Nai Baat June 8, 2019
پولیس آپریشن کی ناکامی میں پولیس کا کردار
سندھ نامہ سہیل سانگی
گزشتہ دو ہفتوں سے کراچی کی مین اسٹریم میڈیا مسلسل کراچی کے پانی، صفائی ، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات کے مسائل اٹھا رہی ہے جس سے ایم کیو ایم کا بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کو نظرانداز کر رہی ہے۔ صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی مختلف سرگرمیوں کے ذریعے کوشاں ہے کہ وہ اس بیانیے کو پختہ ہونے نہ دے۔ وہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک حساس پچ ہے، اس بنیاد پر کسی بھی وقت وفاقی حکومت یا وفاقی اور عدلیہ ادارے نوٹس لے کر اس کو مشکل صورتحال میں ڈال سکتے ہیں۔
مملکتی وزیر اور سابق وزیراعلیٰ سندھ علی محمد مہر کے انتقال کے بعد خالی ہونے والی گھوٹکی کی قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخابات کے لئے سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ یہ نشست اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ گھوٹکی کے مہر خاندان سے موجودہ سندھ حکومت کو دو مرتبہ خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ چیف سردار محمد بخش مہر پیپلزپارٹی کی قیادت سے قریب ہیں۔ اب مرحوم علی محمد مہر کے بیٹے نے بلاول بھٹو سے ملاقات کر نے کے بعد پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے جس سے گھوٹکی کی سیاست میں تبدیلی آگئی ہے، اور اس کا جھکاﺅ پیپلزپارٹی کی طرف ہو گیا ہے۔ آصف علی زرداری نے عید آبائی شہر نوابشاہ میں گزاری۔ اس موقع پر انہوں نے پارٹی کارکنوں سے ملاقاتیں کی۔ نوابشاہ کے قریبی علاقوں میں تقریبات سے خطاب کیا۔ جلد حکومت کو گرا کر لوگوں کے مسائل حل کریں گے۔
شکارپور کے قریب ڈاکوﺅں سے ناکام پولیس مقابلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔”پولیس آپریشن کی ناکامی میں پولیس کا کردار“ کے عنوان سے ”روز نامہ کاوش“ لکھتا ہے کہ سندھ میں جرائم پیشہ افراد اور ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ آپریشن کے نام پر پولیس فنڈ تو خرچ کرتی ہے لیکن اس سے جرائم پیشہ افراد کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔اکثر آپریشن ناکام ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پولیس اپنا ہی جانی نقصان کر کے لوٹ آتی ہے۔ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا کہ پولیس جب اپنا ہی تحفظ نہیں کر پاتی تو عوام کا تحفظ کای کر پائے گی۔ ایسا ہی کچھ شکارپور ضلع میں ہوا۔مقتول کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لئے اے ایس پی شکارپور سٹی کی قیادت میں چین والی بکتر بند اور موبائل گاڑیوں میں جانے والی مختلف تھانوں کی پولیس پارٹی پر گھات لگاا کر بیٹھے ہوئے ڈاکوﺅں نے جدید ہتھیاروں سے حملہ کردیا۔ ان بکتر بند گاڑیوں میں سے گولی پار ہونے کی وجہ سے لکھی تھانے کے ایس ایچ او اور چک تھانے کا اے ایس آئی شہید ہو گئے۔بعج دیگر اہلکار بھی زخمی ہوئے اور پولیس بغیر آپریشن واپس آ گئی۔
سندھ میں اغوا انڈسٹری موجود ہے۔ غیر مقامی بگاڑ کی فیکٹریوں میں پیدا ہونے والی مقامی پراڈکٹ نے قانون کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ شکارپور ضلع جرائم اور قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے منفرد تشخص رکھتا ہے۔ یہاں جرائم بھوتاروں کی معیشت کا حصہ بن چکے ہیں۔جب آپریشن ہوتا ہے جرائم پیشہ افراد کو پیشگی اطلاع ہو جاتی ہے، اس واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ گھات لگا کر پولیس پارٹی پر حملہ کیا گیا۔ اور ایسے ہتھیار استعمال کئے جو بکتر بند گاڑی کی چادر توڑ دی۔ جس سے اے پی سی کے اندر بیٹھے ہوئے دو پولیس افسران شہید ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سال قبل ان اے پی سیز کی مرمت کے لئے فزیبلٹی رپورٹ بنائی گئی تھی۔ ایک کمپنی نے گاڑی کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ یہ مشنری ہماری ہے لیکن گاڑی کا اوپر والا ڈھانچہ اور پلیٹ فارم غیر معیاری ہے جو کہ دوسری کمپنیوں کا بنایا ہوا ہے ۔ہم اگر مرمت کر کے اپنی کمپنی کے پرزہ جات لگائیں گے تو نچلے حصے سے میچ نہیں کریں گے، کمپنی نے جب مرمت کرنے سے انکار کردیا، تو ایک کروڑ روپے خرچ کر کے مقامی مستریوں سے دو گاڑیاںمرمت کر اکے روڈ پر لائی گئیں۔
لگتا ہے کہ سندھ پولیس کو دی گئی اے پی سیز غیر معیاری ہیں۔اب تو سندھ بھر میں پولیس کو فراہم کی گئی اے پی سیز کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔ ڈاکو آگاہ تھے کے ان کے پاس موجود اسلح اے پی سی کو تباہ کرسکتا ہے۔ اب کوئی افسر ان اے پی سی کے پر انحصار کر کے آپریشن کی ہمت کرےگا؟ سوال یہ بھی ہے کہ سندھ میں اسلح سازی کے کارخانے موجود نہیں، پھر ڈاکوﺅں کے پاس یہ انتہائی بھاری اور جدید اسلح کہاں سے آتا ہے؟ اس طرح کا اسلح پولیس کے پاس بھی نہیں۔ جرم صرف سرپرستی کی چھتری کے نیچے پنپتے ہیں۔ جرائم اور مجرموں کی کسی نہ کسی سطح پر سرپرستی اور پولیس کی نااہلی بھی جرائم کے اضافے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔اس آپریشن کی ناکامی کی عدالتی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
”روزنامہ پہنجی اخبار“ نے صوبے میں بڑھتے ہوئے روڈ حادثات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ” آخر حکومت کتنے روڈ حادثوں کے بعد بیدار ہوگی“ کے عنوان سے اداریہ لکھاہے۔ صوبے بھر سے روزانہ حادثات کی خبریں شایع ہو رہی ہیں۔ جیسے ڑوڈوں پر ملک الموت موت گشت کر رہا ہے۔ نوری آباد، میرپور ساکرو، گجو، ٹنڈو جام، واہی پاندھی وغیرہ میں حادثات میں درجنوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ حادثات ہر مرتبہ حکومت اور ٹریفک حکام کے سوئے ہوئے ذہنوں کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاہراہوں پر نہ ٹریفک قوانین پر عمل ہورہا ہے اور نہ حادثے کی صورت میں ٹراما سینٹر یا طبی امدا د کی سہولت دستیاب ہے۔ حکومت کے نزدیک حادثات اتفاقیہ ہوتے ہیں۔ نہ ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور نہ کیس پر ذمہ داری فکس کی جاتی ہے۔کسی المیے سے کم نہیں کہ ایک سال کے درواں درجنوں انسانی جانیں چلی گئی ہیں۔ مہذب ممالک میں ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں سب کچھ ڈرائیوروں کی مرضی پر ہے کہ وہ کس طرح گاڑیاں چلائیں۔ خاص طور پربسوں اور کوچز میں مسافر
ڈرائیورز کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اب حکومت کو روڈ حادثات کے بارے میں سنجیدہ ہونا چاہئے۔اور قوانین پر پابندی کرانے کو یقینی بنانا چاہئے۔
سندھ نامہ سہیل سانگی
گزشتہ دو ہفتوں سے کراچی کی مین اسٹریم میڈیا مسلسل کراچی کے پانی، صفائی ، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات کے مسائل اٹھا رہی ہے جس سے ایم کیو ایم کا بیانیہ مضبوط ہو رہا ہے کہ سندھ حکومت کراچی کو نظرانداز کر رہی ہے۔ صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی مختلف سرگرمیوں کے ذریعے کوشاں ہے کہ وہ اس بیانیے کو پختہ ہونے نہ دے۔ وہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک حساس پچ ہے، اس بنیاد پر کسی بھی وقت وفاقی حکومت یا وفاقی اور عدلیہ ادارے نوٹس لے کر اس کو مشکل صورتحال میں ڈال سکتے ہیں۔
مملکتی وزیر اور سابق وزیراعلیٰ سندھ علی محمد مہر کے انتقال کے بعد خالی ہونے والی گھوٹکی کی قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخابات کے لئے سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ یہ نشست اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ گھوٹکی کے مہر خاندان سے موجودہ سندھ حکومت کو دو مرتبہ خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ چیف سردار محمد بخش مہر پیپلزپارٹی کی قیادت سے قریب ہیں۔ اب مرحوم علی محمد مہر کے بیٹے نے بلاول بھٹو سے ملاقات کر نے کے بعد پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے جس سے گھوٹکی کی سیاست میں تبدیلی آگئی ہے، اور اس کا جھکاﺅ پیپلزپارٹی کی طرف ہو گیا ہے۔ آصف علی زرداری نے عید آبائی شہر نوابشاہ میں گزاری۔ اس موقع پر انہوں نے پارٹی کارکنوں سے ملاقاتیں کی۔ نوابشاہ کے قریبی علاقوں میں تقریبات سے خطاب کیا۔ جلد حکومت کو گرا کر لوگوں کے مسائل حل کریں گے۔
شکارپور کے قریب ڈاکوﺅں سے ناکام پولیس مقابلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔”پولیس آپریشن کی ناکامی میں پولیس کا کردار“ کے عنوان سے ”روز نامہ کاوش“ لکھتا ہے کہ سندھ میں جرائم پیشہ افراد اور ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ آپریشن کے نام پر پولیس فنڈ تو خرچ کرتی ہے لیکن اس سے جرائم پیشہ افراد کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔اکثر آپریشن ناکام ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پولیس اپنا ہی جانی نقصان کر کے لوٹ آتی ہے۔ اس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا کہ پولیس جب اپنا ہی تحفظ نہیں کر پاتی تو عوام کا تحفظ کای کر پائے گی۔ ایسا ہی کچھ شکارپور ضلع میں ہوا۔مقتول کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لئے اے ایس پی شکارپور سٹی کی قیادت میں چین والی بکتر بند اور موبائل گاڑیوں میں جانے والی مختلف تھانوں کی پولیس پارٹی پر گھات لگاا کر بیٹھے ہوئے ڈاکوﺅں نے جدید ہتھیاروں سے حملہ کردیا۔ ان بکتر بند گاڑیوں میں سے گولی پار ہونے کی وجہ سے لکھی تھانے کے ایس ایچ او اور چک تھانے کا اے ایس آئی شہید ہو گئے۔بعج دیگر اہلکار بھی زخمی ہوئے اور پولیس بغیر آپریشن واپس آ گئی۔
سندھ میں اغوا انڈسٹری موجود ہے۔ غیر مقامی بگاڑ کی فیکٹریوں میں پیدا ہونے والی مقامی پراڈکٹ نے قانون کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ شکارپور ضلع جرائم اور قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے منفرد تشخص رکھتا ہے۔ یہاں جرائم بھوتاروں کی معیشت کا حصہ بن چکے ہیں۔جب آپریشن ہوتا ہے جرائم پیشہ افراد کو پیشگی اطلاع ہو جاتی ہے، اس واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ گھات لگا کر پولیس پارٹی پر حملہ کیا گیا۔ اور ایسے ہتھیار استعمال کئے جو بکتر بند گاڑی کی چادر توڑ دی۔ جس سے اے پی سی کے اندر بیٹھے ہوئے دو پولیس افسران شہید ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سال قبل ان اے پی سیز کی مرمت کے لئے فزیبلٹی رپورٹ بنائی گئی تھی۔ ایک کمپنی نے گاڑی کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ یہ مشنری ہماری ہے لیکن گاڑی کا اوپر والا ڈھانچہ اور پلیٹ فارم غیر معیاری ہے جو کہ دوسری کمپنیوں کا بنایا ہوا ہے ۔ہم اگر مرمت کر کے اپنی کمپنی کے پرزہ جات لگائیں گے تو نچلے حصے سے میچ نہیں کریں گے، کمپنی نے جب مرمت کرنے سے انکار کردیا، تو ایک کروڑ روپے خرچ کر کے مقامی مستریوں سے دو گاڑیاںمرمت کر اکے روڈ پر لائی گئیں۔
لگتا ہے کہ سندھ پولیس کو دی گئی اے پی سیز غیر معیاری ہیں۔اب تو سندھ بھر میں پولیس کو فراہم کی گئی اے پی سیز کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔ ڈاکو آگاہ تھے کے ان کے پاس موجود اسلح اے پی سی کو تباہ کرسکتا ہے۔ اب کوئی افسر ان اے پی سی کے پر انحصار کر کے آپریشن کی ہمت کرےگا؟ سوال یہ بھی ہے کہ سندھ میں اسلح سازی کے کارخانے موجود نہیں، پھر ڈاکوﺅں کے پاس یہ انتہائی بھاری اور جدید اسلح کہاں سے آتا ہے؟ اس طرح کا اسلح پولیس کے پاس بھی نہیں۔ جرم صرف سرپرستی کی چھتری کے نیچے پنپتے ہیں۔ جرائم اور مجرموں کی کسی نہ کسی سطح پر سرپرستی اور پولیس کی نااہلی بھی جرائم کے اضافے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔اس آپریشن کی ناکامی کی عدالتی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
”روزنامہ پہنجی اخبار“ نے صوبے میں بڑھتے ہوئے روڈ حادثات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ” آخر حکومت کتنے روڈ حادثوں کے بعد بیدار ہوگی“ کے عنوان سے اداریہ لکھاہے۔ صوبے بھر سے روزانہ حادثات کی خبریں شایع ہو رہی ہیں۔ جیسے ڑوڈوں پر ملک الموت موت گشت کر رہا ہے۔ نوری آباد، میرپور ساکرو، گجو، ٹنڈو جام، واہی پاندھی وغیرہ میں حادثات میں درجنوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ حادثات ہر مرتبہ حکومت اور ٹریفک حکام کے سوئے ہوئے ذہنوں کو جگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاہراہوں پر نہ ٹریفک قوانین پر عمل ہورہا ہے اور نہ حادثے کی صورت میں ٹراما سینٹر یا طبی امدا د کی سہولت دستیاب ہے۔ حکومت کے نزدیک حادثات اتفاقیہ ہوتے ہیں۔ نہ ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور نہ کیس پر ذمہ داری فکس کی جاتی ہے۔کسی المیے سے کم نہیں کہ ایک سال کے درواں درجنوں انسانی جانیں چلی گئی ہیں۔ مہذب ممالک میں ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے اور خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں سب کچھ ڈرائیوروں کی مرضی پر ہے کہ وہ کس طرح گاڑیاں چلائیں۔ خاص طور پربسوں اور کوچز میں مسافر
ڈرائیورز کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اب حکومت کو روڈ حادثات کے بارے میں سنجیدہ ہونا چاہئے۔اور قوانین پر پابندی کرانے کو یقینی بنانا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment