Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ سہیل سانگیسعودی عرب کی دعوت پرمیں منعقدہ مسلم ممالک کی کانفرنس اور اس میں ٹرمپ کی شرکت، بجٹ، جے آئی ٹی کی جانب سے پاناما پیپرز کی تفتیش کا آغازمسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی کے درمیان رسہ کشی اور سندھ میں طویل دورانیہ کی لوڈ شیڈنگ اور بریک ڈاؤن اخبارات میں زیر بحث رہے۔ جتنی ملک کی سیاسی فضا میں گرماگرمی ہے اتنی ہی گرمی سدنھ میں پڑ رہی ہے اس پر طرہ یہ کہ شدید لوڈ شیڈنگ بھی ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ ابھی دو ہفتے قبل سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی بجلی کے حوالے سے احتجاج کرتی رہی ہے۔ حالیہ واقعات نے پیپلز پارٹی کے اس احتجاج کو جائز قرار دے دیا ہے۔ طویل دورانیہ کی لوڈشیڈنگ پر تمام اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔
روزنامہ کاوش ’’پہلے روزے پر سندھ کو سرپرائیز ‘‘کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ کے حصے میں ویسے بھی زیادہ لوڈ شیڈنگ آتی رہی ہے ۔ لیکن ماہ صیام کی آمد کے ساتھ اس صوبے کو نہ صرف تاریکیوں بلکہ تندور میں جھونک دیا ۔ سندھ کے لوگ ابھی پہلے روزے کی سحری کی تیاری کر رہے تھے کہ بریک ڈاؤں سے بلیک آؤٹ جیسی صورتحال پیدا ہو گئی۔ جس نے اس جھلسا دینے والی شدید گرمی میں لوگوں کو تڑپا کے رکھ دیا۔ صوبائی دارلحکومت، حیدرآباد، میرپورخاص اور سکھر ڈویزنوں میں 10 گھنٹے تک مسلسل بریک ڈاؤن رہا۔ ( چار روز بعد تک بھی بجلی کی صورتحال معمول پر نہ آسکی تھی۔)
سندھ میں بجلی کی فراہمی اور ٹرانسمیشن کا انفراسٹرکچر اتنا زبون ہے کہ اس میں خرابیوں کے باعث صارفین بجلی سے محروم رھتے ہیں۔ بجلی تقسیم کنندگان کمپنیوں کی اندرونی کرپشن، اور ٹرانسمیشن اینڈ دسپیچ کمپنی کی نااہلی کے باعث وقتا فوقتا نئے مسائل سامنے آتے رہے ہیں۔ لیکن ان فنی و انتظامی خرابیوں کو ٹھیک نہیں کیا جاتا۔بجلی و پانی کی وزارت کے دونوں وفاقی وزراء سندھ کے خلاف مورچہ لگائے بیٹھے ہیں، وہ ہر وقت سندھ کے لوگوں کو بجلی چور ٹہرانے میں کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لمبے بریک ڈاؤن کے 24 گھنٹے بعد بھی بجلی مکمل طور پر بحال نہیں کی جاسکی۔ یہ دونوں وزرا اس ضمن میں ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لا سکے۔ وزارت بجلی نے ماہ صیام کے دوران خاص طور پر سحری اور افطار کے وقت لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکی۔ جب وعدوں پر عمل کی یہ صورتحال ہو، اگلے سال لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے پر کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے؟ نواز لیگ نے 2013 کی انتخابی مہم میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔کہا جاسکتا ہے کہ حکمران پارٹی نے اس وعدے پر ہی انتخابات جیتے ۔ اب اقتدار کی مدت ختم ہونے کو ہے، لیکن اس وعدے کے ایفا ہونے کے امکانات نظر نہیں آتے۔ صورتحال میں تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے۔ اگر تبدیلی ہوتی تو مرحلیوار ہوتی اور نظر آتی۔ پہلے روزے پر طویل بریک ڈاؤن اور اس پر حکام کی غیرسنجیدگی سندھ کو کیا پیغام دیا جارہا ہے۔ یہ امر حیرت میں اضافہ کرنے کے لئے کافی ہے کہ گڈو سے لے کر شکارپور، دادو اور جامشورو تک جو ٹاور 21 مئی کو گرے تھے ایک ہفتے بعد تک بھی بحال نہیں ہو سکے۔ جھلسا دینے والی گرمی میں بجلی بند ہو، اور اس کی وجہ سے فراہمی و نکاسی آب کا نظام بھی معطل ہو گیا۔ شدید گرمی میں لوگوں کا سکون چھین کر س ان کے صبر کو آزمایا جارہا ہے۔ اس بریک ڈاؤن اور اس کی طرف متعلقہ حکام کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایڈہاک حل کے بجائے مستقل حل تلاش کیا جائے۔ اور ٹرانسمیشن اور فراہمی کا نظام میں اصلاحات کی جاءئیں۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس’’ زراعت بغیر سندھ کی ترقی کا تصور‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ کی معیشت سے اگر زراعت کو نکال دیا جائے تو کچھ بھی نہیں بچتا۔ لیکن المیہ ہے کہ حکومت اس بنیادی شعبے کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ پانی کی شدید قلت، کھیتی باڑی کے بھاری اخراجات، نقلی بیج، کھاد اور زرعی ادویات کے مسائل سے لیکر فصل اترنے پر مناسب قیمت نہ ملنے کی وجہ سے سندھ کے کسانوں اور کاشتکاروں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ سندھ کے کسان اور کاشتکار مسلسل احتجاج کر رہے ہیں، وہ اپنے مسائل اور ان کے حل متعلق کی عملی تجاویز حکام کے سامنے پیش بھی کرتے رہے ہیں۔لیکن نتیجہ صفر ہے۔
اب سندھ کے کاشتکاروں نے حکومت سندھ سے بغیر سود قرض، سولر ٹیوب ویل ، فصلوں کی انشورنس، پنجاب سے آنے والی نقلی ادویات اور بیج وغیرہ کی روک تھام اور کینالوں کو پختہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کاشتکاروں کے ایک وفد نے وزیراعلیٰ سے ملاقات کر کے یہ مطالبات پیش کئے۔ کاشتکاروں کے ان مطالبات کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت زرعی پالیسی دینا چاہتی ہے اس لئے زراعت اور آبپاشی پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ مویشیوں کی فارمنگ پر بھی کام کیا جارہا ہے۔ کاشتکاروں کے وفد کو بتایا گیا کہ حکومت سولر ٹیوب ویل دینا چاہتی ہے اور اس کے لئے سبسڈٰ ی بھی رکھی گئی ہے۔ سندھ کی زراعت ک کثیرالنوع مسائل کا شکار ہے۔ یہ اجلاس ایک مثبت قدم ہے لیکن اس اجلاس میں کاشتکاروں نے جو مطالبات پیش کئے ہیں ان پر جلد اور مستقل عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
اخبارات میں بینظیر بھٹو کے آبائی شہر لاڑکانہ کے چلڈرین ہسپتال میں بچوں کی اموات پر اداریے لکھے ہیں۔ اخبارات کے مطابق یہ ہسپتال بچوں کی اموات کے حوالے سے تھر کو بھی مات دے گیا۔ تھر میں گزشتہ تین ماہ کے دوران جتنے بچے فوت ہوئے اتنے ہی یعنی 185 لاڑکانہ چلڈرین ہسپتال میں ایک ماہ کے اندر فوت ہوئے ہیں۔ جس میں اکثریت نوزائیدہ بچوں کی ہے۔ جو ہسپتال پہنچنے کے 24 سے 48 گھنٹے بعد فوت ہوئے ہیں۔ یہاں آئی یو سی میں داخل بچوں کی نگہداشت کے لئے پروفیشنل عملہ موجود نہیں ہوتا۔ نوزائیدہ بچوں کی ھیاتی بچانے کے لئے ہسپتال میں موجود وینٹیلیٹر اور مانیٹر برسوں سے کمروں میں بند پڑے ہوئے ہیں۔ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ کا کہنا ہے کہ والدین بچوں کو آخری مرحلے پر ہسپتال لے آتے ہیں۔وینٹیلیٹر موجود ہیں لیکن چلانے کے لئے تربیت یافتہ عملہ بھرتی نہیں کیا گیا ہے۔ تھر میں خوراک کی کمی اور علاج کی بہتر سہولیات کی عدم موجودگی پر سندھ ابھی تک ماتم کدہ ہے۔ ایسے میں لاڑکانہ ہسپتال میں بچوں کی بڑے تعداد میں اموات کی خبر کسی بجلی گرنے سے کم نہیں۔ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ اس ہسپتال کے معاملات میں فورا مداخلت کر کے اصلاح اھوال کی جائے۔ اور معاملہ کہ بھی تحقیقات ہونی چاہئے کہ برسہا برس گزرنے کے بعد بھی کیونکر تربیت یافتہ عملہ مقرر کیا گیا؟ اگر باقی محکموں میں تقرریاں کی جاسکتی ہیں تو اس ضروری ادارے میں کانٹریکٹ بنیاد پر کیوں نہیں بھرتیاں کی گئیں؟ تحقیقات کے بعد ذمہ دار افراد کو سزا بھی دی جائے۔
Nai Baat June 3, 2017
No comments:
Post a Comment