Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ میں پانی کی سیاست
سندھ نامہ سہیل سانگی
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں ٹیل کے کاشتکار احتجاج، مظاہرے اور دھرنے لگا رہے ہیں۔پانی کی تقسیم میں ہونے والی بدنظمی، چوری اور زوری کے بارے میں گزشتہ روز ایک تفصیلی رپورٹ شایع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وارابندی کے نام پر کس طرح سے محکمہ آبپاشی کے افسران کمائی کر رہے ہیں۔ اور بعض افراد کس طرح اپنا اثر رسوخ استعمال کر رہے ہیں۔ صرف نارا کینال کی ہی مثال سے بات بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ 1360 کیوسک پانی کے لئے ڈیزائین کردہ اس کینال میں 14600 کیوسکس پانی دینے کے بعد بھی پانی کی قلت کی شکایات دور نہیں ہو سکی ہے۔ میرپورخاص، تھرپارکر، عمرکوٹ اور سانگھڑ اضلاع میں خریف کی فصل صحیح طور پر بوئی نہیں جاسکی ہے۔ محکمہ آباشی اور سیڈا کے پانی وارابندی (روٹیشن) سے متعلق الگ الگ فرمان اور حوالے ہیں ۔ اس کنفیوزن سے افسران فائدہ اٹھاکر پیسے سمیٹ رہے ہیں۔ یوں اس کا وزن زراعت کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
وارابندی کے شیڈیول کا حشر یہ ہے کہ جو روٹیشن میں شاخین کھلی ہوئی دکھائی گئی ہیں عملا وہ بند پڑی ہوئی ہیں۔ اور اسی طرح س کاغوں میں بند شاخیں کھلی ہوئی ہیں اور ان میں پانی بہہ رہا ہے۔ مٹھڑاؤ کینال کی پلی مائنر شیڈیول کے مطابق 24 مئی سے کھلی رکھنی ہے۔ لیکن یہ شاخ 27 مئی تک نہیں کھل سکی تھی۔ کاشتکار کی آنکھوں کے سامنے فصل سوکھ رہی ہوتی ہے۔۔ جب یہ شاخ کھلی تو محکمہ آباشی کے افسران نے 39 کاشتکاروں کے خلاف پانی کی چوری کا مقدمہ داخل کر دیا۔ وہ پانی کے چور نہیں کہلائے جنہوں نے غیر قانونی طور پر تین روز تک پانی بند رکھا۔ لیکن جن کاشتکاروں نے آگے بڑھ کر اپنا حق حاصل کیا اور پانی کھولا وہ چور ٹہرے۔ یہ درست ہے کہ ریاست کے معمول میں دخل اندازی مثبت عمل نہیں۔ کیونکہ اس کام کے لئے سرکاری ملازم تعینات ہیں۔ لیکن جب عوام کے خادم عوام کو تکلیف اور اذیت دینے لگیں تو عوام کو کونسا راستہ اختیاار کرنا چاہئے۔
سندھ میں پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کی شکایات کی پرانی تاریخ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ زیادہ تر انتقامی کارروائی اور سیاست پانی پر ہی ہوتی رہی ہے۔ سندھ میں جو سیاست پانی کے ذریعے کی جاسکتی ہے وہ محکمہ داخلہ کے ذریعے بھی نہیں کی جاسکتی۔ حال ہی میں کنری کے علاقے میں انتقامی سیاست کا ایک کیس سامنے آیا ہے۔ پانی کی صرف غیر منصفانہ تقسیم ہی نہیں ہوتی، پانی کا معاملہ صرف بدانتظامی کا قصہ نہیں بلکہ پانی سب لوگوں کو پارٹی میں لانے کاسندھ میں حکمران جماعت کا ہتھیار ہے۔ جو بظاہر کسی کو نظر نہیں آرہا۔
سندھ میں پانی کی چوری اور سینہ زوری کرنے والوں کو عام طور پر بااثر کہا جاتا ہے۔ یہ بااثر ہر دور میں اس لئے حکومت کا حصہ بننا چاہتے ہیں تاکہ ان کی شاخیں اور واٹر کورس بند نہ ہوں۔ یہاں جتنا پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا مسئلہ ہے سندھ حکومت نے اتنی ہی کم توجہ دی ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے آبپاشی کا کوئی وزیر ہی مقرر نہیں کیا گیا۔ کچھ عرصے تک ایک مشیر کے ذریعے کام چلایا جاتا رہا۔ اس دور میں بھی پانی کی تقسیم کی شکایات رہی، صوبے کے دیہی علاقوں کی معیشت کا مکمل طور پر انھصار پانی پر ہے اور زراعت آبپاشی کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے صوبے کی ترقی اور معیشت کو بہتر بنانے کے لئے پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔
روز نامہ عبرت لکھتا ہے کہ حکومت سندھ نے صوبے میں پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کے اختیارات بلدیاتی اداروں کو دے دیئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے بجٹ کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ویزراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ کراچی کے لئے ترقیاتی فنڈ نہیں مختص کئے گئے ہیں۔ سید مرادعلی شاہ نے کہا کہ نئے این ایف سی ایوارڈ کا آنا وفاقی حکومت کی ناکامی ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ہمیں نہیں سنا گیا جبکہ مالیاتی کمیشن کے لئے ہم نے مختلف تجاویز تیار کی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران این ایف سی ایوارڈ میں سے سندھ حکومت کو 68 ارب روپے کم ملے ہیں۔
بجٹ پیش ہونے سے پہلے یہ خبریں میڈیا میں ؤئی تھیں کہ رواں مالی سال کے اہداف پورے نہیں ہوئے ہیں اور مختلف محکمے ترقیاتی بجٹ استعمال نہیں کر سکے ہیں۔ ہر سال کی طرح یہ عمل ان محکموں کی عادت سی بن گئی ہے۔ نتیجۃ ترقیاتی کام وقت پر مکمل نہیں ہوتے ۔ بجٹ میں مختلف سرکاری محکموں میں ملازمتیں دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ ماضی میں صوبائی حکومت پر یہ الزام آتا رہا ہے کہ ملازمتیں میرٹ پر دینے کے بجائے پیسوں کے عوض دی گئی۔ وزیراعلیٰ نے اس مرتبہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ملازمتیں میرٹ پر دی جائیں گی۔ ہم وفاقی حکومت کو یاد دلاتے ہیں کہ نیا این ایف ایوارڈ دینا وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔ جو وفاق پوری نہیں کر سکا۔ یہ شکایات بڑھتی جارہی ہیں کہ وفاق دوسرے صوبوں کو نظر انداز کر کے صرف ایک ہی صوبے پر پیسے خرچ کر رہاے ہے۔ صوبوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے اور اٹھارہویں ترمیم کے مطابق اختیارات دینے کی ضرورت ہے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ روبروز سنگین صورت اختیار کرتاجارہا ہے۔ صورتحال یہ جا کے بنی کہ وزیراعلیٰ سندھ کو بھی یہ کہنا پڑا کہ ’’ سندھ کے عوام اس شدید گرمی میں 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے شدت کے تجربے سے گزر رہا ہے۔‘‘ صوبے کے مختلف شہروں سے لوڈ شیڈنگ اور لوگوں کے احتجاج کی خبریں آرہی ہیں ۔ کراچی سے لے کر کشمور تک کوئی ایسا شہر نہیں جوطویل اوربدترین لوڈ شیڈنگ سے بچا ہوا ہو۔ حد ہے کہ بعض دیہی علاقوں بجلی نام کی کوئی چیز آج کل دستیاب نہیں ۔ اس وجہ سے سندھ میں غصے احتجاج کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ سندھ میں اس طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کیوں کی جارہی ہے؟ جبکہ پر دعوا کیاا جاتا ہے کہ 18 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت بجلی کی لوڈشیڈنگ کے جواز میں بار بار بلوں کی عدم ادائگی کی بات کرتی رہی ہے۔ لیکن اتنے طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ کے باوجود اتنے ہی بھاری بل آرہے ہیں۔ ایک طرف عوام کو بجلی فراہم نہیں کی جارہی، دوسری طرف اتنے بھاری بل بھیجے جارہے ہیں۔ چھ ماہ کے اندر بجلی کی قلت ختم کرنے کے دعویداروں نے سندھ میں مکمل طور پر بجلی غائب کردی ہے۔
ملک گرمی کی شدید لپیٹ میں ہے۔لوگوں کی تکالیف کی کوئی حد نہیں رہی۔ جب حالات ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں تو لوگوں کے پاس سوائے احتجاج کے اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ایسے میں لوڈشیڈنگ کے خلاف لوگ توڑ پھوڑ پر اتر آتے ہیں۔ حکومت طویل لوڈشیڈنگ کا فوری نوٹس لے اور اس کے سدباب کے لئے اقدامات کرے۔
Water as tool for rulers
Nai Baat June 10, 2017