سندھ کابینہ میں چار مزید وزراء کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ان میں ریٹائرڈسینئر بیوروکریٹ امتیاز شیخ، ناصر حسین شاہ، مکیش چاولہ اور فدا ڈیرو شامل ہیں۔’ مکیش چاولہکا تعلق جیکب آباد سے ہے ۔ ان کے پاس گزشتہ نو سال تک ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن کا قلمدان ہی رہا ہے۔ ان کی ہمشیرہ رتنا چاولہ سینیٹ کی رکن رہی ہیں۔پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن کرپشن کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں اور قید ہیں۔
سندھ کے کاشتکاروں کو گنے کی رقم نہ ادا ہونے کاسپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور کاشتکاروں کو رقم ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور بقایاجات ادا نہ کرنے والی شگر ملز کے خلاف مقدمہ داخل کرنے کے لئے کین کمشنر سندھ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس ضمن میں کاشتکاروں کو مقدمہ دائر کرنے کے لئے اتھارٹی دیں۔ لیکن کین کمشنر نے کاشت کاروں کو مقدمہ درج کرانے کے لئے اتھارٹی لیٹر دینے سے انکار کردیا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ضیاء الدین ہسپتال میں ان کے کمرے پرچھاپہ مار کر مبنیہ طور پر شراب برآمد کی ۔ لیکن لیبارٹری ٹیسٹ اور قیدی کے خون سے شراب کے اجزاء کی علامات نہیں ملی۔ یہ معاملہ بھی میڈیا اور عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے۔
’ ’لال بتی حیدرآباد نے لوگوں کا مرنا بھی مشکل کردیا ‘‘ کے عنوان سے ’’ روز نامہ کاوش‘‘ اداریئے میں لکھتا ہے تکالیف، کمزوریوں اور بے بسی میں گھرے ہوئے غریب لوگوں کا سندھ میں جینا مشکل ہی ہے، لیکن اب تو موت نے بھی مسائل پیدا کرنا شروع کردیئے ہیں۔ وہ لوگ جو زندگی سے تنگ آکر اس امید پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں کہ انہیں مسائل سے نجات مل جائے گی، سندھ میں مرنے کے بعد بھی مسائل ان کی جان نہیں چھوڑتے۔ حکمرانوں کے دعوؤں اور لوگوں کے مسائل کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ ثابت کرتی ہے کہ کہنے کے لئے ملک میں جمہوری حکومت ہے مگر دراصل یہخاص لوگوں کی حکومت ہے۔ اس حکومت کا عام لوگوں سے لینا دینا نہیں۔ بھلا ایسی حکومت کیسے عوامی کہلائے گی؟ جو لوگ اپنے پیاروں کو کسی ایمرجنسی میں دیہی علاقوں میں ہسپتال لے جاتے ہیں، جہاں انہیں دلجوئی کے بجائے مزید تکلیف کے ساتھ مایوسی ملتی ہے۔ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کا سول ہسپتال عرف عام ’’ لال بتی‘‘ میں تقریبا سندھ بھر سے ایمرجنسی کیسز آتے ہیں۔ اس ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے لئے اگر لیڈی ایل ایم او موجود نہ ہونے کی وجہ سے کسی عورت کی لاش حیدرآباد سے کوٹری گیارہ گھنٹے تک التی رہے، اس سے بڑھ کر حکمرانوں اور افسران کی بی حسی کیا ہوگی؟ یہصرف ایک دن کی بات نہیں اور نہ ہی صرف ایک خبر ہے۔ سندھ بھر سے روزانہ سرکاری ہسپتالوں سے ایسی خبریں آتی ہیں, جو دکھ کی کہانی نہیں بلکہ داستان ہیں۔ دکھ کی یہ داستانیں تاحال حاکم وقت کے دل کو جھنجھوڑ نہیں سکی ہیں۔ نسیم نگر حیدرآباد تھانہ کی حد میں گوٹھ دریا خان چانڈیو کی اٹھارہ سالہ عائشہ پراسرار حالات میں دریا میں ڈوب کر فوت ہو گئی۔ پولیس کیس ہونے کی وجہ سے اس کی لاش گیارہ گھنٹے تک حیدرآباد اور کوٹری لائی جاتی رہی۔ لیکن لیڈی ایل ایم او نہ ہونے کی وجہ سے اس کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا جاسکا۔ لال بتی کی ایل ایم او چھٹی پر تھی، کوٹری کی میڈیکو لیگل افسر ڈیوٹی پر موجود نہیں تھی۔ یہ ہے سندھ کی مثالی حکمرانی کا ماڈل ، جس کے تجربے سے سندھ کے لوگ روزانہ گزرتے ہیں۔ حکمرانوں کو اس خراب حکمرانی کا نہ احساس ہے، نہ ہی وہ عوام کی بات ماننے اور سننے کو تیار ہیں کہ سندھ میں مسائل خراب حکمرانی کی وجہ سے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں ایم ایس اور دیگر انتظامی عہدوں پر سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے ڈاکٹر تعینات ہیں۔ ان سے محکمہ کا سیکریٹری یا ڈائریکٹر تو چھوڑیئے وزیر بھی پوچھ نہیں سکتا۔ اگر نچلی سطح پر دیکھا جائے، ڈاکٹر بھی اتنی ر سائی والے ہیں کہ ان سے نہ شفٹ انچارج اور میڈیکل سپرنٹینڈنٹ پوچھنے کا حق رکھتا ہے۔ بدانتظامی سندھ میں اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ انتظام اتنا خراب ہو چکا ہے کہ اب اکثر لوگ اس کی بہتری سے ناامید ہوچکے ہیں۔ جو لوگ بحالت مجبوری سرکاری ہسپتال جاتے ہیں، ان سے ہسپتال کے ڈاکٹر اور عملہ ایسا سلوک کرتا ہے کہ وہ مرض کی تکلیف بھول جاتے ہیں۔اور انہیں ڈاکٹروں اور عملہ کا ناروا سلوک ہی یاد رہتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں سے ایک سرنج سے لیکر معمولی ٹیسٹ اور ایکسرے تک اتنا دوڑایا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں بھی سرکاری ہسپتال آنے کی جرأت ہی نہیں کرتے۔ سندھ کے سرکاری ہسپتال کسی طور پر بھی ایسے نہیں کہ لوگ اعتماد کے ساتھ علاج کرانے کے لئے آئیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں زیادہ تر وہ لوگ آتے ہیں جو نجی ہسپتالوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمارے صوبے کے سرکاری ہسپتال اس طبقے کے لئے ہیں جس کی آواز اور چیخ پکار کوئی نہییں سنتا۔
سندھ میں محکمہ صحت کا قلمدان اچھی شہرت رکھنے والی خاتون کے پاس ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اپنے دور میں اس بیمار محکمہ میں کچھ نہ کچھ بہتری ضرور لا سکتی ہیں۔اس ضمن میں اولین شرط پوچھنے کی ہے۔
’’ حکمرانوں کی لاتعلقی کا شکار روڈ حادثوں کے متاثرین ‘‘کے عنوان سے روز نامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ جامشورو سے سہون تک انڈس ہائی وے اب موت کا گھاٹ بن چکا ہے۔ آئے دن کوئی ایسا حادثہ ہوتا ہے جس میں درجنوں جانیں ضایع ہو جاتی ہیں۔ اب تک پیش آنے والے واقعات میں ایک ہی خاندان کے دس سے دو تک افراد اجل کا شکار ہو چکے ہیں۔ باقی واقعات میں بھی سینکڑوں انسانی جانیں جا چکی ہیں۔ جمعہ کے روز تھرمل پاور کے پاس پیش آنے والے حادثے میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے۔ ان میں سات افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ ایک زخمی نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔ تین زخمی ابھی تک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ایسے واقعات اب معمول بن چکے ہیں۔ لیکن حکمران ذرا بھی توہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ سندھ حکومت ترقی کے بڑے بڑے دعوے کرتی رہتی ہے لیکن ابھی تک انڈس ہائی وے کو ڈبل روڈ نہیں کر سکی ہے۔ جبکہ انڈس ہائی وے پر پیش آنے والے واقعات کی وجہ اس روڈ کا سنگل ہونا ہے۔ یہ حکمرانوں کی غفلت ہے یا لاپروائی کہ شاہراہ کا وہ حصہ جو سینکڑوں انسانی جانیں نگل چکا ہے وہاں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہم کیسے مانیں کہ لوگ حادثات کا شکار ہو رہے ہیں؟ دراصل یہ لوگ تو حکمرانوں کی غفلت، لاپروائی اور عوام سے لاتعلقی کا شکار ہو رہے ہیں۔ حادثات میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کی موت کے اصل ذمہ دار حکمران ہی ہیں، جو روڈ کی تعمیر نہیں کرسکے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک عوام کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اگر واقعی کوئی معنی رکھتی تو کیا لوگ یوں مرتے رہتے اور حکومت خاموش رہتی؟
سندھ کے کاشتکاروں کو گنے کی رقم نہ ادا ہونے کاسپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور کاشتکاروں کو رقم ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور بقایاجات ادا نہ کرنے والی شگر ملز کے خلاف مقدمہ داخل کرنے کے لئے کین کمشنر سندھ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس ضمن میں کاشتکاروں کو مقدمہ دائر کرنے کے لئے اتھارٹی دیں۔ لیکن کین کمشنر نے کاشت کاروں کو مقدمہ درج کرانے کے لئے اتھارٹی لیٹر دینے سے انکار کردیا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ضیاء الدین ہسپتال میں ان کے کمرے پرچھاپہ مار کر مبنیہ طور پر شراب برآمد کی ۔ لیکن لیبارٹری ٹیسٹ اور قیدی کے خون سے شراب کے اجزاء کی علامات نہیں ملی۔ یہ معاملہ بھی میڈیا اور عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے۔
’ ’لال بتی حیدرآباد نے لوگوں کا مرنا بھی مشکل کردیا ‘‘ کے عنوان سے ’’ روز نامہ کاوش‘‘ اداریئے میں لکھتا ہے تکالیف، کمزوریوں اور بے بسی میں گھرے ہوئے غریب لوگوں کا سندھ میں جینا مشکل ہی ہے، لیکن اب تو موت نے بھی مسائل پیدا کرنا شروع کردیئے ہیں۔ وہ لوگ جو زندگی سے تنگ آکر اس امید پر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں کہ انہیں مسائل سے نجات مل جائے گی، سندھ میں مرنے کے بعد بھی مسائل ان کی جان نہیں چھوڑتے۔ حکمرانوں کے دعوؤں اور لوگوں کے مسائل کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ ثابت کرتی ہے کہ کہنے کے لئے ملک میں جمہوری حکومت ہے مگر دراصل یہخاص لوگوں کی حکومت ہے۔ اس حکومت کا عام لوگوں سے لینا دینا نہیں۔ بھلا ایسی حکومت کیسے عوامی کہلائے گی؟ جو لوگ اپنے پیاروں کو کسی ایمرجنسی میں دیہی علاقوں میں ہسپتال لے جاتے ہیں، جہاں انہیں دلجوئی کے بجائے مزید تکلیف کے ساتھ مایوسی ملتی ہے۔ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کا سول ہسپتال عرف عام ’’ لال بتی‘‘ میں تقریبا سندھ بھر سے ایمرجنسی کیسز آتے ہیں۔ اس ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کے لئے اگر لیڈی ایل ایم او موجود نہ ہونے کی وجہ سے کسی عورت کی لاش حیدرآباد سے کوٹری گیارہ گھنٹے تک التی رہے، اس سے بڑھ کر حکمرانوں اور افسران کی بی حسی کیا ہوگی؟ یہصرف ایک دن کی بات نہیں اور نہ ہی صرف ایک خبر ہے۔ سندھ بھر سے روزانہ سرکاری ہسپتالوں سے ایسی خبریں آتی ہیں, جو دکھ کی کہانی نہیں بلکہ داستان ہیں۔ دکھ کی یہ داستانیں تاحال حاکم وقت کے دل کو جھنجھوڑ نہیں سکی ہیں۔ نسیم نگر حیدرآباد تھانہ کی حد میں گوٹھ دریا خان چانڈیو کی اٹھارہ سالہ عائشہ پراسرار حالات میں دریا میں ڈوب کر فوت ہو گئی۔ پولیس کیس ہونے کی وجہ سے اس کی لاش گیارہ گھنٹے تک حیدرآباد اور کوٹری لائی جاتی رہی۔ لیکن لیڈی ایل ایم او نہ ہونے کی وجہ سے اس کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا جاسکا۔ لال بتی کی ایل ایم او چھٹی پر تھی، کوٹری کی میڈیکو لیگل افسر ڈیوٹی پر موجود نہیں تھی۔ یہ ہے سندھ کی مثالی حکمرانی کا ماڈل ، جس کے تجربے سے سندھ کے لوگ روزانہ گزرتے ہیں۔ حکمرانوں کو اس خراب حکمرانی کا نہ احساس ہے، نہ ہی وہ عوام کی بات ماننے اور سننے کو تیار ہیں کہ سندھ میں مسائل خراب حکمرانی کی وجہ سے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں ایم ایس اور دیگر انتظامی عہدوں پر سیاسی اثر رسوخ رکھنے والے ڈاکٹر تعینات ہیں۔ ان سے محکمہ کا سیکریٹری یا ڈائریکٹر تو چھوڑیئے وزیر بھی پوچھ نہیں سکتا۔ اگر نچلی سطح پر دیکھا جائے، ڈاکٹر بھی اتنی ر سائی والے ہیں کہ ان سے نہ شفٹ انچارج اور میڈیکل سپرنٹینڈنٹ پوچھنے کا حق رکھتا ہے۔ بدانتظامی سندھ میں اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ انتظام اتنا خراب ہو چکا ہے کہ اب اکثر لوگ اس کی بہتری سے ناامید ہوچکے ہیں۔ جو لوگ بحالت مجبوری سرکاری ہسپتال جاتے ہیں، ان سے ہسپتال کے ڈاکٹر اور عملہ ایسا سلوک کرتا ہے کہ وہ مرض کی تکلیف بھول جاتے ہیں۔اور انہیں ڈاکٹروں اور عملہ کا ناروا سلوک ہی یاد رہتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں سے ایک سرنج سے لیکر معمولی ٹیسٹ اور ایکسرے تک اتنا دوڑایا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں بھی سرکاری ہسپتال آنے کی جرأت ہی نہیں کرتے۔ سندھ کے سرکاری ہسپتال کسی طور پر بھی ایسے نہیں کہ لوگ اعتماد کے ساتھ علاج کرانے کے لئے آئیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں زیادہ تر وہ لوگ آتے ہیں جو نجی ہسپتالوں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمارے صوبے کے سرکاری ہسپتال اس طبقے کے لئے ہیں جس کی آواز اور چیخ پکار کوئی نہییں سنتا۔
سندھ میں محکمہ صحت کا قلمدان اچھی شہرت رکھنے والی خاتون کے پاس ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اپنے دور میں اس بیمار محکمہ میں کچھ نہ کچھ بہتری ضرور لا سکتی ہیں۔اس ضمن میں اولین شرط پوچھنے کی ہے۔
’’ حکمرانوں کی لاتعلقی کا شکار روڈ حادثوں کے متاثرین ‘‘کے عنوان سے روز نامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ جامشورو سے سہون تک انڈس ہائی وے اب موت کا گھاٹ بن چکا ہے۔ آئے دن کوئی ایسا حادثہ ہوتا ہے جس میں درجنوں جانیں ضایع ہو جاتی ہیں۔ اب تک پیش آنے والے واقعات میں ایک ہی خاندان کے دس سے دو تک افراد اجل کا شکار ہو چکے ہیں۔ باقی واقعات میں بھی سینکڑوں انسانی جانیں جا چکی ہیں۔ جمعہ کے روز تھرمل پاور کے پاس پیش آنے والے حادثے میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے۔ ان میں سات افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ ایک زخمی نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔ تین زخمی ابھی تک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ایسے واقعات اب معمول بن چکے ہیں۔ لیکن حکمران ذرا بھی توہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ سندھ حکومت ترقی کے بڑے بڑے دعوے کرتی رہتی ہے لیکن ابھی تک انڈس ہائی وے کو ڈبل روڈ نہیں کر سکی ہے۔ جبکہ انڈس ہائی وے پر پیش آنے والے واقعات کی وجہ اس روڈ کا سنگل ہونا ہے۔ یہ حکمرانوں کی غفلت ہے یا لاپروائی کہ شاہراہ کا وہ حصہ جو سینکڑوں انسانی جانیں نگل چکا ہے وہاں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہم کیسے مانیں کہ لوگ حادثات کا شکار ہو رہے ہیں؟ دراصل یہ لوگ تو حکمرانوں کی غفلت، لاپروائی اور عوام سے لاتعلقی کا شکار ہو رہے ہیں۔ حادثات میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کی موت کے اصل ذمہ دار حکمران ہی ہیں، جو روڈ کی تعمیر نہیں کرسکے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ حکمرانوں کے نزدیک عوام کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اگر واقعی کوئی معنی رکھتی تو کیا لوگ یوں مرتے رہتے اور حکومت خاموش رہتی؟
http://bathak.com/daily-nai-baat-newspapers/column-sohail-saangi-sep-8-2018-178524