Friday, September 6, 2019

سندھ اوروفاق کی دوریوں میں مزید اضافہ


https://www.naibaat.pk/06-Sep-2019/26095

حکومت سندھ کی زمین کے کیس میں گرفتار اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے گرفتار بیٹے غنی مجید، حماد شاہ، توصیف، طارق الرحمٰن، عامر سمیت سات افراد نے نیب کے ساتھ پلی بارگین کرلی ہے۔ ان سات ملزمان نے ساڑھے دس ارب روپے ادا کرنا قبول کیا ہے اور اسٹیل ملز اور سندھ حکومت کی 226 ایکڑ زمین بھی واپس کرنا قبول کیا ہے۔ نوری آباد پاور کمپنی اور سندھ ٹرانسمیشن کمپنی کے افسران نے بھی پلی بارکین کر لی ہے۔ سندھ بینک کے ایک افسر کی پلی بارگین کی درخواست ابھی التوا میں ہے۔ جعلی اکائونٹس سے متعلق 18 انکوائریز میں سے ایک اسٹیل ملز اور حکومت سندھ کی زمین سے متعلق ہے۔ جعلی اکائونٹس کیس میں آصف زرداری اور فریال تالپور سمیت 39 ملزمان ہیں۔ جن میں سے پچیس گرفتار ہیں۔ ڈاکٹر ڈنشا اور جمیل احمد سے بات چیت چل رہی ہے ان کے ساتھ پلی بارگین کا معاملہ آخری مرحلے میں ہے۔ کل تیرہ افراد نے پلی بارگین کی ہے جن سے 13 ارب روپے وصول کئے جاچکے ہیں، یہ رقم اومنی گروپ کے علاوہ ہے۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ آصد زرداری سے بات چیت چل رہی ہے، پیسے کشمیر فنڈ میں دیئے جائیں گے۔ بعض خیرخواہ ثالثی کر رہے ہیں۔ آصف زرداری کچھ نہ کچھ دیں گے، شریف برادران ایسے بھی نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ کی ہدایات پر ملک ریاض نے بحریہ ٹائون کے حوالے سے جو دس ارب روپے کی ادائیگی کی ۔تین چار مدوں سے آنے والی یہ ایک خطیر رقم ہے، لگتا ہے آنے والے دنوں میں پلی بارگین یا دیگر طریقوں سے مزید رقومات آنے والی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ رقومات کس کی ہیں؟ کس کو ملنی چاہئیں؟ سندھ حکومت کا مانناہے کہ یہ تمام رقومات سندھ حکومت کی ہیں کیونکہ یہ زمین اور دیگر اثاثے سندھ کی ملکیت تھے، لہٰذا ان پر آئینی و قانونی طور پر سندھ حکومت کا حق ہے۔ لیکن وفاق صوبے کو نظر انداز کر کے ہر حال میں یہ رقم خود لینا چاہتا ہے۔ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان این ایف سی ایوارڈ میں سے کم رقم جاری ہونے پر پہلے ہی تنازع چل رہا ہے۔ ان رقومات پر وفاقی حکومت کے دعوے سے سندھ اور وفاق کے درمیان ایک اور تنازع مزید پیدا ہو رہا ہے۔

سندھ اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ گنے کے کاشتکاروں کوالٹی پرمیم کی مد میں مل مالکان کی طرف واجب الادا ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران سیکریٹری زراعت اور ڈائریکٹر جنرل آڈٹ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ اجلاس میں مالی سال 2009-10 اور 2010-11 مالی سال کی آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی۔ آڈٹ افسران نے کوالٹی پریمیم کی مد میں ایک ارب 43 کروڑ روپے ریکوری نہ ہونے کا معاملہ اٹھایا۔ جس پر سیکریٹری زراعت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ پرائیویٹ پارٹی کا ہے۔ آڈٹ حکام کے اعتراضات غلط ہیں۔ آڈٹ حکام کا یہ موقف تھا کہ جہاں ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی وہاں اعتراضات اٹھائے جائیں گے۔ یہ پیسے حکومت کے نہیں کاشتکاروں کے ہیں۔ کین کمشنر نے بتایا کہ یہ کوالٹی پریمیم کی ادائیگی کا معاملہ 1997 سے چل رہا ہے، اب تک کاشتکاروں کے پینتیس ارب روپے اس مد میں واجب الادا ہیں۔
’’کاشتکاروں کو زرعی اجناس کی صحیح قیمت ملنا محال ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ گندم کی فصل اترتی ہے تو حکومت ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے سرکاری قیمت دیر سے مقرر کرتی ہے۔ قیمت مقرر کرنے کے بعد سرکاری خریداری مراکز قائم نہیں کئے جاتے۔ اس اثناء میں باردانے کی تقسیم کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال گنے کی فصل کے ساتھ ہوتی ہے۔ حکومت وقت پر شگر ملز چالو کرانے میں ناکام رہتی ہے۔ کاشتکاروں کو گنے کی صحیح قیمت نہیں مل پاتی۔ کاشتکاروں کو برسہا برس تک گنے کی رقم کی ادائیگی نہیں کی جاتی۔ ابھی سندھ میں کپاس کی فصل مارکیٹ میں آئی ہے۔ لیکن کاشتکار صحیح قیمت حاصل کرنے سے محروم ہیں۔فیکٹری مالکان نے مختلف مقامات پر اجارہ داری قائم کرکے فی من کی قیمت میں 1000 سے 1200 روپے تک کمی کردی ہے۔ کپاس کے کارخانوں پر نصب کانٹوں میں بھی ہیراپھیری کی جارہی ہے۔ حصے کا پانی نہ ملنے کے باعث سندھ میں زراعت کا حال ویسے ہی برا ہے۔ جو پانی ملتا ہے اس کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی۔ نتیجے میں چھوٹے کاشتکار کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پانی کی کمی پوری کرنے کے لئے یہ کاشتکار ٹیوب ویل استعمال کرتا ہے۔ اس وجہ سے اس کی پیداوار کی فی ایکڑ لاگت بڑھ جاتی ہے۔ جب فصل تیار ہو کر مارکیٹ پہنچتی ہے تو اس کی صحیح قیمت نہیں ملتی۔ کاشتکار کا المیہ ہے کہ وہ اپنی زرعی پیداوار کی قیمت خود مقرر نہیں کرتا۔ وہ اس معاملے میں تاجر، دلال یا کارخانیدار کے رحم و کرم پر ہے۔ شہدادپور میں کارخانیداروں نے اجارہ داری قائم کر کے کپاس کے دام اپنی مرضی کے مقرر کر رکھے ہیں۔ اس وقت کپاس کے فصل کی قیمت 3900 روپے من ہے لیکن کارخانیدار من مانی کر کے کاشتکاروں کو 2700 روپے ادا کر رہے ہیں۔ عملی صورت یہ ہے کہ کاشتکاروں کو 31 فیصد قیمت ادا کی جارہی ہے۔ اس صورتحال پر حکومت سندھ کی خاموشی معنی خیز ہے۔ محکمہ زراعت اس معاملے لاتعلق ہے۔ سندھ زرعی صوبہ ہے جس پر پوری دیہی معیشت چلتی ہے اور کارخانوں خواہ برآمد کے لئے خام مال اس شعبے سے ہی آتا ہے۔ لیکن زراعت حکومت کے ایجنڈا پر نہیں ہے۔ زرعی شعبے اور کاشتکاروں کے مسائل سے حکومت کی لاتعلقی باعث تشویش ہے۔

No comments:

Post a Comment