Sindh Nama, Sindhi Press
Nai Baat - Sohail Sangi
Nai Baat Oct 7, 2017
Sohail Sangi
Sindh Nama, Sindhi Press
Nai Baat - Sohail Sangi
سندھ میں بدانتظامی کی قبولیت کی حد
سندھ نامہ سہیل سانگی
روز نامہ کاوش ’’ سائنسی دور میں پراسرار امراض‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ محکمہ صحت کی اس سے بڑھ کر اور کونسی نااہلی ہو سکتی ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے لوگ مختلف وائرس میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔ لیکن محکمہ صحت کے منتظمین ان وائرسز کی بروقت تشخیص کر کے اس کا علاج کرکے لوگوں کی زندگی بچانے میں ناکام رہے ہیں۔ محکمہ صحت کی یہ نااہل ’’نفری‘‘ اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لئے امراض کو ’’پر اسرار‘‘ بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔
ٹنڈو الہ یار ضلع میں چمبڑ کے ایک گوٹھ مرید خان لونڈ میں وائرس کی وجہ سے چھ بچوں کی زندگی چلی گئی۔ لیکن محکمہ صحت اس وائرس کا سرغ نہ لگا سکا۔ محکمہ نے گاؤں والوں کو ڈیڑھ سو مچھردانیاں فراہم کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔ کوٹ غلام محمد کے قریب ایک گاؤں میں ’’پراسرار مرض‘‘ نے ایک ہی خاندان کے چار افراد کی زندگی چھین لی۔ عاملوں نے اس مرض کا جنات کا سایہ قرار دے کر اپنا کاروبار چمکایا۔
لوگ مختلف وائرسز میں مبتلا ہو کر مر رہے ہیں۔ لیکن ان کی زندگی بچانے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ محکمہ صحت اپنی نااہلی کی وجہ سے عاملوں کے کاروبار کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔ محکمہ صحت کی باگ دوڑ ایک ڈاکٹر وزیر، اور ڈاکٹر سیکریٹری کے پاس ہے۔ متعلقہ شعبے کے سند یافتہ یہ عہدیدار محکمہ کی صحت کو ٹھیک نہیں کر سکے ہیں۔ دراصل کرپشن کے دیو نے ہمارے محکموں کے گھٹنے چاٹ لئے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ محکمے اپاہج ہو گئے ہیں۔ بیمار محکمہ صحت لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کر رہا ہے۔ میڈیا مسلسل حکومت کی توج اس طرف منبذول کراتا رہا ہے کہ عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے بیمار بیوروکریسی کے ذہنی علاج کی ضرورت ہے۔
دراصل امراض پر اسرار نہیں ہوتے محکمہ صحت پراسرار بن گیا ہے۔ آج کے جدیدسائنسی دور میں اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے امراض کو پراسرار قرار دے کر محکمہ جگ ہنسائی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وائرسز کے ٹیسٹ کرا کے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں اور عاملوں سے نجات دلانے کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں۔
روزنامہ کاوش نے اپنے اداریے میں گوسٹ اسکولوں کے بعد گھوسٹ ڈسپینسریوں کے انکشاف کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ابھی تین ہزار بند اسکول کھونلنے کے لئے حکومتی اعلان کی گونج ہی ختم نہیں ہوئی تھی کہ انتظامی نااہلی کی نئی خبر آئی ہے کہ سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کی طرح گھوسٹ ڈسپینسریاں بھی موجود ہیں۔ محکمہ صحت کے سماعت و بصارت سے عاری انتظامیہ کو یہ نظر نہیں آرہی۔ ججز کے چھاپوں کے بعد ایک بڑی خبر کے طور پر یہ حقیقت سامنے آئی ہے۔
خبر کے مطابق نو دیرو کے قریب پانچ ڈسپینسریاں مویشیوں کے باڑوں، اوطاقوں گوداموں یا گیرجز کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں ۔ سول جج رتو دیرو کے چھاپے کے دوران ان گھوسٹ ڈسپینسریوں کا انکشاف ہوا۔ سندھ میں کرپشن جنون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ گھوسٹ ٹیچرز، اور گھوسٹ اسکولوں کے بعد گھوسٹ ڈسپینسریوں کی نئی اصطلاح سامنے آئی ہے۔ یہ ڈسپینسریاں بااثر افراد کے ذاتی استعمال میں ہیں جہاں مویشیوں کے باڑے، اوطاق، ، گودام یا گیریج چل رہے ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ان ڈسپینسیروں میں ڈاکٹر تعینات ہیں لیکن وہ ’’ویزے‘‘ پر ہیں اور اپنی سرکاری فرائض انجام نہیں دے رہے۔ سندھ میں انتظام کاری کی صورتحال بہت ہی خراب ہے۔
تعلیم کے بعد یہ دوسرا محکمہ ہے جس کا تعلق براہ راست عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ لیکن یہاں انتظام کاری کی صورتحال بدتر ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بدترین انتظام کاری کو اس حد تک قبولیت ہے کہ کوئی اس کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھاتا۔ محکمہ صحت کا پروفائیل کرپشن کے حوالے سے کسی بھی طور پر محکمہ تعلیم سے کم نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں نجی شعبے کو آگے لانے اور پروان چڑھانے کے لئے منظم طور پر محکمہ تعلیم اور صحت کو جان بوجھ کر تباہ کیا جارہا ہے۔ سرکاری شعبے کی تعلیم تقاضوں کے مطابق نہیں ، سرکاری ہسپتالوں میں عام آدمی کے لئے علاج کی سہولیات وفات پا گئی ہیں۔ ان شعبوں کو تباہ کرنے میں کرپٹ اور بد دماغ بیوروکریسی کا ہاتھ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر صحت کی سہولیات پت توجہ دی جائے، اور اس منظم پلان کو ناکام بنایا جائے جو صوبے کے غریب عوام کو ابھی بھی تکلیف میں مبتلا کئے ہوئے اور آنے والے وقتوں میں ان کو نجی شعبے کے حوالے کردے گا۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’ درگاہ فتح پور پر حملہ: یہ ناسور کب ختم ہوگا؟ ‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ انتہا پسندی ملک کے لئے ناسور بنی ہوئی ہے۔ درگاہوں کو نشانہ بنانے کو ہم ملک کے لئے خطرناک سمجھتے ہیں۔ کیونکہ صوفی بزرگوں کی درگاہیں، اور ٹھکانے نسل، رنگ، مذہب اور فرقے سے بالاتر رہے ہیں اور انسانی بھائی چارے کا مرکز رہے ہیں۔ جو ہمیشہ امن کا پیغام عام کرتے رہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بعض عناصر ان درگاہوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہے ہیں, تاکہ عام لوگوں سے روحانی تسکین کا یہ آخری سہارا بھی چھین لیا جائے۔ جہاں سماج کے بالادست طبقوں یا افراد اور نظام کی پالیسیوں کے شکار لوگ آکر چند اطمینان کی گھڑیاں گزارتے ہیں۔
اس سے پہلے قلندر لعل شہبار اور دیگر درگاہوں پر بھی دہشتگرد حملے ہو چکے ہیں جن سے لاکھوں لوگوں کو صدمہ پہنچا ہے اور دلی طور پر تکلیف ہوئی ہے۔
حالیہ واقعہ بلوچستان کی حود میں ہوا ہے جہاں کی صورتحال پہلے سے ہی خراب ہے۔ لیکن ہم درگاہ فتح پور پر حملے کو بلوچستان کی بدامنی کی صورتحال سے لاگ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اس حملہ میں براہ راست درگاہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس حملے میں وہی گروہ ملوث ہیں جو ملک بھر میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سیکیورٹی اداروں کو اس حملے میں ملوث ملزمان کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے ۔ اس طرح کی کارروایوں سے عام لوگوں کو جانی نقصان کے ساتھ ساتھ نفسیاتی عذاب کا شکار ہوتے ہیں ان کا ازالہ اگر بروقت نہیں کیا گیا، تو لوگوں کے ذہنوں میں خود ریاست کی رٹ پر سوالیہ نشان آجاتے ہیں۔
Sohail Sangi
Sindh Nama, Sindhi Press
No comments:
Post a Comment