Sunday, August 4, 2019

وزیراعظم کا دورہ: سندھ حکومت نظر انداز


Nai Baat July 13, 2019 


وزیراعظم کا دورہ:  سندھ حکومت نظر انداز

سندھ نامہ  سہیل سانگی

 وزیراعظم عمران خان تاجروں کے لئے کراچی آئے تھے، ان سے مل کر چلے گئے،تاجروں نے بھی ان کی  ایک بھی نہ مانی اور اب وہ نئے ٹیکس نظام کے خلاف ہڑتال کرنے جارہے ہیں۔ گورنر سندھ نے تاجروں کو دلاسہ دے کر  ہڑتال ملتوی کرائی ہوئی تھی۔  وزیراعظم نے صوبائی دارالحکومت میں قیام کے دوران رسمی طوربھی حکومت سندھ کے کسی نمائندے سے ملاقات نہیں کی۔وزیراعظم نے گورنر ہاؤس میں دس سے زائد اجلاس کئے۔حالانکہ کل اگر ہڑتال ہوتی ہے تو  امن  وامان  کے حوالے سے سندھ حکومت ذمہ دار ہوگی۔ اجلاسوں کے بعد جب صحافیوں نے ان اجلاسوں میں سندھ حکومت کی غیر موجودگی سے متعلق سوال پوچھا تو وزیراعظم بات گول کر گئے۔البتہ انہوں نے واضح کیا کہ سندھ میں گورنر راج کے بارے میں نہیں سوچا۔ گزشتہ دو ہفتوں سے ایم کیو ایم پاکستان خواہ پاک سرزمین پارٹی کراچی کے حوالے سے سرگرمی دکھا رہی تھیں، ان کو بھی نہیں پوچھا گیا۔ وزیراعظم کے دورہ کراچی  پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ماضی میں وزیراعظم نے کراچی کے لئے جو اعلانات کئے تھے ان کا کیا ہوا؟  حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے پاس کراچی کو ینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ عمران خان کو کراچی کے شہریوں نے ووٹ دیئے لیکن وہ صرف دورے کی رسمیں ادا کرنے آتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے  شہری علاقے کو چنا ہے اورتاجروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے، بلاول بھٹو زرداری سکھر شہر میں مہنگائی کے خلاف ریلی نکال رہے ہیں۔یہ دونوں جماعتوں کی مہم سے پتہ چلے گا کہ عام آدمی اپنے معاشی مسائل پر کس طرح سے ردعمل دیتا ہے۔ سیاست اور معیشت کا ایک دوسرے پر انحصار ہے لیکن جب یہ دونوں بحران کا شکار ہوں تو عوام پر کیا گزرے گی؟ لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ پریشان سیاسی حالات پر ہوں یا معاشی حالات پر۔
سندھ کے اخبارات  میں یہ موضوع بھی زیر بحث رہا کہ خیرپور سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ایم پی اے منور وسان اور ان کے گارڈوں نے بل منظور نہ کرنے پرمبینہ طور آڈٹ افیسر لوکل گورنمنٹ پر حملہ کیا جس پر بلدیاتی اداروں کے ملازموں نے ہڑتال کر دی تھی۔ بعد میں ڈپٹی کمشنر کی مداخلت پر ہڑتال ختم کردی گئی۔ یہ ایم پی اے پیپلزپارٹی سندھ کے سنیئر لیڈر منظور وسان کے قریبی رشتہ دار بتائے جاتے ہیں۔
 خبر ہے کہ سندھ  سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اسلح کے شوقین نکلے۔ دو تین کو چھوڑ کر باقی سب حضرات حکمران جماعت  میں رہے ہیں اور انہی کسی نہ کسی طور پر  پولیس پروٹوکول حاصل رہا ہے۔تاہم وہ اپنے پاس جدید اسلح رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائے گئے اثاثوں کے مطابق پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرادری کے پاس ایک کروڑ 66  لاکھ  روپے کی مالیت کا اسلح ہے۔ان کے پاس سب سے زیادہ اسلح بتایا جاتا ہے۔  سردار چانڈیو کے پاس ساٹھ لاکھ روپے، بلاول بھٹو زرداری کے پاس تیس لاکھ روپے شرجیل میمن کے پاس پچیس لاکھ روپے کا اسلح ہے۔ میر منور تالپور کے پاس تقریبا ساڑھے بارہ لاکھ روپے، بیگم فریال تالپور کے پاس پونے چودہ لاکھ  روپے،  غلام علی تالپور کے پاس پچیس لاکھ روپے،  فہمیدہ مرزا کے پاس  نو لاکھ، روپے، ذوالفقار مرزا کے پاس سولہ لاکھ روپے کا اسلح ہے الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق  تقریبا تمام اراکین اسمبلی کے پاس اسلح ہے۔
 گھوٹکی،شکارپور اور بالائی سندھ کے دیگراضلاع میں اغوا برائے تاوان  کے واقعات جاری ہیں۔ان میں سے اکثر  تاوان کی ادائیگی اور مقامی اثر رسوخ کے ذریعے رہا ہو چکے ہیں تاہم ابھی تک نصف درجن افراد  ڈاکوؤں کے پاس یرغمال ہیں۔ اس اثناٗ میں سندھ پولیس نے بلیک بک جاری کی ہے۔ ”روزنامہ پنہنجی اخبار“ اداریے میں لکھتا ہے کہ چند ہفتے قبل سندھ پولیس نے  150 خطرناک مجرموں کی تصاویر سمیت تفصیلات سے متعلق  بلیک بوک چھپوا کر تھانوں پر کھ دی ہے۔ان جرائم پیشہ افراد کے سر کی قیمت دو لاکھ سے  چالیس لاکھ روپے تک مقرر کی گئی ہے۔ بلیک بک میں ہر جرائم پیشہ فرد کی ذاتی معلومات اور جرائم کا ریکارڈ شامل ہے۔ یہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ مختلف تھانوں کو پتہ چلے کہ کون کون ملزم مطلوب اور روپوش ملزم ہے،  سندھ پولیس کی یہ کوشش پرانے انگریز دور کی ذہنیت کا تسلسل لگتی ہے۔ جب جرائم پیشہ افراد کی تصاویر تھانوں پر لٹکادی جاتی تھی۔ اس بلیک بوک  میں ملزم کے قد،، عمر، بالوں کے رنگ،  تاریخ پیدائش سے متعلق تمام معلومات موجود ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ آج کل وہ کہاں ہے؟  سندھی میں کہاوت ہے کہ پولیس کو سب پتہ ہے۔پولیس یہ بھی جانتی ہے کہ اس کی حد میں کون کون جرائم پیشہ ہے؟  وہ کن جرائم میں ملوث ہے؟ اس کا طریقہ واردات کیا ہے۔ اور کہاں ہوتا ہے؟  تھانیدار کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کس جرائم پیشہ  فردکے پیچھے کون سی بااثر شخصیت ہے؟  عام طور پر پولیس کی ان جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ایک مفاہمت ہوتی ہے کہ وہ  بھلے اس کی حدود  میں رہیں، لیکن جرم کسی اور حدود میں کریں۔ نتیجے میں لوگ اغوا ہوتے ہیں اور بعد میں تاوان ادا کر کے رہائی پاتے ہیں۔ اصل میں پولیس میں کالی بھیڑیں موجود ہیں، جس کی وجہ سے مجرموں کے خلاف نہ کامیاب آپریشن ہو پاتا ہے اور نہ ہی کامیاب کارروائی۔
 سندھ میں اب بچوں کے خلاف جرائم کی خبریں آرہی ہیں۔ تین روز قبل شکارپور سے لاپتہ ہونے والے تین اسکولی طالب علم فیصل آباد سے برآمد ہوئے ہیں۔ حیدرآباد میں دو چھوتے بہن بھائیوں کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا۔ لڑکا شدید زخمی حالت میں بازیاب ہوا، لیکن بعد میں زخموں کی تاب نہ  لا کر فوت ہو گیا۔اب مغویہ بچی کی لاش ملی ہے جسے جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ روزنامہ کاوش کے مطابق نو دیرو  میں ایچ آئی وی کے  906 پازیٹو کیس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ اکثر رشتہ داروں نے ان متاثرہ افراد سے  تعلق ختم کردیا ہے۔ ان سماجی رویوں کی وجہ سے  متاثرہ افراد پریشان ہیں۔حکومت کی جانب سے مریضوں کو ادویات اور دیگر سہولیات نہ مل سکیں۔ تاحال ان متاثرہ افراد کی بحالی اور علاج کے لئے اعلان کردہ مراکز نے بھی کام شروع نہیں کیا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment