Friday, November 8, 2019

بھولا ہوا کراچی پھر یاد آیا۔۔


Nai Baat Nov 8, 2019
بھولا ہوا کراچی پھر یاد آیا۔۔

سندھ نامہ   سہیل سانگی 

ایک وقفے کے بعدوزیراعظم عمران خان نے کراچی کے دورے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ کراچی کے حالات روز بروز بدتر ہورہے ہیں‘سندھ حکومت مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے۔دھرنا مارچ کے بعد وزیراعظم کا سندھ حکومت اور کراچی کے بارے میں پہلا بیان ہے۔گزشتہ ایک ماہ تک وفاقی حکومت آزادی مارچ کے معاملے میں مصروف تھی، یہ مصروفیت اب بھی ہے لیکن اس اعلان سے لگتا ہے کہ وفاقی حکومت ایک بار پھر پیپلزپارٹی  اور سندھ حکومت کے بارے میں کچھ کرنا چاہتی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ قدم پیپلزپارتی کی جانب سے آزادی مارچ کی حمایت کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔ سندھ حکومت کا معاملہ پیپلزپارٹی کو دھرنے کے ابتدائی دنوں میں دور رکھے ہوئے تھا۔ لیکن اب معاملات پک چکے ہیں تو پیپلزپارٹی واضح لائن اختیار کرنے کی طرف جارہی ہے۔ میڈیا رپورٹس کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ کراچی میں صفائی مہم تب تک چلتی رہی  جب تک صوبائی حکومت پیسے دیتی رہی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ معمول کی بھی صفائی نہیں ہورہی ہے۔ اب میئر کراچی سارا کچرا سندھ حکومت پر ڈالنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ کراچی تباہ ہورہا ہے صوبہ اور ملک کے چیف ایگزیکٹو صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیں ورنہ بہت زیادہ نقصان ہوجائے گا کے ڈی اے، واٹر بورڈ اور دیگر شہری ادارے حکومت سندھ نے اپنے ماتحت کرکے زیادتی کی ہوئی ہے۔ شہر میں پانی و سیوریج، سڑکیں اور کچرے کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکاہے۔

دوسری طرف کراچی شہر میں سگ گزیدگی سے ایک اور ہلاکت ہو گئی جس کے بعد رواں سال اس شہر میں کتے کے کاٹے سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 21ہوگئی۔میڈیا کی خبروں کے مطابق کراچی میں ڈینگی وائرس سے دو بچے ہلاک ہوگئے جبکہ178افراد ڈینگی وائرس سے متاثرہوگئے، رواں سال شہر میں ڈینگی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 10ہزار60 جبکہ اموات کی تعداد 32ہوگئی ہے۔اگر گزشتہ برسوں کے اعدادوشمار دیکھے جائیں تو صورتحال زیادہ مختلف نہیں۔چلیں مان لیں کہ سندھ حکومت کی کارکردگی نہیں، لیکن کراچی بلدیہ عظمیٰ اور دیگر اداروں کی کارکردگی کہاں ہے؟کراچی بلدیہ عظمیٰ اور دیگر کراچی کے ادارے  احتساب سے بچنے کے لئے  شہر سے متعلق شکایات کر رہے ہیں۔ 
 سندھ کے اخبارات نے بجلی کے نرخوں میں اضافے،  احتجاج کرنے والے کالج اساتذہ پر پولیس کے تشدد،  تھر میں خود کشی کے واقعات پر اداریے  اور کالم لکھے ہیں۔ 

روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ خود کشی کرنے والوں میں اکثریت نوجوان اور خواتین
کی ہے۔ جن کا تعلق پسماندہ ہندو برادریوں سے ہے، جن کے گذر سفر کا ذریعہ شہروں وغیرہ میں جا کر محنت مزدوری کے ذریعے ہے۔ 

ایک اور اداریے میں کاوش لکھتا ہے کہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناے کے لئے قائم کی گئی تھی۔ لیکن یہ ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر کے جو فاؤل پلے شروع کیا ہے، اس سے صوبوں کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔ 

ارسا نے چشمہ جہلم لنک کینال پر بجلی گھر بنانے کی منظوری دی ہے، جو کہ اس کا اختیار نہیں۔اس کے  منصوبے کے خلاف سندھ اسمبلی  اسمبلی کی قراردادا کو غیر ضروری قراردیاتے ہوئے اس کو اختیارات میں مداخلت  قرار دیا ہے۔ پہلے پپانی کے معاملے میں پنجاب کی حمایت کے لئے واپڈا آگے آگے ہوتا تھا۔ لیکن اب ارسا بھی میدان میں آئی ہے۔ چشمہ جہلم لنک کینال ایک فلڈ کینال ہے۔  اس میں صرف اس وقت پانی چوڑا جاسکتا ہے جب دریا میں سیلاب ہو۔ ایسے کینال پر اب بجلی گھر تعمیر کیا جارہا ہے۔ 

حد ہے کہ اس بجلی گھر کی تعمیر کے خلاف سندھ کے منتخب ادارے سندھ اسمبلی کی قرارداد کو ایک غیر منتخب ادارہ غیر ضروری ٹہراتا ہے۔ ارسا ایک غیر منتخب ادارہ ہے اس کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ  وہ سندھ کے منتخب ادارے کی توہین کرے۔  دراصل یہ روش رہی ہے کہ منتخب اداروں کو اہمیت نہیں دی جاتی اور ان کی رائے کی توہین کی جاتی ہے۔  سندھ اسمبلی کے کالاباغ سے متعلق قراردادوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتا رہا۔ اس طرح کی روش اور دانش سے عاری فیصلوں  نے پہلے بھی اس ملک کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ 
ملک کے قایم کے چوبیس سال بعد اس کا مشرقی حصہ علحدہ ہو گیا۔ لیکن اس المیے  سے بھی ہامرے حکمرانوں نے کچھ نہیں سیکھا۔ سندھ کے عوام اور میڈیا بارہا یہ بتاتا رہا ہے کہ سندھ کوئی مفتوح علاقہ نہیں۔ اس کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کیا جانا چاہئے۔ اب ارسا یہ  طے کرے گا کہ منتخب اداروں کو کونسا کام کرنا چاہئے اور کونسا نہیں۔  ہم ارسا کی جانب سے سندھ اسمبلی کی قرارداد کو غیرضروری قرار دینے کی مذمت کرتے ہیں، اور سندھ کے منتخب ایوان سے کہنا چاہیں گے کہ وہ عوام کے مینڈٰیٹ کا بھرم رکھے۔ 

روزنامہ پنہنجی اخبار ”کیا کالج اساتذہ بے رحمانہ  سلوک کے مستحق ہیں؟“کے عنواننسے لکھتا ہے کہ  یہاں کوئی بادشاہی نظام نہیں،  نہ ہی حکمرانوں کے لئے بنائی گئی عمارات محلات ہیں۔  جن کے سامنے عام کا گزر شجر ممنوع ہے۔ لیکن یہ بات سندھ کے اکابرین کے عقل میں نہیں آتی جو کسی عوامی احتجاج پر بھی باہر نہیں نکلتے۔  
مزید یہ کہ  احتجاج کرنے والوں کے مسئلہ کا حل لاٹھیاں برسانے کے ذریعے ڈھونڈتے ہیں۔ گزشتہ روز بی چی ایم ہاؤس کے سامنے  کچے ایسے ہی مناظر پیش آئے۔ رہے ہیں۔ 

اس سے پہلے بھی اس مقام پر ایسے مناظر پیش ہوتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ لاٹھیاں کاھنے والے کالج کے اساتذہ تھے جو پروموشن اور ٹائین اسکیل کے مطالبات لیکر سندھ کے مختلف شہروں سے یہاں پہنچے تھے۔ 

پہلے رویہ تھا، اب حکمرانوں کی عادت بن گئی ہے کہ عوام کے مسائل سننے ہی نہیں ہیں اور اگر سن بھی لئے تو حل نہیں کرنے ہیں۔ اگر لوگوں نے احتجاج کیا تو اسے نظرانداز کرنا ہے۔  لگتا ہے  جیسے کوئی حکومت ہی نہ ہو، مگر جیسے ہی احتجاج کرنے والے  ریڈ زون میں قدم رکھتے ہیں تو حکومتی مشنری پورے ساز وسامان کے ساتھ  جاگ اٹھتی ہے اور احتجاج کرنے والوں سے سختی سے نمٹتی ہے۔ افسرشاہی اپنے مطالبات منوا لیتی ہے لیکن اساتذہ  کی سنی نہیں جاتی، اور جب وہ اپنی بات سنانے کے لئے احتجاج کرتے ہیں تو ان پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں۔ حکومت کا یہ رویہ  خواہ انداز حکمرانی کسی طور پر عوام دوست نہیں۔

Monday, September 30, 2019

سندھ میں غیر یقینی حالات اور بے چینی کیوں؟


 سندھ میں غیر یقینی حالات اور بے چینی کیوں؟ 
سندھ نامہ   سہیل سانگی 
وفاق سندھ حکومت اور کراچی کی انتظام کاری کے لئے کیا کرنا چاہتا ہے؟ تاحال وفاق کی جانب سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی جاسکی ہے۔ نیب کی جانب سے اقدامات جاری ہیں۔  نتیجۃ صوبے میں غیر یقینی حالات ہی نہیں بلکہ بڑی بے چینی بھی پائی جاتی ہے۔ صوبے کے سیاسی و اہل نظر حلقے اس معاملے میں پیپلزپارٹی کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔بعض حلقوں میں سنیجدگی سے بحث ہورہی ہے کہ  اس غیر یقینی اور بے چینی صورتحال پیدا کرنے میں کہیں وفاقی حکومت کا ہاتھ تو نہیں؟ بدین ٹھٹہ وغیرہ میں زرعی پانی کی شدید قلت حکومت تو دور نہ کر سکی لیکن گزشتہ ایک ماہ سے وقفے وقفے سے جاری بارشوں کے بعد صورتحال بہتر ہو گئی ہے۔ تاہم زرعی فصلوں پر ٹڈی دل کے حملے کی اطلاعات  آرہی ہیں۔کراچی  کے گٹروں کے بعد اب کچرا سیاست کا اہم موضوع ہے۔کراچی کے معاملات کی حساسیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ خود صفائی مہم کی نگرانی کر رہے ہیں۔  ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کراچی میں کراچی سڑک پر پھینکنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا۔ اچھی حکمرانی اور قانون پر عمل درآمد ٹھیک طور پر نہ ہونے کی شکایات پہلے ہی تھیں اب مختلف علاقوں میں بنیادی ضروریات کی فراہمی، انسانی حقوق  یا قانون کی خلاف ورزی کے واقعات صوبائی حکومت کی کارکردگی پر مزید سوالیہ نشان ڈال رہے ہیں۔صوبائی حکومت کبھی بارش کے پانی کی نکاسی، تو کبھی کسی ضلع میں صحت کی صورتحال، تو کبھی کتوں کے پیچھے دوڑ رہی ہے۔یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سسٹم ٹھیک سے کام نہیں کر رہا۔ پیپلزپارٹی کے رواں دور حکومت میں  اس کو کام کرنے کا کم ہی موقعہ مل رہا ہے۔ صوبے میں گاہے بگاہے اقلیتوں کے تحفظ کا سوال اٹھتا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں گھوٹکی میں  اقلیتوں کے خلاف واقعہ اور آصفہ بی بی میڈیکل کالج کی طالبہ نمرتا کی پراسرار حالات میں موت  کے واقعہ  پر سندھ نے شدید ردعمل دیا۔ مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، کئی شہروں سے لوگوں کے وفود گھوٹکی پہنچے اور اقلیتوں سے اظہار یکجہتی کیا۔  اپوزیشن کی سیاست اسمبلی یا پھر صرف کراچی تک محدود ہے۔باقی صوبے بھر میں پیپلزپارٹی کسی نہ کسی طور پر سرگرمی کرتی رہتی ہے۔ ان  تمام موضوعات پر اخبارات میں خبروں کے علاوہ مضامین اور کالم لکھے جارہے ہیں۔
روزنامہ پہنجی اخبار اداریے میں رقمطراز ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے سندھ میں  رہائش  پزیر اقلیتوں اور خاص طور پر ہندو برادری کو جس طرح سے نشانہ بنایا جارہا ہے، اس سے عدم تحفظ کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ ہندو لڑکیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرا کے شادی کرنے کے واقعات ہوں یا  اغوا برائے تاوان کی وارداتیں۔ اب ان واقعات میں ہندوؤں کی مذہب عبادتگاہوں، خواہ املاک پر منظم حملے بھی ہونے لگے ہیں۔ یہ واقعات جہاں ریاست کی کمزور ہوتی ہوئی رٹ کی نشاندہی کرتے ہیں وہاں  اقلیتوں کو تحفظ دینے کی حکومت کی آئینی و قانونی ذمہ داری کی نفی کرتے ہیں۔اس معاملے کا باریک اور حساس نقطہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں  مذہبی رواداری، بھائی چارہ اور ہم آہنگی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ 
ریاستی قوانین پر عمل درآمد کرانا، جرائم پیشہ عناصر کو قابو میں لانا،  اور فتنہ فساد کی سازش کرنے والوں کو قانون میں گرفت میں لانا ریاستی اداروں کا فرض اور ذمہ داری ہے۔ لیکن اکثر کیسوں میں دکھا گیا ہے کہ ڈنڈا بردار ہجوم نہایت ہی آزادی سے  اقلیتوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے  اور نذر آتش کرتے رہتے ہیں۔ مگر پولیس خواہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کوئی  ایکشن لیتے ہوئے نظر نہیں آتے۔  یہ منظر اقلیتوں میں مزید خوف اور ناامیدی کا باعث بنتا ہے، کسی بھی مجرم کے جرم کاتعین کرنا انصاف کے اداروں کا کام ہے۔ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں، لیکن پھلہڈیوں  سے گھوٹکی تک کے واقعات میں  صورتحال کچھ یوں نظر آئی جیسے نہ قانون ہو، اور نہ ہی حکومت۔ یہ واقعات جہاں اقلیتوں میں عدم تحفظ پیدا کرتے ہیں وہاں کاروباری سرگرمیوں کو بھی نقسان پہنچاتے ہیں۔ پھر دنیا میں  ہمارے لئیایک جنونی مذہبی انتہاپسند ریاست کا تاثر ابھرتا ہے۔ گزشتہ روز سندھ اسمبلی نے  متفقہ طور پر ہندو برادری کو تھٖفظ دینے اور ان کی عبادت گاہوں کو سیکیورٹی فراہم سے متعلق ایک قرارداد منظور کی ہے۔جو ایک قابل تحسین قدم ہے۔ لیکن یہ وقتی یا عراضی حل ہے۔ یعنی عمل سے مشروط ہے۔ رواداری کا معاشرہ بنانے کے لئے صرف حکومت ہی نہیں، معاشرے کے تمام حصوں اور اداروں کو  مربوط طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 
 روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ میں زرعی معیشت کے بعد آبادی کے بڑے حصے کا زریعہ معاش  آبی معیشت پر ہے۔ سندھ کی آبگاہوں سے مختلف اقسام کی گھاس وغیرہ پیدا ہوتی ہے،  لیکن مچھلی کی پیداوار اہم ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے ان جھیلوں میں مچھلی کی پیداوار کم ہوتی جارہی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر محکمہ ماہی گیری نے مچھلی کے بیج کی فراہمی کے لئے مختلف اضلاع میں چمھلی کی ہیچریز قائم کی۔ یہ ہیچریز  اپنے بنیادی کام کی تکمیل میں ناکام رہی ہیں۔ محکمہ ماہی گیری کے افسران  غیر فعال ہیچریز کی فیڈ اور دیگر سامان کی مد میں  بجٹ باقاعدگی سے  لیتے رہے ہیں۔  لیکن مچھلی کا بیج مارکیٹ سے خرید کر کے ڈلا جاتا ہے۔ کبھی کبھی این جی اوز یا عالمی ادارے مہربانی کر کے محکمہ کا کام آسان کر دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ہیچریز کو فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مچھلی کی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکے۔    

Friday, September 6, 2019

سندھ اوروفاق کی دوریوں میں مزید اضافہ


https://www.naibaat.pk/06-Sep-2019/26095

حکومت سندھ کی زمین کے کیس میں گرفتار اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے گرفتار بیٹے غنی مجید، حماد شاہ، توصیف، طارق الرحمٰن، عامر سمیت سات افراد نے نیب کے ساتھ پلی بارگین کرلی ہے۔ ان سات ملزمان نے ساڑھے دس ارب روپے ادا کرنا قبول کیا ہے اور اسٹیل ملز اور سندھ حکومت کی 226 ایکڑ زمین بھی واپس کرنا قبول کیا ہے۔ نوری آباد پاور کمپنی اور سندھ ٹرانسمیشن کمپنی کے افسران نے بھی پلی بارکین کر لی ہے۔ سندھ بینک کے ایک افسر کی پلی بارگین کی درخواست ابھی التوا میں ہے۔ جعلی اکائونٹس سے متعلق 18 انکوائریز میں سے ایک اسٹیل ملز اور حکومت سندھ کی زمین سے متعلق ہے۔ جعلی اکائونٹس کیس میں آصف زرداری اور فریال تالپور سمیت 39 ملزمان ہیں۔ جن میں سے پچیس گرفتار ہیں۔ ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل احمد سے بات چیت چل رہی ہے ان کے ساتھ پلی بارگین کا معاملہ آخری مرحلے میں ہے۔ کل تیرہ افراد نے پلی بارگین کی ہے جن سے 13 ارب روپے وصول کئے جاچکے ہیں، یہ رقم اومنی گروپ کے علاوہ ہے۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ آصد زرداری سے بات چیت چل رہی ہے، پیسے کشمیر فنڈ میں دیئے جائیں گے۔ بعض خیرخواہ ثالثی کر رہے ہیں۔ آصف زرداری کچھ نہ کچھ دیں گے، شریف برادران ایسے بھی نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کی ہدایات پر ملک ریاض نے بحریہ ٹائون کے حوالے سے جو دس ارب روپے کی ادائیگی کی ۔تین چار مدوں سے آنے والی یہ ایک خطیر رقم ہے، لگتا ہے آنے والے دنوں میں پلی بارگین یا دیگر طریقوں سے مزید رقومات آنے والی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ رقومات کس کی ہیں؟ کس کو ملنی چاہئیں؟ سندھ حکومت کا مانناہے کہ یہ تمام رقومات سندھ حکومت کی ہیں کیونکہ یہ زمین اور دیگر اثاثے سندھ کی ملکیت تھے، لہٰذا ان پر آئینی و قانونی طور پر سندھ حکومت کا حق ہے۔ لیکن وفاق صوبے کو نظر انداز کر کے ہر حال میں یہ رقم خود لینا چاہتا ہے۔ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان این ایف سی ایوارڈ میں سے کم رقم جاری ہونے پر پہلے ہی تنازع چل رہا ہے۔ ان رقومات پر وفاقی حکومت کے دعوے سے سندھ اور وفاق کے درمیان ایک اور تنازع مزید پیدا ہو رہا ہے۔

سندھ اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ گنے کے کاشتکاروں کوالٹی پرمیم کی مد میں مل مالکان کی طرف واجب الادا ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران سیکریٹری زراعت اور ڈائریکٹر جنرل آڈٹ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ اجلاس میں مالی سال 2009-10 اور 2010-11 مالی سال کی آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی۔ آڈٹ افسران نے کوالٹی پریمیم کی مد میں ایک ارب 43 کروڑ روپے ریکوری نہ ہونے کا معاملہ اٹھایا۔ جس پر سیکریٹری زراعت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ پرائیویٹ پارٹی کا ہے۔ آڈٹ حکام کے اعتراضات غلط ہیں۔ آڈٹ حکام کا یہ موقف تھا کہ جہاں ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی وہاں اعتراضات اٹھائے جائیں گے۔ یہ پیسے حکومت کے نہیں کاشتکاروں کے ہیں۔ کین کمشنر نے بتایا کہ یہ کوالٹی پریمیم کی ادائیگی کا معاملہ 1997 سے چل رہا ہے، اب تک کاشتکاروں کے پینتیس ارب روپے اس مد میں واجب الادا ہیں۔
’’کاشتکاروں کو زرعی اجناس کی صحیح قیمت ملنا محال ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ گندم کی فصل اترتی ہے تو حکومت ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے سرکاری قیمت دیر سے مقرر کرتی ہے۔ قیمت مقرر کرنے کے بعد سرکاری خریداری مراکز قائم نہیں کئے جاتے۔ اس اثناء میں باردانے کی تقسیم کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال گنے کی فصل کے ساتھ ہوتی ہے۔ حکومت وقت پر شگر ملز چالو کرانے میں ناکام رہتی ہے۔ کاشتکاروں کو گنے کی صحیح قیمت نہیں مل پاتی۔ کاشتکاروں کو برسہا برس تک گنے کی رقم کی ادائیگی نہیں کی جاتی۔ ابھی سندھ میں کپاس کی فصل مارکیٹ میں آئی ہے۔ لیکن کاشتکار صحیح قیمت حاصل کرنے سے محروم ہیں۔فیکٹری مالکان نے مختلف مقامات پر اجارہ داری قائم کرکے فی من کی قیمت میں 1000 سے 1200 روپے تک کمی کردی ہے۔ کپاس کے کارخانوں پر نصب کانٹوں میں بھی ہیراپھیری کی جارہی ہے۔ حصے کا پانی نہ ملنے کے باعث سندھ میں زراعت کا حال ویسے ہی برا ہے۔ جو پانی ملتا ہے اس کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی۔ نتیجے میں چھوٹے کاشتکار کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے یہ کاشتکار ٹیوب ویل استعمال کرتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی پیداوار کی فی ایکڑ لاگت بڑھ جاتی ہے۔ جب فصل تیار ہو کر مارکیٹ پہنچتی ہے تو اس کی صحیح قیمت نہیں ملتی۔ کاشتکار کا المیہ ہے کہ وہ اپنی زرعی پیداوار کی قیمت خود مقرر نہیں کرتا۔ وہ اس معاملے میں تاجر، دلال یا کارخانیدار کے رحم و کرم پر ہے۔ شہدادپور میں کارخانیداروں نے اجارہ داری قائم کر کے کپاس کے دام اپنی مرضی کے مقرر کر رکھے ہیں۔ اس وقت کپاس کے فصل کی قیمت 3900 روپے من ہے لیکن کارخانیدار من مانی کر کے کاشتکاروں کو 2700 روپے ادا کر رہے ہیں۔ عملی صورت یہ ہے کہ کاشتکاروں کو 31 فیصد قیمت ادا کی جارہی ہے۔ اس صورتحال پر حکومت سندھ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ محکمہ زراعت اس معاملے لاتعلق ہے۔ سندھ زرعی صوبہ ہے جس پر پوری دیہی معیشت چلتی ہے اور کارخانوں خواہ برآمد کے لئے خام مال اس شعبے سے ہی آتا ہے۔ لیکن زراعت حکومت کے ایجنڈا پر نہیں ہے۔ زرعی شعبے اور کاشتکاروں کے مسائل سے حکومت کی لاتعلقی باعث تشویش ہے۔

Sunday, August 4, 2019

حکومت سندھ کی کارکردگی پر عدالتی سوالات


حکومت سندھ  کی کارکردگی پر عدالتی سوالات
سندھ نامہ   سہیل سانگی
روزنامہ پنہنجی اخبار ”کیا وفاق کے لئے کراچی ہی سندھ ہے؟“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں دو روزہ بارش نے  بلدیاتی اداروں کی  اہلیت کو بے نقاب کردیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سندھ کے لوگوں کی یہ خوش فہمی بھی ہوا ہو گئی کہ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بارش کے باعث لوگوں کو پہنچنے والی تکالیف، جانی خواہ مالی نقصان  پر جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہورہی ہے، وہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑنے کے مترادف ہے۔ بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت سے فنڈ نہ ملنے کی  شکایت کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومت وفاق کی جانب سے عدم تعاون کی بات کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے لئے خراب حکمرانی کا کھاتہ کھول کے بیٹھی ہے۔ 
حالیہ بارشوں کے بعد بلدیاتی ادارے اور صوبائی حکومت کی کارکردگی پر مسلسل تنیقد کی جارہی ہے۔ پورے معاملے میں وفاق یوں لاتعلق کھڑا ہے جیسے سندھ پاکستان کا حصہ نہیں۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ میں بھی سندھ میں بارش کا معاملہ زیر بحث آیا لیکن  بعد میں یہی بات دہرائی گئی کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ کراچی کو اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا۔ بارش  پورے سندھ میں ہوئی ہے، کراچی اور حیدرآباد ڈویزن زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ وفاقی حکومت اگر کراچی کا درد محسوس کرتی ہے تو  ہمارے سر آنکھوں پر۔کیا حیدرآباد کا حصہ نہیں؟ ٹھٹہ، لاڑکانہ اور سکھر کا بھی درد محسوس کرنا چاہئے۔ اگر کراچی کی بات کی جائے، عشروں تک اس شہر کے مالک ہونے کی دعویدار جماعت، جس کے وفاقی وزراءٗ صوبائی حکومت پر غصہ نکالنے کاکوئی موقع نہیں جانے دیتے، کیا وہ بتائیں گے کہ مشرف دور سے لیکر اس شہر کے لئے جو  فنڈ ملتے رہے وہ کہاں گئے؟  یہ کہا جارہا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران کراچی کو صرف ایک سو ارب روپے ملے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے، کیا ان ایک سو ارب روپے کے بعد شہر کی کیا شکل بنی ہے؟کراچی کے بلدیاتی اداروں میں بھرتیوں سے لیکر پانی کی گزرگاہوں پر قبضے، چائنا کٹنگ میں کون کون ملوث رہا ہے؟ آج پانی کی گزرگاہیں بند ہیں، ان پر کثیر منزلہ عمارات کی تعمیر کس نے کی؟ ایم کیو ایم  ماضی میں نہ صرف صوبائی حکومت کا حصہ رہی ہے بلکہ محکمہ بلدیات اور کراچی و حیدرآباد کے بلدیاتی ادارے بھی اس کے پاس رہے ہیں۔ کراچی کا مسئلہ پانچ دس سال کا نہیں۔ لہٰذا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہ کی جائے، اس سے سندھ کے لوگوں کی تکالیف کا ازالہ نہیں ہوگا۔ سندھ کے لوگ دیکھنا چاہیں گے کہ ان کے بچوں کے منہ سے نوالہ ٹیکس کی شکل میں چھین لیا گیا، اس کے عوض انہیں کیا  شہری سہولیات ملی؟ کراچی ملک کا اہم شہر ہے، اس کی فکر سب کو ہونی چاہئے۔ لیکن وفاق کو پورا سندھ ایک ہی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ بجلی کی فراہمی وفاقی حکومت کے ماتحت محکمہ ہے۔ گزشتہ چار روز سے  بارش کے متاثرہ باسیوں کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ حالیہ بارشیں عوام تو برداشت کر لے گا، لیکن ان اداروں اور حکومت کی کارکردگی پر جو زخم لگے ہیں، وہ بھلائے نہیں جا سکیں گے۔ 
خبر ہے کہ خیرپور میڈیکل کالج کی رجسٹریشن نہ سکی ہے، نتیجے میں کالج کے 84 فیکلٹی ممبران نے ریگیولر نہ ہونے پر استعیفا دے دیا ہے۔یہاں داخلہ لینے والے طلباٗ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ اسی طرح سے مہر میڈیکل کالج سکھر کا معاملہ بھی تاحال حل نہیں ہو سکا ہے۔ 
روزنامہ کاوش”تھوڑے میں سمجھ جائیں“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ جمہوری معاشروں میں مخالف جماعتیں حکومت پر تنقید کرتی رہتی ہیں۔ اس کے لئے یہی سمجھا جاتا ہے، چونکہ یہ مخالف جماعتیں ہیں اس لئے تنقید کر رہی ہیں۔ لیکن جب عدلیہ جیسا معزز فورم بھی اپنے ریمارکس میں خراب حکمرانی پر تشویش کا اظہار کرتا ہے، تو معاملے کی نسجیدگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اگر کوئی معزز جج یہ ریماکرس دے کہ فلاں صوبے کی حکومت برائے فروخت ہے، پھر اس صوبائی حکومت کو یقیننا اس مار کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں  محکمہ صحت میں بھرتیوں کے حوالے سے معزز جج نے یہ ریمارکس دیئے۔ سندھ حکومت نے محکمہ صحت میں بھرتیوں کے لئے اشتہار دیا تھا۔اس اشتہار کے خلاف پہلے سے بھرتی کئے گئے ملازمین نے  درخواست دی جنہیں ملازمت تو دی گئی لیکن  تعیناتی نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے معزز  عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لوگوں سے پیسے لیکربھرتی تو کرلیا جاتا ہے لیکن بعد میں انہیں تنخواہیں نہیں ملتی۔ دیکھا جائے تو اس طرح کی پریکٹس ہمارے اداروں میں ایک عرصے سے جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھرتیوں کے لئے موثر اور مناسب طریقہ کار موجود نہیں۔ لے دے کر صوبائی پبلک سروس کمیشن کا ایک ادارہ ہے جہاں پر بھی مداخلت شروع ہو گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں یہ سوچ پختہ ہوگئی ہے کہ ملامت پیسے یا سفارش کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا سب نے اس طر ف دوڑ  نے لگے۔ یہاں پر بیروزگاروں کی مجبوریوں سے کھیلنے  کے ایسے طریقے اختیار کئے گئے کہ لوگوں کو مبینہ طور پیسوں کے عوض بھرتی تو کرلیا جاتا ہے لیکن تنخواہیں نہیں دی جاتی۔ 
اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا کیس تاحال اپنے منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ پایا ہے۔ اس کیس میں ہزاروں لوگ محکمہ تعلیم میں ملازم تھے بھی اور نہ بھی تھے۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ لوگوں سے وصول کئے گئے پیسوں سے ہی ایک دو ماہ تک انہیں تنخواہیں دی گئیں اور بعد میں انہیں فارغ کردیا گیا۔ اس تخیلقی انداز کی کرپشن  پر عمل  متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ حکام کے ملوث ہونے کے بغیر ممکن نہیں۔بہتر حکمرانی خود بولتی ہے۔ اس کے لئے زیادہ دعوؤں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ میں بھرتیوں کے اس ڈرامے کے خاتمے کے لئے سنجیدگی اختیار کرنی چاہئے۔ عدالت کے ریمارکس اہم اشارہ ہیں۔ 

وزیراعظم کا دورہ: سندھ حکومت نظر انداز


Nai Baat July 13, 2019 


وزیراعظم کا دورہ:  سندھ حکومت نظر انداز

سندھ نامہ  سہیل سانگی

 وزیراعظم عمران خان تاجروں کے لئے کراچی آئے تھے، ان سے مل کر چلے گئے،تاجروں نے بھی ان کی  ایک بھی نہ مانی اور اب وہ نئے ٹیکس نظام کے خلاف ہڑتال کرنے جارہے ہیں۔ گورنر سندھ نے تاجروں کو دلاسہ دے کر  ہڑتال ملتوی کرائی ہوئی تھی۔  وزیراعظم نے صوبائی دارالحکومت میں قیام کے دوران رسمی طوربھی حکومت سندھ کے کسی نمائندے سے ملاقات نہیں کی۔وزیراعظم نے گورنر ہاؤس میں دس سے زائد اجلاس کئے۔حالانکہ کل اگر ہڑتال ہوتی ہے تو  امن  وامان  کے حوالے سے سندھ حکومت ذمہ دار ہوگی۔ اجلاسوں کے بعد جب صحافیوں نے ان اجلاسوں میں سندھ حکومت کی غیر موجودگی سے متعلق سوال پوچھا تو وزیراعظم بات گول کر گئے۔البتہ انہوں نے واضح کیا کہ سندھ میں گورنر راج کے بارے میں نہیں سوچا۔ گزشتہ دو ہفتوں سے ایم کیو ایم پاکستان خواہ پاک سرزمین پارٹی کراچی کے حوالے سے سرگرمی دکھا رہی تھیں، ان کو بھی نہیں پوچھا گیا۔ وزیراعظم کے دورہ کراچی  پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ماضی میں وزیراعظم نے کراچی کے لئے جو اعلانات کئے تھے ان کا کیا ہوا؟  حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے پاس کراچی کو ینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ عمران خان کو کراچی کے شہریوں نے ووٹ دیئے لیکن وہ صرف دورے کی رسمیں ادا کرنے آتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے  شہری علاقے کو چنا ہے اورتاجروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے، بلاول بھٹو زرداری سکھر شہر میں مہنگائی کے خلاف ریلی نکال رہے ہیں۔یہ دونوں جماعتوں کی مہم سے پتہ چلے گا کہ عام آدمی اپنے معاشی مسائل پر کس طرح سے ردعمل دیتا ہے۔ سیاست اور معیشت کا ایک دوسرے پر انحصار ہے لیکن جب یہ دونوں بحران کا شکار ہوں تو عوام پر کیا گزرے گی؟ لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ پریشان سیاسی حالات پر ہوں یا معاشی حالات پر۔
سندھ کے اخبارات  میں یہ موضوع بھی زیر بحث رہا کہ خیرپور سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ایم پی اے منور وسان اور ان کے گارڈوں نے بل منظور نہ کرنے پرمبینہ طور آڈٹ افیسر لوکل گورنمنٹ پر حملہ کیا جس پر بلدیاتی اداروں کے ملازموں نے ہڑتال کر دی تھی۔ بعد میں ڈپٹی کمشنر کی مداخلت پر ہڑتال ختم کردی گئی۔ یہ ایم پی اے پیپلزپارٹی سندھ کے سنیئر لیڈر منظور وسان کے قریبی رشتہ دار بتائے جاتے ہیں۔
 خبر ہے کہ سندھ  سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اسلح کے شوقین نکلے۔ دو تین کو چھوڑ کر باقی سب حضرات حکمران جماعت  میں رہے ہیں اور انہی کسی نہ کسی طور پر  پولیس پروٹوکول حاصل رہا ہے۔تاہم وہ اپنے پاس جدید اسلح رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائے گئے اثاثوں کے مطابق پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرادری کے پاس ایک کروڑ 66  لاکھ  روپے کی مالیت کا اسلح ہے۔ان کے پاس سب سے زیادہ اسلح بتایا جاتا ہے۔  سردار چانڈیو کے پاس ساٹھ لاکھ روپے، بلاول بھٹو زرداری کے پاس تیس لاکھ روپے شرجیل میمن کے پاس پچیس لاکھ روپے کا اسلح ہے۔ میر منور تالپور کے پاس تقریبا ساڑھے بارہ لاکھ روپے، بیگم فریال تالپور کے پاس پونے چودہ لاکھ  روپے،  غلام علی تالپور کے پاس پچیس لاکھ روپے،  فہمیدہ مرزا کے پاس  نو لاکھ، روپے، ذوالفقار مرزا کے پاس سولہ لاکھ روپے کا اسلح ہے الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق  تقریبا تمام اراکین اسمبلی کے پاس اسلح ہے۔
 گھوٹکی،شکارپور اور بالائی سندھ کے دیگراضلاع میں اغوا برائے تاوان  کے واقعات جاری ہیں۔ان میں سے اکثر  تاوان کی ادائیگی اور مقامی اثر رسوخ کے ذریعے رہا ہو چکے ہیں تاہم ابھی تک نصف درجن افراد  ڈاکوؤں کے پاس یرغمال ہیں۔ اس اثناٗ میں سندھ پولیس نے بلیک بک جاری کی ہے۔ ”روزنامہ پنہنجی اخبار“ اداریے میں لکھتا ہے کہ چند ہفتے قبل سندھ پولیس نے  150 خطرناک مجرموں کی تصاویر سمیت تفصیلات سے متعلق  بلیک بوک چھپوا کر تھانوں پر کھ دی ہے۔ان جرائم پیشہ افراد کے سر کی قیمت دو لاکھ سے  چالیس لاکھ روپے تک مقرر کی گئی ہے۔ بلیک بک میں ہر جرائم پیشہ فرد کی ذاتی معلومات اور جرائم کا ریکارڈ شامل ہے۔ یہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ مختلف تھانوں کو پتہ چلے کہ کون کون ملزم مطلوب اور روپوش ملزم ہے،  سندھ پولیس کی یہ کوشش پرانے انگریز دور کی ذہنیت کا تسلسل لگتی ہے۔ جب جرائم پیشہ افراد کی تصاویر تھانوں پر لٹکادی جاتی تھی۔ اس بلیک بوک  میں ملزم کے قد،، عمر، بالوں کے رنگ،  تاریخ پیدائش سے متعلق تمام معلومات موجود ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ آج کل وہ کہاں ہے؟  سندھی میں کہاوت ہے کہ پولیس کو سب پتہ ہے۔پولیس یہ بھی جانتی ہے کہ اس کی حد میں کون کون جرائم پیشہ ہے؟  وہ کن جرائم میں ملوث ہے؟ اس کا طریقہ واردات کیا ہے۔ اور کہاں ہوتا ہے؟  تھانیدار کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کس جرائم پیشہ  فردکے پیچھے کون سی بااثر شخصیت ہے؟  عام طور پر پولیس کی ان جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ایک مفاہمت ہوتی ہے کہ وہ  بھلے اس کی حدود  میں رہیں، لیکن جرم کسی اور حدود میں کریں۔ نتیجے میں لوگ اغوا ہوتے ہیں اور بعد میں تاوان ادا کر کے رہائی پاتے ہیں۔ اصل میں پولیس میں کالی بھیڑیں موجود ہیں، جس کی وجہ سے مجرموں کے خلاف نہ کامیاب آپریشن ہو پاتا ہے اور نہ ہی کامیاب کارروائی۔
 سندھ میں اب بچوں کے خلاف جرائم کی خبریں آرہی ہیں۔ تین روز قبل شکارپور سے لاپتہ ہونے والے تین اسکولی طالب علم فیصل آباد سے برآمد ہوئے ہیں۔ حیدرآباد میں دو چھوتے بہن بھائیوں کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا۔ لڑکا شدید زخمی حالت میں بازیاب ہوا، لیکن بعد میں زخموں کی تاب نہ  لا کر فوت ہو گیا۔اب مغویہ بچی کی لاش ملی ہے جسے جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ روزنامہ کاوش کے مطابق نو دیرو  میں ایچ آئی وی کے  906 پازیٹو کیس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ اکثر رشتہ داروں نے ان متاثرہ افراد سے  تعلق ختم کردیا ہے۔ ان سماجی رویوں کی وجہ سے  متاثرہ افراد پریشان ہیں۔حکومت کی جانب سے مریضوں کو ادویات اور دیگر سہولیات نہ مل سکیں۔ تاحال ان متاثرہ افراد کی بحالی اور علاج کے لئے اعلان کردہ مراکز نے بھی کام شروع نہیں کیا ہے۔ 

Saturday, July 6, 2019

سندھ ، پانی کی شدید کمی، زراعت تباہ


https://www.naibaat.pk/05-Jul-2019/24508
 خاص طور پر زیریں علاقوں میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ سندھ کے اخبارات اس طرح کی خبروں اور مضامین سے بھرے ہوئے ہیں۔ روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ غذائیت کی قلت سے لیکر پانی کی قلت، موسمیاتی تبدیلیوں، زیر زمین پانی کے آلودہ ہونے، زمین سمندر برد ہونے، کے ساتھ ساتھ خشک سالی اور بیروزگاری سمیت متعدد مسائل کا شکار ہے۔ صوبے کی ٹیل اینڈ میں پانی نہ پہنچنے کی وجہ سےزراعت تقریبا ختم ہو چکی ہے، یہاں کی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم، کینالوں کے شروع میں پانی کیچوری، مونگے توڑنے ، کینالوں میں سے مشینوں کے ذریعے براہ راست پانی چوری کرنے ، بااثر سیاسی لوگوں کی مداخلت، محکمہ آبپاشی کی کرپشن، کینالوں پر لگے گیج کی ناپ میں ہیراپھیری، آبپاشی نظام میں اصلاحات نہ لانے کے اثرات بری طرح سے زرعی پیداوار اور معیشت پر پڑ رہے ہیں۔ کاشتکار اس ضمن میں اظہار بھی کرتے رہے ہیں لیکن صوبائی و وفاقی حکومتوں نے ان شکایات و مسائل کا سنجیدگی سے نوٹس نہیں لیا۔

پانی کی قلت کی وجہ سے جہاں غربت میں اضافہ ہوا ہے وہاں دیہی علاقوں کی آبادی شہروں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہو گئی۔ گزشتہ ایک دہائی سے پانی کی قلت میں شدت آئی ہے۔ اب دیہی علاقوں میں زراعت کو تو چھوڑیئے پینے کے لئے بھی دستیاب نہیں۔ اب مون سون کے موسم میں بھی پریشان ہیں۔ سکھر بیراج سے نکلنے والے کینالوں روہڑی کینال، نارا کینال، رائیس کینال، اور دودو کینال خواہ کوٹری سے نکلنے والے اکرم واہ، پھیلی، اور کے بی فیڈر سے نکلنے والی شاخوں کے آخری سرے پر پانی کی رسد کا برا حال ہے۔ پانی کی چوری کی وجہ سے اس تکلیف دہ صورتحال میں مزیداضافہ ہورہا ہے۔

Friday, June 28, 2019

افغان پناہ گزین ، ٹڈی دل اور سندھ


افغان پناہ گزین ، ٹڈی دل اور سندھ

سندھ نامہ سہیل سانگی

28-Jun-2019 

 ابھی سندھ صوبے میں ایچ آئی وی سے لڑ رہا تھا کہ دو اور مسائل افغان پناہ گزینوں کے قیام میں توسیع اور ٹڈی دل کے حملے کی لپیٹ میں آگیا ہے۔” روزنامہ پنہنجی اخبار“ لکھتا ہے کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت تیس جون کو ختم ہو رہی ہے۔ قرضوں کی دل دل میں پھنسے پاکستان کے شہریوں کی حالت بھی پناہ گزینوں سے کم نہیں۔ باقی سہولیات کو چھوڑیئے، پانی کا صاف پانی بھی میسر نہیں لوگ گٹر کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پناہ گزینوں کو ٹہرانے والاپاکستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ جبکہ امن و امان کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 153 نمبر پر ہے۔ضیا

¾ دور سے لیکر ان پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں مسلسل توسیع کی جاتی رہی ہے۔ سیکیورٹی اداروں نے بھی ان پانہ گزینوں کو امن و امان خراب کرنے کے لئے ذمہ دار قرار دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائیم افغاان پناہ گزین ملوث ہیں۔ ان میں سے اکثر کے پاس روزگار نہیں، تو پھر ان کی قیام کی مدت میں کیوں تودیع کی جارہی ہے؟ افغان پناہ گزینوں کو ٹہرانے کی وجہ سے دہشتگردی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ درگاہ قلندر شہباز، مزار نورانی اور دیگر مقامات ان کے نشانے پر رہے۔ آرمی پبلک اسکول پشاور بھ اور باچا خان یونیورسٹی کے واقعات کے بعد عوام میں غم و غصے کی لہر دور گئی۔ اور تمام حلقے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے لگے۔ تب سیکیورٹی ادارے بھی حرکت میں آئے اور سرچ آپریشن کر کے ہزاروں کی تعداد میں پاکستان میں مقیم افغان پناہگزینوں کو واپس بھیج دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہم واقعات اور زخم بھول جاتے ہیں اور کسی نئے سانحے کاانتظار کرنے لگتے ہیں۔ ہم غیر ممالک سے قرضے لیکر اپنے شہریوں کو پا ل رہے ہیں۔

 یہ امر فہم سے بالاترہے کہ سال ہا سال سے ان پناہ گزینوں کی تعداد وہی 14 لاکھ باتئی جارہی ہے۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ غیر رجسٹرڈ افغان پانہ گزینوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں سے چالیس لاکھ سندھ میں آبادہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ افغان بارڈر کھلا رہنا چاہئے۔ بعد میں ان کے شناختی کارڈبنا کر دینے کی بھی بات ہوئی۔ اگست 2016 میں پناہ گزینوں کے ایک وفد نے عمران سے ملاقات کی تو انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ انہیں زبردستی واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ حکومت میں آنے کے بعد عمران خان نے چلایس ہزار ٹن گندم بطور امدا افغانستان کو بھیجی، جب تھر میں قحط کی وجہ سے بچوں کی اموات واقع ہو رہی تھی۔ وفاقی حکومت نے اس قحط زدہ علاقے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ آگے چل کر یہ بھی انکشاف ہوا کہ 90 ہزار افغانیوں نے پاکستان کے شناختی کارڈ بنوا لئے ہیں۔ بعد میں یہ کارڈ بلاک کرنے کی بھی خبریں آئیں۔ لیکن بتدریج یہ بلاک کارڈز کھول دیئے گئے۔ابھی وفاقی حکومت نے چیف سیکریٹری سندھ کو خط لکھ کر غیر قانونی طور قیام پذیر تارکین وطن کو نادرا کے ذریعے رجسٹر کرنے سے متعلق تجاویز طلب کی ہیں۔ گزشتہ سال جنرل باجوہ نے میونخ میں کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک اور طالبان افغان پناہ گزین کیمپوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ انہیں باعزت طریقے سے واپس اپنے وطن بھیج دیا جائے۔ یہ تارکین وطن بتدریج سندھ کے وسائل پر قبضہ کر رہے ہیں۔ اگر وفاقی حکومت پناہ گزینوں کے قیام کی مدت میں توسیع کرنے جارہی ہے تو اس پر سندھ کو بھرپور آواز اٹھانی چاہئے۔ سندھ حکومت کو سخت موقف اختیار کرنا چاہئے۔
 سندھ اسمبلی نے تقریبا بارہ کرب روپے کا سالانہ بجٹ منظور کر لیا ہے۔ اپوزیشن نے 543 کٹوتی کی تحاریک پیش کیں جنہیں اسمبلی نے مسترد کردیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بجٹ کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ مالی بحران سندھ کی وجہ سے نہیں وفاقی حکومت کی وجہ سے ہے۔ اس سے پہلے ضمنی بجٹ کی منظوری کے موقع پر وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ مجھے ہٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں، بھلے سب کو گرفتار کرلیا جائے، جب تک اللہ اور پارٹی چاہے گی میں وزیراعلیٰ رہوں گا۔ انہوں نے اس امر پر بھی تعجب کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج نت بغیر کسی عدالتی فیصلے کے پورے سندھ صوبے کا کرپٹ قرار دے دیا ہے۔
سندھ کی میڈیا کے مطابق سندھ کے چھ اضلاع ٹڈی دل کی لپیٹ میں ہیں جس کی وجہ سے زرعی فصلوں کو زبردست نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ سندھ کے میدانی اور زرعی بیلٹ پر ٹڈی دل کی لپیٹ میں ہے۔ مٹیاری، دادو، جامشورو، نوابشاہ، نوشہروفیروز، سانگھڑ، اور خیرپور اضلاع میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب ان کا رخ پنجاب کی طرف ہے۔ اڑنے والے کیڑے پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو زرعی شعبے کو بڑانقصان پہنچے گا۔اگرچہ ٹڈی دل کا حالیہ لشکر مارچ میں ایران میں داخل ہو چکا تھا، لیکن وفاق و صوبائی حکومت بلوچستان اور سندھ نے پیشگی تیاری نہیں کی۔ضلعی حکام سندھ حکومت کو خطوط لکھ رہے ہیں۔ مون سون کی وجہ سے ان کی افزائش نسل میں اضافہ ہوگا۔ اس کے بعد صورتحال اور بھی خطرناک ہو جائے گی۔
پاکستان میں پچاس، ساٹھ اور نوے کے عشروں میں ٹدی دل کے حملے ہوئے تھے۔ آخری مرتبہ ٹڈی دل کا حملہ پاکستان میں 1993 اور 1997 میں ہوا تھا۔ ایک مرتبہ پھر بلوچستان سے لیکر سندھ کے مخلتف اضلاع کے تین لاکھ مربع کلو میٹر کے علاقے میں پھیل چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ پنجاب کے ریگستانی علاقوں میں بھی داخل ہونگے۔ اس مرتبہ افریقہ کے ممالک سوڈان اور اریٹریا سے شروع ہوا اور یمن، سعودی عرب سے ہوتے ہوئے ایران پہنچے جہاں چار لاکھ مربع کلومیٹر کو متاثر کیا۔ یہاں سے یہ کیڑا بلوچستان میں داخل ہوا۔ تربت، دشت، گوادر، جیوانی، لسبیلہ، خضدار، اتھل، خاران دالبدین وغیرہ میں انہیں کنٹرول رکنے کی کوشش کی گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت اور عالمی ادارے فوری طور پر حرکت میں آئیں۔


https://www.naibaat.pk/28-Jun-2019/24330

https://www.pakistantoday.com.pk/2019/06/28/govt-allows-afghan-refugees-to-stay-in-pakistan-for-another-year/

The federal government has decided to extend the stay of registered Afghan refugees living in Pakistan till June 30, 2020.

The decision, notified by the Ministry of States and Frontier Regions (SAFRON), comes during Afghan President Ashraf Ghani’s ongoing visit to Pakistan and days before the current extension ends on June 30, 2019.

“In pursuance of approval of the Federal Cabinet conveyed vide Cabinet Division’s Memorandum No.550(S)/Rule-19/2019-Cab, dated 27 June, 2019, the Government of Pakistan is pleased to extend the Validity in respect of Tripartite Agreement, Proof of Registration (PoR) Cards till 30-06-2020,” read the notification.

The ministry also announced an extension in the validity of Afghan Citizen Cards (ACC) till October 31, 2019.

Prime Minister Imran Khan also informed the Afghan president about the Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI) government’s decision.

As per data collected by the United Nations High Commissioner for Refugees (UNHCR), there were 1,405,715 registered Afghan refugees and 210,465 Afghan families in Pakistan as of June 3, 2019.

The UN refugee agency defines registered Afghans as those who have valid Proof of Registration (PoR) cards issued by the Pakistani government.

The data shows the agency facilitated voluntary repatriation of 4,374,208 Afghan refugees from 2002 till December 4, 2018.

This year – till June 24, 2019 – UNHCR has facilitated the voluntary repatriation of 2,036 Afghan refugees.

At the UNHCR hosted and chaired 30th Tripartite Commission Meeting in Islamabad on June 18, Pakistan, Afghanistan and the refugee agency reaffirmed their commitment to uphold the principle of voluntary repatriation – in safety and dignity – under the Tripartite Agreement.

They called for enhanced efforts to create an environment conducive to voluntary return and sustainable reintegration in Afghanistan, and vowed to continue supporting the host communities in Pakistan, within the framework of the Solutions Strategy for Afghan Refugees (SSAR).

All three stakeholders also expressed concern at the decrease in the voluntary repatriation grant provided to Afghan refugees and encouraged the international community to increase the cash grant to its previous level of approximately $400 per individual.



June 29, 2019 
پاکستان میں وفاقی کابینہ نے اُن افغان مہاجرین کے قیام میں مزید ایک سال کی توسیع دے دی ہے جو پی او آر یعنی پروف آف رجسٹریشن کارڈز کے حامل ہوں جبکہ افغان سٹیزن کارڈز رکھنے والے افغانوں کی رہائش میں رواں سال 31 اکتوبر تک کے لیے توسیع کی گئی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان مہاجرین یو این ایچ سی آر نے پاکستانی حکومت کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پریشانی اور غیریقینی کی صورتحال سے دوچار افغان مہاجرین کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔
پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے ترجمان قیصر آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا ادارہ ایک سال کی مزید توسیع کے اس فیصلے اور افغانوں کی بہترین مہمانداری کرنے پر پاکستانی حکومت اور عوام کا شکرگزار ہے، جو چار دہائیوں سے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یواین ایچ سی آر پاکستان کو ان پریشان مہاجرین کے لیے ایک ایسا میزبان تصور کرتی ہے جس کی مثال دی جاسکتی ہے اور کہا کہ ان کا ادارہ اس بہترین کردار کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت جاری رکھے گا۔
  یوں تو پاکستان میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد ایک اعشاریہ چار ملین یعنی 14 لاکھ ہے لیکن بہت سارے افغان ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو مہاجر کے طور پر رجسٹر نہیں کروایا۔ ایک اندازے کے مطابق ان رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ افغانوں کی مجموعی تعداد 40 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان نے سال 2017 میں ایسے آٹھ لاکھ افغانوں کو، جو مہاجر کے طور پر پروف آف رجسٹریشن کے حامل نہیں ہیں، کو افغان سٹیزن کارڈ کے ذریعے رجسٹر کیا تھا۔
پاکستان کی وزارت برائے سٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنز سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے سہ فریقی معاہدے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پی او آر کارڈز کے حامل افغانوں کو مزید ایک سال تک قیام کی منظوری دی ہے جبکہ افغان سٹیزن کارڈز کے حامل لوگوں کے لیے مدتِ قیام میں رواں سال کے اکتوبر کی آخری یعنی 31 تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ سہ فریقی کمیشن کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں افغانستان، پاکستان اور یو این ایچ سی آر کے حکام شامل ہوتے ہیں اور یہ ایک طرح کی گورننگ باڈی کا کام کرتی ہے۔ پاکستان میں سیفران جبکہ افغانستان میں مہاجرین کے وزیر اس کمیشن کے اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں جبکہ دونوں ملکوں میں یو این ایچ سی آر کے حکام اس کمیشن کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کا آخری اجلاس چند روز قبل ہی اسلام آباد میں ہوا تھا۔
قیصر آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان دنیا بھر میں غیرملکی مہاجرین کو پناہ دینے والا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں پر 14 لاکھ افغان مہاجرین زندگی گزار رہے ہیں جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک ترکی ہے جہاں پر 37 لاکھ مہاجر رہائش پذیر ہیں۔
اسلام آباد میں 20 جون کو مہاجرین کے عالمی دن کی مناسبت سے ہونے والی تقریب سے خطاب کے دوران یو این ایچ سی آر کے نمائندوں نے بتایا تھا کہ اس وقت دنیا بھر میں 85 فیصد مہاجرین ترقی پذیر ممالک میں آباد ہیں جبکہ صرف 15 فی صد ترقی یافتہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے وزیر سیفران شہریار آفریدی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک 85 فیصد مہاجرین کا بوجھ اٹھارہے ہیں خصوصاً پاکستان، جسے خود بھی مالی بحران کا سامنا ہے، گذشتہ چار دہائیوں سے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔
کابینہ اجلاس کے بعد وزارت سیفران سے جاری اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کابینہ نے توسیع کے ساتھ ساتھ 18 جون کو اسلام آباد میں اس حوالے سے ہونے والے سہ فریقی اجلاس کے اعلامیے کی بھی منظوری دی۔ مذکورہ سہ فریقی اجلاس میں پاکستان، افغانستان اور یو این ایچ سی آر کے وفود نے شرکت کی تھی، جس کے اعلامیے میں 40 سال تک اتنی بڑی تعداد میں افغانوں کی مہمانداری کرنے پر اس کے کردار کی تعریف کی گئی تھی۔ اس اجلاس میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ ان افغانوں کو رضاکارانہ اور باعزت طریقے سے وطن واپس لوٹنے کے قابل بنایا جائے گا۔ سہ فریقی اجلاس کے اختتامی بیان میں رضاکارانہ وطن واپس لوٹنے والوں کے لیے رقم میں کمی پر تشویش ظاہر کی گئی تھی اور مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس رقم میں اضافہ کیا جائے۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ سال 2002 سے اب تک 43 لاکھ افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر واپس لوٹ چکے ہیں جو کہ یو این ایچ سی آر کی تاریخ میں سب سے بڑی رضاکارانہ واپسی سمجھی جارہی ہے۔ ان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ افغان سال 2016 میں اُس وقت واپس وطن لوٹے، جب واپس جانے والے ہر افغان کے لیے گرانٹ 200 ڈالر سے بڑھا کر 400 ڈالر کی گئی، تاہم بعد ازاں سال 2017 میں یہ گرانٹ واپس کم کرکے 200 ڈالر فی کس کردی گئی۔ پاکستان کی جانب سے فی کس گرانٹ کو واپس 400 ڈالر کرنے کے لیے کوششیں بھی کی گئیں تاکہ زیادہ سے زیادہ افغان وطن واپس جاسکیں۔