Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا بازار تو نہیں لگے گا؟سندھ نامہ سہیل سانگی
’’محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا بازار تو نہیں لگے گا؟ ‘‘ کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں ، عوام کو میرٹ پر ملازمتیں دینے کا لولی پاپ دیا جاتا ہے۔ پھر ملازمتیں فروخت کرنے کی کئی دکانیں لگ جاتی ہیں۔ متعدد جعلی تقرر نامے جاری کردیئے جاتے ہیں ۔ میرٹ کے بجائے نالائق نوازی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ حکمرانوں کی اس سرگرمی کا زیادہ تر حصہ انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے، لہٰذا میرٹ پر عمل کرنے کی لاچاری حکمرانوں کو کبھی بھی نہیں ہوتی۔ ایک بار پھر محکمہ تعلیم میں تدریسی و غیر تدریسی اسامیوں پر بھرتی کا فیصلہ کیا گیا ہے، اور امیدواروں کی سلیکشن کے لئے آئی بی اے سکھر کے ذریعے ٹیسٹ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ تعلیمی صلاحیتوں کی شرائط وغیرہ کا اعلان صوبائی حکموت پہلے ہی کر چکی ہے۔ لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ اعلان کردہ اہلیت کا معیار ہی برقرار رہے گا یا اس میں کوئی تبدیلی کی جائے گی۔
سندھ میں گزشتہ 9 سال کے دوران بڑے پیمانے پر ملازمتیں دی گئیں۔ جس طرح سے ملازمتوں کا بازار سجایا گیا ، جعلی آرڈر جاری کئے گئے ، اس کی تحقیقات ابھی تک جاری ہے۔ تاحال ایسے ہزارہا ملازمتوں کی تنخواہیں بند کردی گئی ہیں، اعلیٰ منتظمین کے کرپشن اور میرٹ کی تباہی کے عمل میں ملوث ہونے کے باوجود چھوٹے ملازمین کو گرفت میں لایا گیا ہے۔ اس مرتبہ بھی تھرڈ پارٹی کت ذریعے ٹیسٹ لینے کے بعد ملازمتیں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے محکمہ تعلیم نے پرائمری سے پہلے ’’ ارلی چائلڈ ہوڈ ٹیچرز ‘‘ کی بھرتی کے لئے گریجوئیشن کے ساتھ بی ایڈ، یا انٹمیڈیٹ کے ساتھ ایسوسی ایٹ ڈگری ان ایجوکیشن ، جونئر ایلیمنٹری اسکول ٹیچرز کے لئے بی ایس سی، ایم ایس سی، اور اسیوسی ایٹ ڈگری ان ایجوکیشن، یا ماسٹرس کے ساتھ بی ایڈ یا ایم ایڈ کو لازمی قرا دیا گیا تھا۔ تدریسی عملے کے لئے یہ اہلیت ضروری بھی ہے۔ اب سکول کیا ساتذہ کو ٹائیم اسکیل کے تحت تمام فوائد دیئے گئے ہیں۔ لہٰذا مقرر کردہ اہلیت میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری شعبے میں تعلیم تباہ ہے۔ ہزارہا اسکول بند ہیں۔ حال ہی میں محکمہ تعلیم کے ریفرمز یونٹ کی جاری کردہ رپورٹ بعض چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے ہیں لیکن ایک پہلو ابھی تک سامنے نہیں آیا، وہ ہے معیار تعلیم۔
ہم سمجھتے ہیں کہ محکمہ تعلیم میں سفارش، پیسوں کے عوض بھرتی، میرٹ کو نظر انداز کرنے سے سرکاری شعبے میں تعلیم کی تباہی ہوئی ہے۔ مختلف اداروں میں اعلیٰ منصب پر فائز افسران حکمرانوں کے سیاسی ایجنڈا پر عمل کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی ایجنڈا کی تکمیل میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ اس دوطرفہ دباؤ کے باعث بڑا نقصان ہوا ہے۔ ماضی میں بعض اداروں کے ذریعے ٹیسٹ کے ذریعے بھرتیاں کی گئی، اس کے باوجود یہ باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ افسران نے ٹیسٹ کے نتائج کو ایک طرف رکھ کر مرضی چلائی، اس مرتبہ کم از کم ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ کم از کم تدریسی عملے کی بھرتیوں کے لئے سختی سے میرٹ پر عمل کرنا چاہئے۔ اگرچہ محکمہ تعلیم میں گئی اسامیاں خالی ہیں لیکن اعلان گیارہ ہزار اسامیوں کا کیا گیا ہے۔ یہ بھرتیان کس طرح سے ہونگی اس ضمن میں تاحال واضح پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ کیا یہ بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر ہونگی اور منتخب نمائندوں کو کوٹا دیا جائے گا؟ حکومت سندھ سے گزارش ہے کہ بھرتیوں میں میرٹ پر سختی سے عمل کیا جائے۔
سندھ میں بدامنی کی لہر : کوئی سازش تو نہیں؟
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت میں حالیہ تبدیلی کے بعد سندھ میں ایک بار پھر بدامنی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ گزشتہ ہفتہ دس روز کے دوران کراچی میں بینک منیجر کا قتل، دہشتگردوں کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں کی شہادت، انسداد دہشتگردی پولیس کے اہتھوں بعض دہشتگردوں کی مقابلے میں ہلاکت، و گرفتاری کے واقعات بتاتے ہیں کہ سندھ میں دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروایوں میں کچھ کوتاہی یا نقص رہ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے کراچی میں اسٹریٹ کرائیم کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔ آپریشن کی وجہ سے دہشتگرد اور مجرم وقتی طور پر کسی اور جگہ منتقل ہو گئے ہیں یا کچھ وقت کے لئے اپنی کارروایوں میں انہوں نے وقفہ کیا ہے۔ جیسے ہی حکموت میں تبدیلی یا کسی اعلیٰ افسر کا تبادلہ ہوتا ہے ، یہ اپنی پناہ گاہوں سے باہر نکل آتے ہیں اور کاررویاں شروع دیتے ہیں۔ اس سائیکل کی وجہ سے شہریوں کی جان اور مال کو خطرہ رہتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومتی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان آجاتا ہے۔
بلاشبہ رینجرز اور سندھ پولیس کی مشترکہ کوششوں اور حکمت عملی کے ذریعیامن و مان کے لئے بڑا کام ہوا ہے۔ لیکن جب تک قیام امن کو برقرار رکھنے کے لء موثر اور مضبوط حکمت عملی نہیں بنائی جائے گی تب تک سندھ اور اس کے دارالحکومت کراچی میں بدامنی کا مستقل خاتمہ ناممکن ہے۔ صرف کراچی ہی نہیں، صوبے کے دوسرے شہروں یعنی حیدرآباد، میرپورخاص، شکارپور، اور جیکب آباد وغیرہ میں بھی بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کراچی اور صوبے کے بالائی علاقوں میں جرائم کی نوعیت میں فرق ہے۔ کراچی میں میڈیا ہؤسز ہونے کی وجہ سے جرائم فورا رپورٹ ہو جاتے ہیں۔ لیکن صوبے کے باقی علاقوں میں ہونے والے قتل، ڈکیتیوں، لوٹ مار کے واقعات کو اس طرح سے ہائی لایٹ نہیں کیا جاتا، جس طرح سے کراچی کے واقعات کو کای جاتا ہے۔
سندھ میں حالیہ بدامنی کی لہر لوگوں کی گمشدگیوں کی صورت میں سامنے آئی ہے، جس پر سازش کا شبہ کیا جارہا ہے۔ اس صورتحال پر وزیراعلیٰ سندھ نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ معاملہ وفاقی حکومت کے پاس اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی بات کی ہے۔ اور اس معاملے پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ اس پر دو رائے نہیں کہ سندھ میں رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں کئی مجرموں کو منطقی انجام تک پہنچایا گیا ہے، ایک عرصے تک سکون کے بعد اچانک ایک بار پھر ڈکیٹیوں، لوٹ مار کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان وارداتوں کے پیچھے کسی سازش کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اس صورتحال پر سندھ کے اہل فکر نظر حلقوں کو گہری تشویش ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسٹیرٹ کرائیم، اغوا، گمشدگیوں اور دیگر اس طرح کے واقعات کے لئے صوبائی حکموت کے ماتحت کام کرنے والی فورسز اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔ صوبے میں امن و امان کوئی سودے بازی نہیں ہونی چاہئے۔
August 19, 2017
Sindh Nama, by Sohail Sangi,
Daily Nai Baat,
Sindhi Press