05-Oct-2018
گزشتہ ہفتے سندھ میں مختلف سرگرمیاں سامنے آئی ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں صورت حال اور کچھ ماحول تبدیل ہوگا۔ گزشتہ تین سال سے سندھ کے کاشتکار گنے کی بروقت کٹائی اور قیمت صحیح نہ ملنے کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔ لیکن سندھ حکومت نے ان کی ایک بھی نہ سنی۔ بعد میں سندھ حکومت نے شوگرملز کو سبسڈی دی، جس کے ذریعے کاشتکاروں کو معمولی ریلیف ملا۔ اب شوگر ملز کا موسم دوبارہ شروع ہونے والا ہے۔ منی لانڈرنگ کیس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی نے اومنی گروپ کی 13 شوگر ملز کو سال 2013ء سے 2017ء تک دی گئی سبسڈی کیتفصیلات طلب کر لی ہیں۔ شوگر ملز کو ڈھائی ارب روپے کی سبسڈی دینے کے بعد مزید ڈیڑھ ارب روپے کی سبسڈی دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ شوگر ملزکے حوالے سے واٹر کمیشن نے گنے کا سیزن شروع ہونے سے پہلے شوگر ملز کو ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کی ہدایت کی ہے۔ کراچی میں صفائی کا معاملہ شہریوں کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے۔ اس ضمن میں کراچی میونسپل اور نہ سندھ حکومت کوئی موثر اقدامات کر سکی۔ بعد میں ایک چینی کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا لیکن اس کی کارکردگی بھی متاثر کن نہیں رہی۔ کمپنی نے بعض رکاوٹوں کی نشاندہی کی ہے ۔ واٹرکمیشن نے چینی کمپنی کے مطالبے پر دس روز کے اندر کراچی میں صفائی کے لئے مطلوبہ مشینری اور ملازموں کی کمی پوری کرنے اور چینی افسران کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ کراچی میں واٹر بورڈ اور کے ایم سی کی پانچ ارب روپے مالیت کی زمین چائنا کٹنگ کے ذریعے سیاسی کارکنوں اور دیگر افراد کو الاٹ کرنے کی تحقیقات تیز ہو گئی۔ کراچیکے سابق میئر اور پا ک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کو ایک سوالنامہ بھیج کر زمین کی الاٹمنٹ کے بارے میں پوچھا گیا ہے کہ فلاحی مقاصد کےلئے مخصوص کی گئی زمین 7 ہزار افراد کو کس قانون کے تحت الاٹ کی گئی؟ اینٹی کرپشن کے سامنے سابق میئر اور 12 افسران نے بیانات ریکارڈ کرائے ہیں۔ حیدرآباد ریونیو آفس میں سندھ بورڈ آف ریونیو کے 7ممبران گزشتہ 15 برسوں سے نہیں بیٹھ رہے ہیں جس کی وجہ سے زمین سے متعلق ہزاروں معاملات
اور مقدمات حل نہیں ہو سکے ہیں۔پورٹ قاسم کے ملازمین ایک ہفتے سے احتجاج پر ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ تھر میں قحط کے متاثرین کی امدادی کاروائیاں شروع تو کی ہیں لیکن امدادی گندم کی تقسیم کا مرکز تحصیل ہید کوارٹر رکھنے کی وجہ سے مستحقین کی وہاں تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔ کئی دیہات تحصیل ہیڈکوارٹرز سے ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر ہیں۔
ربیع کے موسم میں سندھ کو کم پانی ملنے کی اطلاعات کے بعد سندھ کے تمام اخبارات نے اس موضوع پر اداریے اور مضامین لکھے ہیں۔ ’’کیا سندھ ربیع میںبھی پیاسا رہے گا؟‘‘ کے عنوان سے ’’روزنامہ سندھ ایکسپریس‘‘ لکھتا ہے کہ وفاق اور چھوٹے صوبوں کے درمیان معاملات ماضی میں بھی زیادہ مثبت نہیں رہے ہیں لیکن جب سے تحریک انصاف حکومت میں آئی ہے، تب سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر وفاقی حکومت کرنا کیا چاہتی ہے؟ ملکی ترقی اور خوشحالی کے نام پر تحریک انصاف کی حکومت نے جو پالیسیاں اختیار کی ہیں، وہ براہ راست صوبائی حقوق سے متصادم ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ وفاق صوبوں کی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں۔ سندھ تمام صوبوں سے زیادہ کما کر دیتا ہے لیکن اس کے حصے میں کم رقومات آتی ہیں۔ سندھ کو پانی میں بھی جائز اور قانونی طور پر مانا ہوا حصہ نہیں دیا جارہا ہے۔ پانی کی تقسیم میں سندھ کو خریف کی موسم کے دوران شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب یہ اشارے مل رہے ہیں کہ ربیع کے موسم کے دوران بھی سندھ کو کم پانی ملے گا۔ وفاقی حکومت کے عزائم بتاتے ہیں کہ وہ کسی بھی معاہدے اور قانون کا احترام کرنا نہیں چاہتی۔ صوبائی وزیر زراعت کا کہنا ہے کہ وفاق کی جانب سے سندھ کے حصے کا پانی کم کرنے کے فیصلے کو ہم مسترد کرتے ہیں کیونکہ 91 کےمعاہدے کے تحت سندھ کو پانی نہ دینا اس صوبے کو بنجر بنانے کی سازش ہے۔صوبائی وزیر زراعت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’ ربیع میں سندھ کو اسکے حصہ کا پانی نہ ملنے کی صورت میں صوبے کی فصلیں تباہ ہو جائیں گی۔ مزید یہ کہ پنجاب کو حصے سے زیادہ پانی دینے کی صورت میں وفاقی حکومت کیکارکردگی اور رویہ کا بھی پتہ چلتا ہے۔ وزیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاؤن سٹریم کوٹری پانی نہیں چھوڑا گیا تو ساحلی پٹی کی مزید زمینیں سمندر برد ہو جائیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت سندھ کے لوگوں سے کالاباغ ڈیم کی مخالفت اور حکمران جماعت کو ووٹ نہ دینے کا بدلہ لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس وجہ سے ان صوبوں کی جانب سے سندھ کو پانی دینے کی مخالفت کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھایا جائے گا۔ ہم صوبائی وزیر زراعت کے اس موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے صوبے کے حقوقکے لئے آواز اٹھانے کا عزم کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومت بھی یہی موقف اختیار کرے گی اور سندھ میں ربیع کے موسم میں پانی کی فراہمی کویقینی بنائے گی۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے بارڈر پر ایک بار پھر ڈاکوؤں کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ اوباوڑو تحصیل کے کھنبڑا پولیس حدود میں ایک کسان کے اغوا کی کوشش پر مزاحمت کے دوران مشتاق شر کی ہلاکت سے گھوٹکی ضلع میں امن کی فاختہ اڑ گئی۔ گزشتہ چند ماہ سے اوباوڑو کے کچے کےعلاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن کے بارے میں مختلف سوالات اٹھائے جارہے تھے۔ گاؤں پنہوں خان مزار ی کے قریب زمیندار اپنے کسانوں کے ساتھ زمینوں کو پانی دے رہے تھے کہ مسلح افراد نے ان پر حملہ کردیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکو واردات کے بعد راؤنتی کی طرف چلے گئے جہاں پر ماضی میں ڈاکو سلطان شر اور دیگر ڈاکوؤں کے ٹھکانے تھے۔ راؤنی اور ماچھکو کے علاقے پس میں ملتے ہیں۔ ماچھکو پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی حدمیں ہے۔ اکثر ماچھکو اور راؤنتی کی حدود میں دونوں صوبوں کے ڈاکو مشترکہ کارروائیاں بھی کرتے ہیں۔ سندھ پولیس جب آپریشن کرتی ہے تو ڈاکو پنجاب کیطرف چلے جاتے ہیں۔ ماضی میں گھوٹکی، کندھکوٹ اور رھیم یار خان اضلاع میں مشترکہ اور بیک وقت بھی آپریشن کے گئے تھے۔ حالیہ وارداتوں سے لگتا ہے کہ یہ علاقہ تاحال کلی طور پر ڈاکوؤں سے صاف نہیں ہو سکا۔ کئی برسوں بعد اغوا کی واردات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ گزشتہ روز کوش برادریکے لوگون نے کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا اور کہا تھا کہ ڈاکو سلطان شر دوبارہ سرگرم ہو گیا ہے اور اس نے وارداتیں شروع کردی ہیں۔
اور مقدمات حل نہیں ہو سکے ہیں۔پورٹ قاسم کے ملازمین ایک ہفتے سے احتجاج پر ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں تین ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ تھر میں قحط کے متاثرین کی امدادی کاروائیاں شروع تو کی ہیں لیکن امدادی گندم کی تقسیم کا مرکز تحصیل ہید کوارٹر رکھنے کی وجہ سے مستحقین کی وہاں تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔ کئی دیہات تحصیل ہیڈکوارٹرز سے ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر ہیں۔
ربیع کے موسم میں سندھ کو کم پانی ملنے کی اطلاعات کے بعد سندھ کے تمام اخبارات نے اس موضوع پر اداریے اور مضامین لکھے ہیں۔ ’’کیا سندھ ربیع میںبھی پیاسا رہے گا؟‘‘ کے عنوان سے ’’روزنامہ سندھ ایکسپریس‘‘ لکھتا ہے کہ وفاق اور چھوٹے صوبوں کے درمیان معاملات ماضی میں بھی زیادہ مثبت نہیں رہے ہیں لیکن جب سے تحریک انصاف حکومت میں آئی ہے، تب سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر وفاقی حکومت کرنا کیا چاہتی ہے؟ ملکی ترقی اور خوشحالی کے نام پر تحریک انصاف کی حکومت نے جو پالیسیاں اختیار کی ہیں، وہ براہ راست صوبائی حقوق سے متصادم ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ وفاق صوبوں کی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں۔ سندھ تمام صوبوں سے زیادہ کما کر دیتا ہے لیکن اس کے حصے میں کم رقومات آتی ہیں۔ سندھ کو پانی میں بھی جائز اور قانونی طور پر مانا ہوا حصہ نہیں دیا جارہا ہے۔ پانی کی تقسیم میں سندھ کو خریف کی موسم کے دوران شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب یہ اشارے مل رہے ہیں کہ ربیع کے موسم کے دوران بھی سندھ کو کم پانی ملے گا۔ وفاقی حکومت کے عزائم بتاتے ہیں کہ وہ کسی بھی معاہدے اور قانون کا احترام کرنا نہیں چاہتی۔ صوبائی وزیر زراعت کا کہنا ہے کہ وفاق کی جانب سے سندھ کے حصے کا پانی کم کرنے کے فیصلے کو ہم مسترد کرتے ہیں کیونکہ 91 کےمعاہدے کے تحت سندھ کو پانی نہ دینا اس صوبے کو بنجر بنانے کی سازش ہے۔صوبائی وزیر زراعت نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ’ ربیع میں سندھ کو اسکے حصہ کا پانی نہ ملنے کی صورت میں صوبے کی فصلیں تباہ ہو جائیں گی۔ مزید یہ کہ پنجاب کو حصے سے زیادہ پانی دینے کی صورت میں وفاقی حکومت کیکارکردگی اور رویہ کا بھی پتہ چلتا ہے۔ وزیر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاؤن سٹریم کوٹری پانی نہیں چھوڑا گیا تو ساحلی پٹی کی مزید زمینیں سمندر برد ہو جائیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت سندھ کے لوگوں سے کالاباغ ڈیم کی مخالفت اور حکمران جماعت کو ووٹ نہ دینے کا بدلہ لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس وجہ سے ان صوبوں کی جانب سے سندھ کو پانی دینے کی مخالفت کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھایا جائے گا۔ ہم صوبائی وزیر زراعت کے اس موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ جنہوں نے اپنے صوبے کے حقوقکے لئے آواز اٹھانے کا عزم کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومت بھی یہی موقف اختیار کرے گی اور سندھ میں ربیع کے موسم میں پانی کی فراہمی کویقینی بنائے گی۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے بارڈر پر ایک بار پھر ڈاکوؤں کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ اوباوڑو تحصیل کے کھنبڑا پولیس حدود میں ایک کسان کے اغوا کی کوشش پر مزاحمت کے دوران مشتاق شر کی ہلاکت سے گھوٹکی ضلع میں امن کی فاختہ اڑ گئی۔ گزشتہ چند ماہ سے اوباوڑو کے کچے کےعلاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری آپریشن کے بارے میں مختلف سوالات اٹھائے جارہے تھے۔ گاؤں پنہوں خان مزار ی کے قریب زمیندار اپنے کسانوں کے ساتھ زمینوں کو پانی دے رہے تھے کہ مسلح افراد نے ان پر حملہ کردیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکو واردات کے بعد راؤنتی کی طرف چلے گئے جہاں پر ماضی میں ڈاکو سلطان شر اور دیگر ڈاکوؤں کے ٹھکانے تھے۔ راؤنی اور ماچھکو کے علاقے پس میں ملتے ہیں۔ ماچھکو پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی حدمیں ہے۔ اکثر ماچھکو اور راؤنتی کی حدود میں دونوں صوبوں کے ڈاکو مشترکہ کارروائیاں بھی کرتے ہیں۔ سندھ پولیس جب آپریشن کرتی ہے تو ڈاکو پنجاب کیطرف چلے جاتے ہیں۔ ماضی میں گھوٹکی، کندھکوٹ اور رھیم یار خان اضلاع میں مشترکہ اور بیک وقت بھی آپریشن کے گئے تھے۔ حالیہ وارداتوں سے لگتا ہے کہ یہ علاقہ تاحال کلی طور پر ڈاکوؤں سے صاف نہیں ہو سکا۔ کئی برسوں بعد اغوا کی واردات نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ گزشتہ روز کوش برادریکے لوگون نے کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا اور کہا تھا کہ ڈاکو سلطان شر دوبارہ سرگرم ہو گیا ہے اور اس نے وارداتیں شروع کردی ہیں۔
https://www.naibaat.pk/05-Oct-2018/17483