سندھ نامہ سہیل سانگی
میڈیا میں سندھ کی نگران حکومت کے بعض اقدامات رپورٹ ہونے کے بعد سیاسی، انتظامی اور سماجی حلقے اس کی کارکردگی اور اختیارات سے تجاوز کرنے سے متعلق سوالات اٹھار ہے ہیں۔ روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ نگران حکومت نے صوبے میں بڑے پیمانے پر تقرر اور تبادلے کے بعد اب مختلف محکموں میں ترقیاتی منصبوں پر بھی عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز، سندھ فیز ٹو کے تحت واٹر سپلائی، اورنکاسی آب کے سولر منصوبے شروع کر دیئے ہیں۔ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ و دیہی ترقی کے وزیر سید مشتاق شاہ کے زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں ضلع ہیڈکوارٹرز میں ایک ارب پینتالیس کروڑ روپے کی لاگت سے 23 واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کی جائیں گی۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پینے کے پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے لئے 66کروڑ 61 لاکھ روپے کی لاگت سے یہ ترقیاتی کام شروع کی جائیں گی۔ وزارت قانون کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نگران سیٹ کے وزراء کو اس طرح کے منصوبے شروع کرنے کا اختیار نہیں۔ لیکن نگران وزیراعلیٰ نے ان منصوبوں کی منظوری دیتے ہوئے ان پر کام شروع کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
عسکری پارک کے واقعہ کی خبر میڈیا اور سماجی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔عسکری پارک کراچی میں جھولا گرنے کے واقعہ میں پارک انتظامیہ نے تکنیکی نقص تسلیم کرلیا ۔ تاہم جھولا گرنے کے واقع کے بعد سندھ حکومت نے شہر میں تین دن کے لئے جھولے بند کر دیئے تھے۔ لیکن تاحال شہر میں موجود پارکوں میں لگائے گئے جھولوں کا معائنہ نہیں کیا جاسکا۔یاد رہے کہ ابھی تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی چھٹیوں کے آخری ہفتے ہیں۔ یہ سوال کیا جارہا ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک انتظامی معاملہ تھا، جو اس کے ہی دور میں رونما ہوا ہے۔ لیکن سندھ کی نگران حکومت کی ترجیح نہیں بنا۔
نگرانوں کے حالیہ فیصلے کے بعد سندھ میں کنٹریکٹ پر تعینات تعلیمی بورڈز کے چیئرمینز کے پہلی بار تبادلوں سے اب سندھ کے جامعات کے وائس چانسلرز کے تبادلوں کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔اور محکمہ بورڈز و جامعات کسی بھی وائس چانسلر کا پسند نا پسند یا خراب کارکردگی پر تبادلہ کرسکے گا۔ قواعد کے تحت تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کا تبادلہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ چیئرمین بورڈ ایک مدتی اسامی ہوتی ہے اور اس پر تقرر کنٹریکٹ کی بنیاد پر مخصوص بورڈ میں کیا جاتا ہے، جبکہ اہلیت بھی مختلف ہوتی ہے ٹیکنکل بورڈ کے لئے فنی تعلیم کا تجربہ ضروری ہے جبکہ عام بورڈ کے لئے تجربہ اور قابلیت الگ ہوتی ہے۔تعلیمی ماہرین تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کے تبادلوں کو افسوسناک اور نگراں حکومت کی ناتجربہ کاری قرار دے رہے ہیں۔ سوال کیا جارہا ہے کہ جب چیئرمین بورڈز کا انتخابات میں کوئی کردار نہیں ہوتا تو ان کے تبادلوں کی ضرورت ہی پیش کیوں آئی؟۔ ادھر تعلیمی بورڈز کے چیئرمین کے پہلی بار تبادلوں سے میٹرک نتائج بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ کے روڈ مو ت کا سامان بنے ہوئے ہیں۔ بھٹ شاہ کے قریب باراتیوں سے بھری سوزوکی حادثے کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار لکھتا ہے کہ اس سانحے میں 16 افراد جاں بحق ہو گئے۔ گزشتہ دنوں نوابشاہ کے قریب ایک مسافر وین پر کوچ چڑھ گئی جس کے نتیجے میں 12 انسانی جانیں ضایع ہو گئیں۔ گزشتہ حکومت ترقی کے بڑے دعوے کرتی رہی لیکن روڈ حادثوں کے حوالے سے کوئی موثر پالیسی اور اقدامات نہ کرسکی۔ اکثر حادثے سنگل روڈ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔سیہون روڈ کئی برسوں سے ڈبل روڈ نہیں ہو سکا ہے۔ یہ روڈ اب تک سینکڑوں انسانی جانیں نگل چکا ہے۔ملک کے ہر مسئلے کی جڑ قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی ہے۔ روڈ حادثات بھی متعلقہ محکموں کی نااہلی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ اس میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا ایک بڑی وجہ ہے۔ ٹریفک پولیس اہلکار کا بنیادی فرض یہ ہے کہو ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کرائیں، لیکن ہوتا یہ ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں سے پیسے لیکر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نتیجۃ ٹریفک قوانین پر عمل نہیں ہوتا۔ اور حادثات روز کا معمول بن جاتے ہیں۔ ہمارے پاس ابھی تک ازکار رفتہ ٹریفک کا نظام چل رہا ہے۔ دنیا میں ٹریفک قوانین اور نظام جدید دور کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں سفر کو محفوظ اور آرام دہ بنایا جا چکا ہے۔ لیکن ہمارے پاس جب لوگ سفر پر نکلتے ہیں تو دائیں مانگتے ہیں کہ خیریت سے منزل مقصود تک پہنچیں۔ وہ خوف اور غیر یقینی کیفیت میں سفر کرتے ہیں۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جن سڑکوں سے حکمران گزرتے ہیں وہ کتنی اچھی اور محفوظ بنائی گئی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حادثات کے سدباب کے لئے تحقیق کے بعد ایک محفوظ اور اچھا ٹریفک نظام متعارف کرایا جائے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
تین اور خبریں بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ اخبارات میں یہ خبر بھی زیر بحث ہے کہ سابق اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی اور میئر کراچی وسیم اختر کے خلاف وسیم اختر پر آمدن سے زائد اثاثے رکھنے اور سراج درانی پر غیر قانونی بھرتیاں کرنے ایم پی ایز ہوسٹل اور سندھ اسمبلی کی بلڈنگ کی تعمیرات میں خرد برد کرنے کے الزامات پر نیب نے تحقیقات شروع کردی ہے۔ ان میں سے ایک کا تعلق پیپلزپارٹی سے اور دوسرے کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ الزام ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر اور کے کے ایم سی کے افسران کے خلاف 36 ارب روپے غیر شفاف طریقے سے خرچ کئے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی تجارت و ٹیکسٹائل کے سامنے یہ بات آئی ہے کہ نیشنل انشورنس کارپوریشن لمٹیڈ سی سے سندھ ریونیو بورڈ کو ایک ارب روپے ٹرانسفر کیے گئے تاکہ سندھ ریونیو بورڈ اپنا مالی خسارہ پورا کر سکے ۔ اس سے سندھ ریونیو بورڈ نے اپنے تمام اہداف پورے کر لئے اور چھ ماہ کی تنخواہیں بھی وصول کر لیں۔ وزارت تجارت کے ایڈیشنل سیکرٹری نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ سندھ ریونیو بورڈ سے رابطے میں ہیں جلد ہی زیادہ سے زیادہ رقم وصول کر لی جائے گی۔
کراچی کنسٹرکٹرز ایسوسی ایشن نے انکشاف کیا ہے کہ چیرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل نے 57چائینز کمپنی کو غیر قانونی طور سے لائسنس جاری کرکے قوانین کی دھجیاں اُڑھانے اور دستور کی خلاف ورزی کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ایسوسی ایشن کے چیرمین ایس ایم نعیم کاظمی کی قیادت میں وفد نے پاکستان انجینئرنگ کونسل کے وائس چیرمین سے ملاقات کی ہے ۔چیرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ لائسنس کی تجدید کا عمل شروع کیا جائے۔