Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ کے باسیوں کو میونسپل سروسز کی ضرورت نہیں؟
سندھ نامہ سہیل سانگی
’’کیا سندھ میں میونسپل سروسز کی ضرورت نہیں‘‘ کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ صوبے کے مختلف علاقوں میں میونسپل کارپوریشن، ضلع کونسل، میونسپل کمیٹیز اور ٹاؤن کمیٹیز کے منظور کردہ اربوں اور کروڑہا روپے کی بجٹ کے اعدا د وشمار سامنے آرہے ہیں۔ دوسری طرف چھوٹے شہروں کی وہ تصاویر جو میڈیا میں آرہی ہیں۔ ان میں ہر تصوی شہروں کی تباہ حالی کی داستان لے کر آرہی ہے۔
سندھ کے تمام چھوٹے بڑے بلدیاتی اداروں کی بجٹ منظور ہو چکے ہیں۔ بجٹ کے اعداد وشمار دیکھ کر کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور کروڑہا روپے بجٹ ہونے کے باوجود اس صوبے میں ریاستی اداروں اور شہریوں کے درمیان میونسپل سروسز کے حوالے سے کوئی رابطہ بھی ہے۔ سندھ حکومت کے ریکارڈ میں بھلے سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ اور نساسک کے نام موجود ہوں لیکن زمینی حقائق کو اگر دیکھا جائے تو ایسا لگے گا کہ سندھ میں حکومت اور شہریوں کے درمیان میونسپل سروسز نہ دینے اور نہ لینے کا غیر اعلانیہ معاہدہ کیا گیا ہے ۔ پینے کے صاف پانی کا مسئلہ صوبے کے سب سے بڑے مسئلہ کے طور پر سامنے آیاہے۔ لیکن نکاسی آب سے لیکر شہروں کی صفائی ستھرائی تک کسی بھی شہر میں قابل ذکر انتظام موجود نہیں۔ ہر شہری ریاست کو جن سروسز کے لئے ٹیکس ادا کرتا ہے، ان میں خاص طور پر ریاست کی اہم ذمہ داریوں میں میونسپل سروسز مہیا کرنا بھی شامل ہے۔ لیکن سندھ خراب انتظام کاری کی وجہ سے یہ سروسز مہیا نہیں کی جارہی۔
بلدیاتی اداروں کے ں اظم ہونے کے باوجود سندھ کے شہروں کی حالت سے لگتا ہے کہ وہاں پر سرکاری طور پر کوئی نظام نہیں، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کام چلا رہے ہیں۔ حکومت میونسپل سروسز فارہم کرنے میں اس لئے بھی ناکام رہی ہے کہ بلدیاتی اداروں میں ماضی قریب میں سیاسی بنیادوں پر اتنی بھرتیاں کی گئی ہیں کہ کہ یہ ادارے ان کی تنخواہیں پورے کرنے میں ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ان ملازمین کی فور ظفر موج کام کرنے یا ڈٰوٹی دینے کے لئے تیار نہیں۔ ان بھرتیوں میں صفائی کے عملے کی اسامیوں پر سفید پوش افراد کی بڑی تعداد بھی شامل ہے، جو ان اداروں پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ شہریوں کے ٹیکس سے وصول کی جانے والی رقم سے جب خرچ پورا نہیں ہوا تو میونسپل سرسوز اور ان سے متعلقہ شعبوں کے لئے ایشین بینک سے قرضہ لیا گیا۔ یہاں تک کہ یو ایس ایڈ سے بھی فنڈ لئے گئے۔ لیکن اس کے باوجود سندھ میں میونسپل سروسز کی فراہمی تاحال ایک خواب بنی ہوئی ہے۔
معاملہ بجٹ یا پیسوں کا ہو تو حل ہو سکتا ہے لیکن یہاں مسئلہ اچھی حکمرانی اور انتظام کاری کی کمی کا ہے۔ یہ کمی تب پوری ہوگی جب حاکم وقت کو شہریوں کے لئے میونسپل سروسز فراہم کرنے کی فکر ہوگی۔ صوبے کی حد تک یہ فکر محسوس نہیں ہوتی۔ صوبے کے شمالی علاقوں میں میونسپل سروسز مہیا کرنے کے لئے صوبئی حکومت نے نارتھ سندھ اربن سروسز کارپوریشن قائم کی۔ مگر یہ نیا ادارہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکا۔ آج نساسک تقریبا غیر فعال ہو چکی ہے۔ اس کے بعد ایک تجربہ سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ کے قیام کے ذریعے کیا گیا۔ جو 2014 سے کام کر رہا ہے۔ لیکن پھر بھی شہریوں کو میونسپل سروسز نہیں مل رہی ہیں۔ کراچی سے لیکر جیکب آباد تک خبریں آرہی ہیں کہ شہروں میں نہ تو نکاسی آب کا موثر انتظام ہے اور نہ ہی صفائی ستھرائی کا۔
میونسپل ادارے شہریوں کو جو پینے کا پانی فراہم کر رہے ہیں، اس کی معائنہ رپورٹ دیکھ کر فاضل جج سے تقریبا چیخ نکل گئی کہ سندھ کے لوگ ایسا پانی پینے کے باوجود زندہ ہیں۔۔۔!! حکومت کا موقف ہے کہ 70 سال کی خرابیاں چند ماہ میں ٹھیک نہیں ہو سکتی، تو کیا ان خرابیوں کو ٹھیک کرنے کے لئے مزید ستر سال چاہئیں؟ حکومت سندھ کے شہریوں کو کم از کم پینے کے صاف پانی کا بندوبست تو کر کے دے سکتی ہے۔
روز نامہ عبرت ’’ذکر دو خبروں کا‘‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ گزشتہ روز حکومت کی لاپروائی کے حوالے سے میڈیا میں دو خبریں شایع ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک تھر میں دو لاکھ خاندانوں کے لئے اعلان کی گئی امدادی گندم سے متعلق ہے۔ جو متاثرہ خانداوں میں تقسیم کرنے کے بجائے تین ماہ سے گداموں میں پڑی ہوئی ہے۔ پتہ چلا ہے ہزارہا بوریوں کو کیڑہ لگ چکا ہے۔
دوسری خبر منچھر جھیل کے حوالے سے ہے۔ کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بنچ نے منچھر جھیل کوآلودگی سے پاک کرنے اور وہاں کے مچھیروں کو صاف پانی مہیا کرنے سے متعلق حکومت سندھ کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے اس سے متعلق رپورٹ آئندہ سمعت تک پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ مچھیرے زہریلا پانی پی رہے ہیں، حکومت اس ضمن میں ضروری اقدامات کیوں نہیں کرتی ؟
سید مراد علی شاہ کو جب وزارت اعلیٰ کی ذمہ داری سونپی گئی تو مجموعی طور پر سندھ میں خوشی کا اظہار کیا گیا تھا۔ اور یہ توقع کی گئی تھی کہ وہ ماضی کے وزراء اعلیٰ کے روش کے برعکس صوبے کے لوگوں کے ساتھ قربت کا تعلق رکھیں گے۔ اور عام لوگوں کے مسائل پر توجہ دیں گے۔ اگرچہ میڈیا کے ذریعے یہ باور رکانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟ اس کا اندازہ مندرجہ بالا دو خبروں سے لگایا جاسکتا ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ ہزارہا بوری گندم گداموں مین سڑ رہی ہے لیکن متاثرہ اور مستحق لوگوں میں تقسیم نہیں کی گئی۔ یاسا کیوں ہوا؟ وزیراعلیٰ کو اس کا نوٹس لینا چاہئے تھا۔ ممکن ہے کہ یہ گندم متحقین تک پہنچانے میں ابھی مزید دیر ہو۔ اب تھر میں بارشیں ہوئی ہیں۔ فصلیں تیار ہو رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ عام لوگ امدادی گندم کا آسرہ نہی کریں۔ اس صورت میں اس گندم کی سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہو جائے۔ شاید یہی سوچ کر یہ گندم وقت پر تقسیم نہیں کی گئی ہو۔
پیپلزپارٹی حکومت آئنی مدت کے آخری سال سے گزر رہی ہے۔ اس کی گزشتہ 9 سالہ کارکردگی کوئی زیادہ قابل تعریف نہیں رہی۔ پارٹی کے دور حکومت میں سندھ جس پستی کا شکار ہوا، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ معاشی، سماجی، خواہ اخلاقی حوالے سے سندھ کا بہت نقصان ہوا۔ تعلیم، صحت اور ترقی کے حوالے سے بھی سندھ پیچھے چلا گیا۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ حکمرانوں کی سندھ کے مسائل کے بارے میں دلچسپی نہیں دیکھی گئی۔ اب پارٹی کو عوام سے رجوع کرنا چاہئے۔ اور ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے عملی، ٹھوس اور موثر اقدامات کی طرف جانا چاہئے۔
Sindh Nama - Sohail Sangi - Daily Nai Baat August 4, 2017
No comments:
Post a Comment