑی وجہ غربت ہے۔ کیونکہ مرنے والوں میں سے ستر فیصد محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں۔ جبکہ ماحولیاتی تبدیلی ایک اور وجہ ہے۔ صوبائی خواہ وفاقی حکومتوں کے موقف سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں اپنی کوتاہی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔
روزنامہ عبرت سندھ میں کرپشن کے الزام میں بعض اعلیٰ افسران کی گرفتاریوں کے بارے میں ’’اخلاقی دیوالیہ پن کے نتائج‘‘ کے عنوان سے اداریے میں رقمطراز ہے کہ کوئی فرد ہو یا گروہ شعوری خطائیں اس سے حوصلہ چھین لیتی ہیں اور وہ حق اور سچ کی بات کرنے کے قابل نہیں رہتے ۔ موجودہ حالات میں حکومت سندھ کے مہر نظر بیوروکریٹس کا بھی یہی حال ہے۔ گزشتہ خواہ حالیہ دور میں کرپشن کو جس طرح سے لازمی قرار دیا گیا، ملازمتوں سے لیکر ترقیاتی کاموں تک پولیس تھانوں سے لیکر روینیو عہدوں پر تقرر اور تبادلوں تک جو ریٹ مقرر کئے گئے اور جو بولی لگی رہی تھی اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ جو موجودہ وقت میں نظر آرہا ہے۔
بعض اعلیٰ افسران ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ یا جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جبکہ چند ایک قانون کی گرفت میں ہیں جنہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ صوبائی کابینہ کے وزراء سمیت 26 افراد کے نام اگزٹ کنٹرول لسٹ پر ہیں۔ یہ نام ای سی ایل پر کیوں ڈالے گئے ہیں؟ ایک دو روز میں اس کی تفصیلات منظر عام پر آجائے گی۔
میڈیا رپورٹس ک مطابو صوبائی وزیر اویس مظفر کو کراچی ایئر پورٹ پر روک دیا گیا۔ لیکن انہوں نے جب اپنے بھائی کی لاش وصول کرنے کا جواز پیش کیاتو انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ سندھ کی بعض طاقتور شخصیات دبئی پہنچ چکی ہیں ۔
مطلب سندھ حکومت کے اعلیٰ افسران میں بھام دوڑ مچی ہوئی ہے ۔ بینظیر ہاؤسنگ سیل کے چیئرمین مظفر عباس کو نیب کے ہاتھوں گرفتار ہیں ۔ ان پرکشمور کی ایک اسکیم میں 37 کروڑ روپے کی کرپشن پر الزام ہے۔ چند روز میڈیا میں خبروں کی سرخیاں بننے والے افسر منظور قادر کاکا کینیڈا اور کراچی کے ایڈ منسٹریٹرثاقب سومرو جرمنی میں موجودگی کی اطلاعات ہیں۔
تجزیہ نگار اس پر پریشان ہیں کہ کیا یہ وہی پارٹی ہے جو وقت کے جابروں سے مقابلہ کرتی تھی؟ اسکے جسمانی طور پر کمزور کارکنوں سے بندوق بردار بھی خائف رہتے تھے۔ اس پارٹی کے وزراء اور ان کے منظور نظر افسران کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں ۔
یہ اخلاقیات کی قوت تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی لاہور آمد کی حبیب جالب نے صحیح الفاظ میں عکاسی کی:’’ ڈرتے ہیں بندوق والے، ایک نہتی لڑکی سے۔‘‘ اب یہ پارٹی گزشتہ سات سال سے سندھ میں حکمرانی کر رہی ہے کہ مگر اس میں اخلاقی جرئت نہیں کہ وہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ پر احتجاج کرے۔
سندھ کے عوام نے حکمرانی کے حوالے سے اتنی بے حسی پہلے کبھی نہیں دیکھی جتنی پیپلزپارٹی نے اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کی ہیں۔ اسے عجب اتفاق کہئے کہ جب یہ دونوں جماعتیں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل بنانے جارہی تھیں ، متحدہ کے حوالے سے بی بی سی کی رپورٹ آئی ہے کہ متحدہ کے دو رہنماؤں نے برطانوی حکام کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ بھارتی حکومت ان کی مالی مدد کرتی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران متحدہ کے سینکڑوں کارکنوں کو بھارت نے تربیت دی۔ 2012 میں متحدہ کے رہنماؤں نے پولیس تفتیش کے دوران بھارت سے مالی امداد لینے کا اعتراف کیا۔
اس رپورٹ کے بعد پیپلزپارٹی خود کو کمزور محسوس کر رہی ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اپنی جڑیں عوام میں مضبوط رکھتی تو اسے یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے۔
Daily Nai Baat - - Sindh Nama - Sohail Sangi
http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/%D9%85%D8%A7%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%B1%D8%A7%DA%88-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D9%88%D8%B3%DB%8C%D8%B9-%D9%BE%D8%B1-%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE-%DA%A9%DB%8C-%D8%AE%D8%A7%D9%85