Friday, September 11, 2015

سندھ: بالآخر بلدیاتی انتخابات پر ابہام کا خاتمہ

سندھ: بالآخر بلدیاتی انتخابات پر ابہام کا خاتمہ
سندھ نامہ۔۔۔ سہیل سانگی 

’’روزنامہ عبرت ‘‘ لکھتا ہے کہ سندھ میں بالاّخر بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ابہام بالآخر ختم ہو گیا۔ سکھر اور لاڑککنہ ڈویزنوں میں کاغذات نامزدگی جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کا معمالہ ایک عرصے تک التوا کا شکار تھا۔ موجودہ خواہ سابق حکومت نے ہر ممکن طور طور پر ٹالمٹول سے کام لیا۔ لیکن اس مرتبہ سپریم کورٹ نے تمام حربوں کو ناکام بنادیا اور حکم جاری کیا کہ کسی بھی طور پر بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنایاجائے۔ اس حکم پر سب سے پہلے شورش کی لپیٹ میں پھنسے ہوئے صوبے بلوچستان نے آغاز کیا۔ اس کے بعد خیبر پختونخو میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ اس کے بعد سندھ اور پنجاب کے لئے ممکن نہ تھا کہ وہ زیادہ عرصے تک انانتخابات سے بھاگ سکیں۔ لہٰذا دونوں صوبائی حکومتوں نے بحالت مجبوری انتخابی عمل شروع کر دیا۔ جس کا پہلا مرحلہ سندھ میں شروع ہو چکا ہے۔ یہ ایک مثبت عمل ہے۔
نچلی سطح پر لوگوں کے مسائل کو جلدی حل کرنے کے لئے بلدیاتی نظام کو اہمیت حاصل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس اس نظام اور انتخابات کو جمہوریت مخالف حلقوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا۔ ضیا کا ریفرینڈم ہو یا مشرف کا بلدیاتی نظام اس کے ذریعے دونوں حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے استعمال کیا۔اس لئے بھی جمہوری سیاسی جماعتیں اس نظام کو ناپسند کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ جمہوری حکومتوں کو اپنے اختیارات میں کمی کا بھ احساس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ان انتخابات سے بھاگنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ یہ وس وجہ سے بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیاست کا مقصد فلاح و بہبود نہیں بلکہ ختیارات کا حصول ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو، خواہ اس کا منشور الفاظ میں کتنا ہی ملک اور قوم کے بھلے کی بات کرتا ہو، یلکن عملا ان جماعتوں کی کوشش خود کو یا اپنے آدمیوں کو بااختیار بناے کی ہوتی ہے۔ ان کو عوام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ مسائل کا لامنتہائیسلسلہ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ 
سیاست کو مہنگا سودا بنادیا گیا ہے۔ عام آدمی صوبائی یا قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ وہ بھلے سیاست اور سماجیت میں کتنی ہی قابلیت کیوں نہ رکھتا ہو۔ اس کے برعکس جعلی ڈگریاں لیکر جاگیردار، چوہدری اور سرمایہ دار سرمایہ کاری کر کے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو شخص صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرے گا وہ اپنا خر وصول کرنے کے بجائے بیٹھ کر عوام کے مسائل حل کرے گا؟ بلکہ اس شخص کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ انتخابات میں کی گئی سرمایہ کاری وصول کرنے کے ساتھ ساتھ منافع بھی کمائے۔ ایک عرصے سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اب تو بعض اراکین اسمبلی کی جرائم پیشہ گروہوں سے روابط کی بھی خبریں آرہی ہیں۔ 
مطلب ہمارے ہاں سیاست کمائی کا ایک ذریعہ ہے۔ نتیجے میں ہم جب اپنی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسے ممالک سے بھی دتر حالت پاتے ہیں جو ہمارے بعد آزاد ہوئے۔ ہمارے ہاں تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کا رجحان بھی رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب تقریبا تمام محکموں کے قلمدان اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔سندھ میں بھی بڑی حد تک یہی صورتحال ہے۔ اگر سب قلمدان ایک شخص کے پاس نہیں ہیں تو ان کی تقسیم میرٹ کے بجائے ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ عام فلاح کے کام التوا کا شکار ہیں۔ 
اس صورتحال میں بلدیاتی انتخابات اور فعال بلدیاتی نظام کا ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔ جس کے تحت عام آدمی کم از کم اپنی گلی محلے کی شکایت اپنے منتخب نمائندے تک پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ از حد ضروری ہوجاتا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں ان انتخابات کو شفاف بنایا جائے۔ 
روزنامہ کاوش کراچی میں میڈیا نشانے پر کے عنوان سے لکھتا ہے کہ کراچی کی سرزمین نے لاکھوں بے گھر اور بیروزگار لوگوں کو اپنی گود میں جگہ دی ہے۔ لیکن اس شہر کو کبھی بھی سکھ چین حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ صوبے کے دارالحکومت اور ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہلانے والے اس شہر میں اب صحافی ہدشتگرد کارروایوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایک ٹی چینل کے سیٹلائیٹ انجنیئر کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد ایک سینئر صحافی آفتاب عالم کو موت کی ابدی نیند سلادیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے معاملے کی آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کی ہے۔ جبکہ صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے میں قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔ چوبیس گھنٹے میں دو صحافیوں کے قتل نے کراچی آپریشن کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔یہ دو واقعات اس وقت سامنے آئے ہیں جب رینجرز اور پولیس نے پریس کانفرنس میں یہ دعوا کیا کہ کراچی میں ساٹھ سے ستر فیصد تک کمی آئی ہے۔ ملک بھر میں صحافی دہشتگردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ لیکن کراچی میں سچ کا آئینہ دکھانے والے کچھ زیادہ ہی زیر عتاب رہے ہیں۔ یہ کراچی کا ہی شہر تھا جہاں چند سال پہلے امریکی صحافی ڈٰنئل پرل کو اغوا کرکے قتل کیا گیا تھا۔ 2011 میں ایک نجی چینل کے صحافی ولی بابر کو قتل کیا گیا گزشتہ سال نامور صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ستمبر 2013 میں کراچی میں آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس آپریشن کو اب دو سال کمل ہو چکے ہیں۔ اور اب بھی یہ آپریشن جاری ہے۔ مختلف واقعات کے باوجود صحافیوں کے تحفظ کے لئے حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ یہ ضروی ہو گیا ہے کہ ہر مشکل صورتحال میں بھی حقائق پیش کرنے والے اس پیشے سے منسلک افراد کے خلاف ان پرتشدد واقعات کے لئے حکومت نوٹس لینے اور مذمت سے آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے 
اور صحافیوں کو تحفظ کا احساس دلانا چاہئے۔

http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/%D8%B3%D9%86%D8%AF%DA%BE-%D8%A8%D8%A7%D9%84%D8%A2%D8%AE%D8%B1-%D8%A8%D9%84%D8%AF%DB%8C%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%86%D8%AA%D8%AE%D8%A7%D8%A8%D8%A7%D8%AA-%D9%BE%D8%B1-%D8%A7%D8%A8%DB%81%D8%A7%D9%85
 Nai Baat Sep 12, 2015 

No comments:

Post a Comment