سندھ حکومت اور آئی جی پولیس پھر آمنے سامنے
پانی کی قلت کے خلاف کاشکاروں کی تحریکیں
سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ حکومت اور آئی جی سندھ پولیس ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئے ہیں۔ حکومت سندھ نے نئے پولیس قانون کا مسودہ تیار کیا ہے۔ جس میں ڈی آئی جیز اور ایڈیشنل آئی جی کو چیف سیکریٹری اور وزیراعلیٰ سندھ کے ماتحت کیا رکھنے کی تجویز دی گئی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ مسودہ تیار کرتے وقت آئی جی سندھ پولیس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں آئی جی پولیس نے اپنی طرف سے قانونی مسودہ تجویز کیا ہے۔ جس پر گزشتہ روز کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں آئی جی سندھ پولیس نے نیا قانونی مسودہ پیش کیا اور کمیٹی میں اس مسودے پر غور کیا گیا۔ آئی جی سندھ کے تجویز کردہ اس مسودے میں آر پی حیدرآباد اور سکھر کی اسامیاں دوبارہ بحال کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔ یہ مسودہ حکومت سندھ کی کابینہ کمیٹی کے حوالے کردیاگیا ہے۔ پولیس کو خود مختار طریقے سے کام کرنے کی سفارش کرتے ہوئے اس مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ ڈی آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی کی سطح کے افسران سے متعلق اختیارات آئی جی کو دیئے جائیں۔ جبکہ حکومتی مسودے میں یہ اختیارات وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری کو دیئے گئے ہیں۔اجلاس میں حکومت سندھ کے اس موقف کی مخالفت کی گئی ہے کہ آئی جی اختیارات صرف ایس پی سطح کے افسران تک ہوں اور ڈی آئی جی اور یڈیشنلّ ئی کے سطح کے اختیارات چیف سیکریٹری یا وزیراعلیٰ کے پا س ہوں۔ کابینہ کمیٹی میں حوکمت کا یہ موقف تھا کہ پولیس صوبائی اختیار ہے لہٰذا پولیس قانون میں تبدیلی سندھ اسمبلی کے ذریعے ہی کی جائے گی اور حکومت کو اختیار ہے کہ وہ قانون کا مسودہ تیار کرے۔ اس لئے حکومت سندھ نے پولیس کے لئے الگ قانونی مسودہ تیار کیا ہے۔ پولیس پر حکومت سندھ کی مکمل نگرانی ہو۔ کابینہ کمیٹی کے سربراہ صوبائی وزیر امتیاز شیخ پر امید ہیں کہ کابینہ کمیٹی اور آئی جی سندھ پولیس مل کر نیا قانونی مسودہ تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
صوبے کے زریں علاقوں جوہی اور گولاڑچی میں پانی کی قلت کے خلاف کاشتکاروں کی تحریکیں شروع ہو گئی ہیں۔چند ماہ قبل جوہی کے کاشتکاروں کی بھرپور تحریک کے نیتجے میں بیس روز تک اس علاقے میں پانی فراہم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ پانی کی فراہمی بند کردی گئی ہے نتیجے میں کاشت کی گئی فصلیں سوکھ گئی ہیں۔
’’سندھ کو ویران کرنے ولا محکمہ آبپاشی‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ محکمہ آبپاشی کی نااہل انتظامیہ نے سندھ کو ویران کرنے کی کوئی کسر اٹھا کے نہیں رکھی ہے۔ خاص طور پر ٹیل والے تین اضلاع ٹھٹہ، سجاول اور بدین کو صحرا میں تبدیل کرنے کی راہ پر چل رہا ہے۔ ان اضلاع میں انسانی آبادی پینے کے پانی سے محروم ہے۔ کینالوں اور شاخوں میں مٹی اڑ رہی ہے۔ ان اضلاع سے بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلاء شروع ہو گیا ہے۔ اس کے خلاف احتجاج بھی شدت آرہی ہے۔ ایک ایسا ہی احتجاج بدین ضلع کے شہر گولاڑچی میں ہوا۔ گولاڑچی کی 25 سے زائد شاخوں میں پانی کی فراہمی بند ہونے کے خلاف تحریک شروع ہو گئی ہے۔ شامیانے لگا کر جاری احتجاج اور علامتی بھوک ہڑتال میں ضلع کے مختلف شہروں سے لوگوں نے شرکت کی۔ اس تحریک میں سول سوسائٹی، سیاسی اور سماجی تنظیمیں بھی شریک ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جب تک پھیلی اور دیگر کینالوں مینمصنوعی اور غیر قانونی طور پر لگائی گئی رکاوٹیں نہیں ہٹائی جاتی، ان کا یہ احتجاج جاری رہے گا۔ سندھ کو پانی کا حصہ کم مل رہا ہے لیکن جو مل رہا ہے، اس کی درست ریگیولیشن نہ ہونے کی وجہ سے سندھ صحرا میں تبدیل ہو رہا ہے۔ محکمہ آبپاشی کی انتظامیہ اس کے لئے ذمہ دار ہے۔ اس محکمہ کا کمال ہے کہ خشک صورتحال میں سیلاب پیدا کردیتا ہے اور سیلاب کو خشک صورتحال میں تبدیل کر سکتا ہے۔ سندھ کی معیشت کا انحصار زراعت پرہے۔ جس کو تباہ کیا جارہا ہے۔ٹیل کے کاشتکار مسلسل شکایات کرتے رہتے ہیں کہ ان کے حصے کا پانی اوپر کے حصے کے زمینداروں کو پانی فروخت کیا جارہا ہے ۔ ہزارہا ڈائریکٹ آؤٹ لیٹس کے ذریعے پانی لے لیا جاتا ہے۔ اس اہم محکمہ کو بدانتظامی، نااہلی اور کرپشن نے تباہ کردیا ہے۔ یہ محکمہ بغیر وزیر کے چلایا جارہا ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر محکمہ کی یہی صورتحال ہوگی۔ زراعت کی تباہی نے صوبے میں بدترین غربت کو جنم دیا ہے۔ صوبائی وزیر زراعت کا تعلق بدین سے ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اعلیٰ ایوانوں میں بھی بدین کی نمائندگی موجود ہے۔ لیکن یہ سب نمائندے بدین اور دیگر ٹیل والے عالقوں میں پانی کی رسد کو یقینی نہیں بنا سکے ہیں۔
اکیس فروری کو مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر سندھ کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں اور مختلف پروگرام منعقد ہوئے۔ اخبارات نے مضامین اور اداریے لکھ کر مادری زبانوں کی اہمیت اور ان کو فروغ دینے پرزور دیا۔ روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’قومی زبانوں کا بل‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ملک میں کئی قومیں آباد ہیں اور ان کی اپنی اپنی زبانیں ہیں۔ لیکن ان زبانوں کو قومی زبان کا درجہ نہیں دے کر ان کی ترقی کے لئے ماضی میں اقدامات نہیں کئے گئے۔ یہ امر اہم ہے کہ ہر زبان کا اپنا علاقہ ہوتا ہے جہاں یہ زانیں صدیوں سے موجود ہیں۔
وفاق میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں زبانوں کے بل پر کچھ کام ہوا۔ لیکن تاحال یہ بل منظور نہ ہوسکا۔یہ بل جان بوجھ کر التوا میں ڈال دیا گیا۔ لہٰذا مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے کا معاملہ جوں کا توں التوا کا شکار ہے۔ سینیٹر سسئی پلیجو نے گزشتہ روز ایک سیمینار میں بتایا کہ مادری زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دینے سے متعلق بل سنیٹ کی مجلس قائمہ نے منظور کیا تھا۔ جس میں سندھ کے ہر مکتب فکر کے لوگوں اور اہل دانش نے اہم کردار ادا کیا ۔ یہ بل دیگر پارلیمنٹرین کے ساتھ مشاورت کے بعد سینٹ سے منظور کریا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی سے یہ بل منظور کرانے میں ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی خواہ خیبرپختونخوا کے راکین کی حمایت حاصل رہی۔ پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی نے اگر اس بل کی رکاوٹ نہیں ڈالی تو یہ بل سینیٹ میں آسانی سے پاس ہو جائے گا۔ یہ ایک اہم بل ہء جس کو ترجیحی بنیادوں پر اور جلد منظور کیا جانا چاہئے۔ کیونہ ملک کے اندر زبانوں کی کثیر رنگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ زبانوں کے بل کے بارے مین یہ مفروضہ پھیلایا گیا ہے کہ اس سے قوم تقسیم ہو جائے گی۔ جبکہ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جہاں ایک سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان کو قومی اور سرکاری زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کو اس بل کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے۔ اور اس بل کو منظور کرنے کے انتظامات کرنے چاہئیں۔
movements for water, Police Nai Baat - Sindh Nama
Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media
سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا
No comments:
Post a Comment