Friday, September 4, 2015

بشیراں کی خود کشی اور حکمرانوں کی کرپشن

سندھ نامہ: سہیل سانگی 
روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi

بشیراں کی خود کشی اور حکمرانوں کی کرپشن
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
کرپشن کے خلاف کارروائیاں اور اس پر سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی کا رد عمل مجموعی طور پر اخبارات کا موضوع ہیں۔ دوسری جانب عرصہ دراز تک ٹال مٹول کے بعدصوبے میں مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کا عمل شروع ہو رہا ہے۔ صوبے میں سیاسی سرگرمیاں کراچی میں جاری آپریشن اور کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے چل رہی تھیں س۔ اب یہ سرگرمیاں انتخابات کے حوالے سے بھی بڑھ گئی ہیں ۔ اخبارات کا یہ رویہ ہے کہ کرپشن کے خلاف ہونے والی کارروائیاں بلا امتیاز ہونی چاہئے، اور اگر اس میں کسی بھی قسم کا امتیاز برتا گیا تو اس کو سیاسی معنوں میں استعمال کیا جائے گا۔
’’روزنامہ عبرت‘‘ لکھتا ہے کہ اخبارات میں یہ خبرشایع ہوئی کہ شاہپور چاکر ( ضلع سانگھڑ) کی بائیس سالہ بشیراں خاتون نے اپنے دو بیمار بچوں کا علاج نہ کر سکنے کے باعث دل برداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔ بشیراں کا شوہر ایک ہوٹل پر مزدوری کرتا ہے، اس کام کے عوض ملنے والا معاوضہ بچوں کے علاج تو کیا دو وقت کی روٹی کے لئے بھی ناکافی تھا۔ پریشانیوں سے تنگ آکر بشیراں نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لی۔ ارباب اختیار و اقتدار پر اس خبر کا کیا اثر ہوا ہوگا؟ شایدیہ خبر ان کی نظروں سے گزری بھی نہیں ہوگی۔ یہ خبر سندھی سماج کے فرسٹریشن کا اظہار ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں ایسے واقعات روزانہ جنم لے رہے ہیں۔ ان میں سے چند ایک اخبارات میں پر جگہ لے پاتے ہیں۔ ورنہ اکثر واقعات قسمت کا لکھا سمجھ کر میڈیا کے کالموں سے غائب رہتے ہیں۔
شاداب اور خوشحال سندھ کے ہر اہل دانش و فکر کے لئے یہ واقعہ باعث تشویش ہونا چاہئے۔ افسوس کہ آٹھ سال سے اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والے حکمرانوں کو اس واقعہ پرذرا برابر بھی جھٹکا محسوس نہیں ہوا۔ کیونکہ وہ خود کو عوام کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ حکومت سندھ جتنی ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر حرکت میں آئی یا قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اس معاملے کو امکانی خاتمے کو جنگ تک لے جانے کی دھمکی دی۔ سندھ کی صورتحال کو بہتر بنانے یا سماج میں پھیلی ہوئی مایوسی پر اس کے چوتھائی برابر بھی اگر تحرک لیا جاتا، تو کئی بچے یتیمی کے روگ سے بچ جاتے۔ کئی ماؤں کی گود خالی نہیں ہوتی۔ لیکن افسوس کے ہمارے حکمرانوں کو اپنے چیلے چانٹوں کے علاوہ اور کوئی یاد ہی نہیں ۔ انہیں وہ لاکھوں لوگ نظر نہیں آتے جن کے چولہے چوبیس گھنٹے میں صرف ایک بار جلتے ہیں۔
اگر سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی سہولیات اور ڈاکٹروں کی موجودگی کو یقینی بنایا جاتا تو بشیراں کو یہ انتہائی قدم اٹھانا نہ پڑتا۔ اگر ان کے شوہر کو سرکااری طور پر مقرر کردہ کم از کم تنخواہ ملتی تو معصوموں کی مسکراہٹیں سسکیوں میں تبدیل نہیں ہوتیں۔ کیا ہمارے حکمران اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایک ہوٹل پر کام کرنے والے مزدور کو کتنا معاوضہ ملتا ہے؟ اینٹوں کے بٹھوں پر اپنے ارمان جلانے والا مزدور کتنا کماتا ہے؟ مل، کارخانے یا کھیت میں کام کرنے والا محنت کش کس مشکل سے زندگی گزارتا ہے؟ یہ سب باتیں کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ ایسے گھرانوں کے ارمان پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے روزانہ عام لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ مطلب ملک کی اکثریت انتہائی تنگدستی کی زندگی گزار رہی ہے۔ بڑے شہروں میں پھر بھی روزگار کے مواقع ہیں۔ چھوٹے شہروں میں جینا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔ نتیجے میں کئی بشیراں جیسی مائیں زندگی سے یا اپنے بچوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ مہذب ممالک میں اس طرح کے واقعات حکمرانوں کا درد سر بن جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس کٹھورپن کی انتہا ہے کہ میڈیا، حکمران اور سماج میں اصلاح کے دعویدار اس پر غور کرنے کو وقت کازیاں سمجھتے ہیں۔ شاید انہیں نہیں معلوم کہ غربت اور محرومیاں کن تباہیوں کو دعوت دیتی ہیں۔ حال ہی میں سندھ محکمہ داخلہ نے خفیہ اداروں کی مدد سے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں نو ہزار مدارس میں پانچ لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے بعض ممکن ہے کہ صرف علم حاصل کرنے کے لئے ان مدارس کا رخ کرتے ہوں گے ، لیکن ایک بڑی تعداد غربت کے باعث ان مدارس کے حوالے کردی جاتی ہے ۔ مطلب یہ کہ غربت ہر برائی کی ماں سمجھی جاتی ہے۔ اگر سندھ میں مائیں اپنے بچوں کی بھوک برداشت نہیں کر سکتیں اور خودکشی کر لیتی ہیں۔ کل کو اس غربت اور بھوک سے تنگ آکر کسی دوسرے کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ ایک طرف شاہوکار سندھ کے رہائشی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں تو دوسری جانب اسکے حکمرانوں کو کرپشن کی کہانیوں میں مرکزی کردار ادا کرنے پر یاد کیا جاتا ہے۔ روزانہ نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ اگر حکمران ذاتی خواہشات کے بجائے تھوڑا سا ہی سہی، عوام پر دیتے تو سینہ تھنخ کر کرپشن کے الزامات کو رد کر سکتے تھے۔ اور سندھ کے حالات بھی قدرے بہتر ہوتے۔
’’روزنامہ کاوش‘‘ لکھتا ہے کہ 1991 کے پانی کے معاہدے کے تحت ڈاؤن اسٹریم کوٹری 10 ملین ایکڑ فٹ پانی اور عالمی ماہرین کی سفارش کے مطابق 8.5 ملین ایکڑ فٹ پانی چھوڑنے سے انکار کرنے والے ادارے ارسا نے متنازع چشمہ جہلم لنک کینال کے ماحولیاتی ضروریات کی خاطر 10 ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر سندھ کے نمائندے نے اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے کہ سی جے کینال کو صرف سیلاب کے دنوں میں کھولا جاسکتا ہے۔ جبکہ ماحولیاتی ضروریات کے لئے اس کینال میں پانی چھوڑنے کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں۔ حکومت سندھ نے پانی کے بہاؤ میں کمی ہونے کے بعد پنجاب کے محکمہ آبپاشی کی طرف سے غیر قانونی طور پر چشمہ جہلم لنک کینال کھولنے کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے یہ کینال فوری طور پر بند کئے جائیں۔ سندھ کے ساتھ طویل عرصے سے ناناصافی ہو رہی ہے۔ اور اس کے خلاف وہ مسلسل احتجاج کر رہا ہے۔ اس کے باوجود اس کی شکایت کا ازالہ نہیں کیا جاتا۔ اور تو چھوڑیئے پانی کی تقسیم سے متعلق جو معاہدے کئے گئے ہیں ان پر بھی عمل نہیں کر رہا۔ حال ہی میں ارسا نے پنجاب کی ماحولیاتی ضروریات کی آڑ میں چشمہ کینال میں 10 ہزار کیوسک پانی جاری کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک طرف سندھ میں پانی کی قلت ہے۔ اس کی سر سبز زمینیں خشک اور ٹھوٹھ بن چکی ہیں۔ زراعت تباہ ہے۔ روزگار کے ذرائع تباہ ہیں۔ ڈاؤن اسٹریم کوٹری میں ضرورت کے مطابق پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے ماحولیات، جنگلی و آبی حیاتیات اور ڈیلٹا تباہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ارسا کی نظر سندھ کی اس تباہی پر نظر نہیں پڑتی۔ جبکہ پنجاب ماحولیاتی ضروریات کی آڑ میں سندھ کے حصے کا پانی لے رہا ہے۔ یہ تمام معاہدوں کی خلاف ورزی اور ناناصافی ہے۔
September,4, 2015 for Nai Baat

No comments:

Post a Comment