حکومت سندھ کی کارکردگی پر عدالتی سوالات
سندھ نامہ سہیل سانگی
روزنامہ پنہنجی اخبار ”کیا وفاق کے لئے کراچی ہی سندھ ہے؟“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں دو روزہ بارش نے بلدیاتی اداروں کی اہلیت کو بے نقاب کردیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سندھ کے لوگوں کی یہ خوش فہمی بھی ہوا ہو گئی کہ نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی سے ان کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بارش کے باعث لوگوں کو پہنچنے والی تکالیف، جانی خواہ مالی نقصان پر جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہورہی ہے، وہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑنے کے مترادف ہے۔ بلدیاتی ادارے صوبائی حکومت سے فنڈ نہ ملنے کی شکایت کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومت وفاق کی جانب سے عدم تعاون کی بات کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے لئے خراب حکمرانی کا کھاتہ کھول کے بیٹھی ہے۔
حالیہ بارشوں کے بعد بلدیاتی ادارے اور صوبائی حکومت کی کارکردگی پر مسلسل تنیقد کی جارہی ہے۔ پورے معاملے میں وفاق یوں لاتعلق کھڑا ہے جیسے سندھ پاکستان کا حصہ نہیں۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ میں بھی سندھ میں بارش کا معاملہ زیر بحث آیا لیکن بعد میں یہی بات دہرائی گئی کہ وزیراعظم کہتے ہیں کہ کراچی کو اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا۔ بارش پورے سندھ میں ہوئی ہے، کراچی اور حیدرآباد ڈویزن زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ وفاقی حکومت اگر کراچی کا درد محسوس کرتی ہے تو ہمارے سر آنکھوں پر۔کیا حیدرآباد کا حصہ نہیں؟ ٹھٹہ، لاڑکانہ اور سکھر کا بھی درد محسوس کرنا چاہئے۔ اگر کراچی کی بات کی جائے، عشروں تک اس شہر کے مالک ہونے کی دعویدار جماعت، جس کے وفاقی وزراءٗ صوبائی حکومت پر غصہ نکالنے کاکوئی موقع نہیں جانے دیتے، کیا وہ بتائیں گے کہ مشرف دور سے لیکر اس شہر کے لئے جو فنڈ ملتے رہے وہ کہاں گئے؟ یہ کہا جارہا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران کراچی کو صرف ایک سو ارب روپے ملے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے، کیا ان ایک سو ارب روپے کے بعد شہر کی کیا شکل بنی ہے؟کراچی کے بلدیاتی اداروں میں بھرتیوں سے لیکر پانی کی گزرگاہوں پر قبضے، چائنا کٹنگ میں کون کون ملوث رہا ہے؟ آج پانی کی گزرگاہیں بند ہیں، ان پر کثیر منزلہ عمارات کی تعمیر کس نے کی؟ ایم کیو ایم ماضی میں نہ صرف صوبائی حکومت کا حصہ رہی ہے بلکہ محکمہ بلدیات اور کراچی و حیدرآباد کے بلدیاتی ادارے بھی اس کے پاس رہے ہیں۔ کراچی کا مسئلہ پانچ دس سال کا نہیں۔ لہٰذا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہ کی جائے، اس سے سندھ کے لوگوں کی تکالیف کا ازالہ نہیں ہوگا۔ سندھ کے لوگ دیکھنا چاہیں گے کہ ان کے بچوں کے منہ سے نوالہ ٹیکس کی شکل میں چھین لیا گیا، اس کے عوض انہیں کیا شہری سہولیات ملی؟ کراچی ملک کا اہم شہر ہے، اس کی فکر سب کو ہونی چاہئے۔ لیکن وفاق کو پورا سندھ ایک ہی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ بجلی کی فراہمی وفاقی حکومت کے ماتحت محکمہ ہے۔ گزشتہ چار روز سے بارش کے متاثرہ باسیوں کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ حالیہ بارشیں عوام تو برداشت کر لے گا، لیکن ان اداروں اور حکومت کی کارکردگی پر جو زخم لگے ہیں، وہ بھلائے نہیں جا سکیں گے۔
خبر ہے کہ خیرپور میڈیکل کالج کی رجسٹریشن نہ سکی ہے، نتیجے میں کالج کے 84 فیکلٹی ممبران نے ریگیولر نہ ہونے پر استعیفا دے دیا ہے۔یہاں داخلہ لینے والے طلباٗ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ اسی طرح سے مہر میڈیکل کالج سکھر کا معاملہ بھی تاحال حل نہیں ہو سکا ہے۔
روزنامہ کاوش”تھوڑے میں سمجھ جائیں“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ جمہوری معاشروں میں مخالف جماعتیں حکومت پر تنقید کرتی رہتی ہیں۔ اس کے لئے یہی سمجھا جاتا ہے، چونکہ یہ مخالف جماعتیں ہیں اس لئے تنقید کر رہی ہیں۔ لیکن جب عدلیہ جیسا معزز فورم بھی اپنے ریمارکس میں خراب حکمرانی پر تشویش کا اظہار کرتا ہے، تو معاملے کی نسجیدگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اگر کوئی معزز جج یہ ریماکرس دے کہ فلاں صوبے کی حکومت برائے فروخت ہے، پھر اس صوبائی حکومت کو یقیننا اس مار کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں محکمہ صحت میں بھرتیوں کے حوالے سے معزز جج نے یہ ریمارکس دیئے۔ سندھ حکومت نے محکمہ صحت میں بھرتیوں کے لئے اشتہار دیا تھا۔اس اشتہار کے خلاف پہلے سے بھرتی کئے گئے ملازمین نے درخواست دی جنہیں ملازمت تو دی گئی لیکن تعیناتی نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے معزز عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لوگوں سے پیسے لیکربھرتی تو کرلیا جاتا ہے لیکن بعد میں انہیں تنخواہیں نہیں ملتی۔ دیکھا جائے تو اس طرح کی پریکٹس ہمارے اداروں میں ایک عرصے سے جاری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھرتیوں کے لئے موثر اور مناسب طریقہ کار موجود نہیں۔ لے دے کر صوبائی پبلک سروس کمیشن کا ایک ادارہ ہے جہاں پر بھی مداخلت شروع ہو گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں لوگوں میں یہ سوچ پختہ ہوگئی ہے کہ ملامت پیسے یا سفارش کے بغیر ممکن نہیں۔ لہٰذا سب نے اس طر ف دوڑ نے لگے۔ یہاں پر بیروزگاروں کی مجبوریوں سے کھیلنے کے ایسے طریقے اختیار کئے گئے کہ لوگوں کو مبینہ طور پیسوں کے عوض بھرتی تو کرلیا جاتا ہے لیکن تنخواہیں نہیں دی جاتی۔
اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کا کیس تاحال اپنے منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ پایا ہے۔ اس کیس میں ہزاروں لوگ محکمہ تعلیم میں ملازم تھے بھی اور نہ بھی تھے۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ لوگوں سے وصول کئے گئے پیسوں سے ہی ایک دو ماہ تک انہیں تنخواہیں دی گئیں اور بعد میں انہیں فارغ کردیا گیا۔ اس تخیلقی انداز کی کرپشن پر عمل متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ حکام کے ملوث ہونے کے بغیر ممکن نہیں۔بہتر حکمرانی خود بولتی ہے۔ اس کے لئے زیادہ دعوؤں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ میں بھرتیوں کے اس ڈرامے کے خاتمے کے لئے سنجیدگی اختیار کرنی چاہئے۔ عدالت کے ریمارکس اہم اشارہ ہیں۔