سندھ نامہ: سہیل سانگی
روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi
روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi
کاش سندھ حکومت چند سال پہلے ایسا کرتی
سندھ نامہ ۔۔۔۔ سہیل سانگی
’’روزنامہ عبرت ‘‘ لکھتا ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ و توانائی سید مراد علی شاہ، اور سنیئر وزیر نثار احمد کھڑو نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ پریس کانفرنس میں جو باتیں کی ہیں، اگرچہ ان باتوں سے سندھ کے ہر فرد کی ترجمانی ہوتی ہے۔ لیکن وقت کے انتخاب کی وجہ سے ان باتوں کا اثر زائل ہوسکتا ہے ۔عام لوگوں کا یہ خیلا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے لگوں کو کرپشن کیسز سے بچانے کے لئے سندھ کے یہ اشوز اٹھا رہی ہے۔ اس دلیل میں وزن بھی ہے کیونکہ گزشتہ سات سال کے دوران سندھ میں حکمرانی کرنے ولای پیپلزپارٹی کو یہ سب معاملات کیوں نظر نہیں آئے۔ دو سال تک وفاقی حکومت کے ساتھ شیر و شکر ہو کر رہنے والی پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے یہ مطلابات کیوں نہیں کئے۔ آج آکر اس پارٹی کی آنکھوں میں سندھ کا درد کیوں امنڈ آیا ہے؟۔ سندھ کے لئے پید اہونے والا یہ احساس کہیں بلدیاتی انتخابات کی مہم کا حصہ تو نہیں۔
سندھ کے لوگ اس تجربے سے گزرے ہیں کہ گزشتہ سات سال کے دوران پیپلزپارٹی نے سندھ حکومت ہر اس قدم کو جائز سمجھتی رہی جس سے اس کے اقتدار کو طول مل سکتا تھا۔ اس کی بڑی مثال گزشتہ دور حکومت میں سندھ حکومت کو انتظامی طور پر دو حصے کرنا تھا۔ سوات آپریشن کے لئے استقبالی کیمپ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ہر غیر اور اجنبی کو اپنی گود میں لینا شامل ہے۔ لاکھوں انسانوں کو ہاتھوں سے پانی میں ڈبویا گیا۔ اور بعد میں یہ متاثرین جب کراچی میں عارضی کیمپ قائم کرنے کے لئے پہنچے تو انہیں دھکے دے کر نکالا گیا۔ ان پر گولیاں برسائی گئیں،۔
آج وہی حکمران جب تنگی میں آئے ہیں، تو سندھ کے درد کی بات کر کے آنکھوں میں خون کے آنسو لا رہے ہیں۔ یہ بات دو وزراء کی اس پریس کانفرنس میں بھی نظر آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف افغانستان، تاجکستان اور بھارت سے بجلی خرید کرنے کے لئے مذاکرات کر رہے ہیں لیکن سندھ سے بجلی خرید کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزرارت پانی و بجلی شہباز شریف چلا رہے ہیں اور انہوں نے سندھ میں سولر اور ونڈ کے پاور پروجیکٹ بند کر ادیئے ہیں۔ جبکہ پنجاب میں شریف برادران کی کمپنی زونرجی کو سولر اور ونڈ کے پچیس منصوبوں کے معاہدے کئے ہیں۔ جس سے پیدا ہونے والی بجلی مہنگی ہوگی اور پنیتیس روپے فی یونٹ تک بیچی جائے گی۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو دنیا کے مہنگے ترین منصوبے بنانے کا شوق ہے۔ تھر میں بڑے مقدار میں کوئلہ موجود ہونے کے باوجود نواز حکموت کوئلہ درآمد کررہی ہے ۔
حکومت سندھ آج جو باتیں کر رہی ہے، کاش وہ ایساگزشتہ سالوں کے دوران کرتی یا دو سال کے دوران ہی کر دیتی۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت کے زرعی پیکیج کے فسانے میں سندھ کا کوئی ذکر نہیں۔ نہ گنے کے کاشتکاروں کے لئے رلیف ہے اور نہ ہی قحط سے متاثرین کاشکاروں کی مدد کے لئے کسی اقدام کا حوالہ ہے ۔ لگتا ہے کہ یہ پیکیج پنجاب کے کاشتکاروں کو نظر میں رکھ کر بنایا گیا ہے۔ اگر ملک بھر کے لئے یہ پیکیج بنتا تو یقیننا اس میں سندھ کا ذکر بھی ہوتا اور اسکا حصہ بھی ہوتا۔ سندھ زرعی صوبہ ہے۔ یہاں ڈاؤن اسٹریم کوٹری دریا میں پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے سمندر سندھ کی زرخیز زمینیں نگل رہا ہے ۔ وزیر اعظم نے سولر ٹیوب ویل کے لئے بلا سود قرض دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کا سندھ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ پنجاب کا زیر زمین پانی میٹھا ہے۔ اور سندھ میں زیر زمین پانی کڑوا ہے۔ سندھ کا گنے کا بیلٹ ایک عرصے سے توجہ طلب ہے، جس پر کوئی کام نہ کرنے اور امدادی اقدامات نہ لینے کے نتیجے میں یہ بیلٹ اور یہاں کے لوگوں کی معیشت تباہ ہورہی ہے۔ شگر مل مالکان کی اجارہ داری، وقت پر شگر ملیں شروع نہ ہونے، کاشتکاروں کو سرکاری طور پر مقرر کردہ قیمت کی ادائگی نہ ہونے کی وجہ سے گنے کی کاشت میں کمی آرہی ہے۔ اس پیکیج میں گنے کے کاشتکاروں کے لئے خصوصی اقدامات کی ضرورت تھی۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ زمینوں پر قبضے کی کہنایاں کراچی میں آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں۔لیکن یہ کہانیاں صرف کراچی تک محدود نہیں ۔ ایسے قصے سندھ بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کیس بھی شہر کا نام لیں وہاں آپ کو زمینوں پر قبضے کی سینکڑوں داستانیں ملیں گی۔ اس حوالے سے جامشورو نہایت ہی زرخیز علاقہ ہے۔ باقی کہانیوں کو چھوڑیں، سندھ یونیورسٹی کی وائیس چانسیلر نے چیئرمین اینٹی کرپشن ممتاز علی شاہ سے ملاقات کر کے سندھ یونیورسٹی کی زمینوں پر قبضے کے ثبوت پیش کئے۔ جامشورو میں لینڈ مافیا صرف سراکاری اداروں کی زمینوں پر ہی نہی، کئی پرائیویٹ لوگوں کی زمینوں پر بھی ہاتاھ صاف کر رہی ہے ۔ عام لوگ اس مافیا کا اس لئے بھی مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس مافیا کو بااثر افراد کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یونیورسٹی جیسے اداروں کے پاس ہر معاملے میں بڑے وسائل اور اثر رسوخ بھی ہوتا ہے ۔ ایسے میں اگر یونیورسٹی بھی لاچاری دکھائے گی تو یہ عمل قبضہ مافیا کی حوصلہ افزائی کے زمرے میں آئے گا۔ یونیورسٹی کی وائیس چانسیلر نہ صرف معاملہ اینٹی کرپشن کے پاس لے گئیں بلکہ انہیں یہ بھی بتایا کہ اس عمل میں یونیورسٹی کے بعض ملازمین بھی شامل ہیں۔ اگر یونیورسٹی کے ملازمین شامل ہیں تو ان کے خلاف وائیس چانسیلر کے علاوہ اور کون مجاز اختیاری ہوسکتی ہے جو ان کے خالف کارروائی کر سکے؟ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ ملازمین اتنے بااثر ہیں کہ خود وائیس چانسلربھی ان کے خلاف کارروائی کرنے سے ہچکچاتی ہیں ۔
وائیس چانسلر نے زمینوں سے قبضہ چھڑانے کی جو کشش شروع کی ہے اس کی ہمت افزائی کرنی چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے اردگرد موجود دیگر سرکاری اداروں کی زمینوں پر جو قبضے ہیں انہیں بھی خالی کرانی کو یقینی بنایا جائے۔
For Nai Baat Sept 19, 2015