Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
تھر میں پھر بچوں کی اموات : حکومت کی بے حسی
سندھ نامہ سہیل سانگی
صحرائی خطہ تھر ایک بار پھر میڈیا میں فوکس ہو رہا ہے۔ جہاں پر گزشتہ تین سال سے مسلسل قحط ہے۔ لیکن سندھ حکومت اس قحط کو ماننے اور عملی اقدات کرنے سے قاصر ہے۔ یہاں تک کہ کوئی بنیادی ترقیاتی کام بھی شروع نہیں کر سکی ہے جس سے لوگوں کو متبادل روز گار مل سکے۔ قحط کی وجہ سے غذائیت ایک اہم مسئلہ بن گئی ہے اور اس کا شکار معصوم بچے ہو رہے ہیں۔ روزنامہ عبرت اداریے میں لکھتا ہے کہ ایک بار پھر تھر سے معصوم بچوں کی اموات کی خبریں میڈیا میں آرہی ہیں۔ ان خبروں کے مطابق گزشتہ چھ روز کے دوران اس خشک اور مسلسل قحط کی لپیٹ میں آنے والے ضلع میں بیس بچے اجل کا شکار ہو چکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے جو کہ میڈیا میں رپورٹ نہیں ہو سکی ہے۔
حکومت سندھ کی جانب سے ا س مرتبہ کا نوٹس لینے سے قبل حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے صوبائی وزیر خوراک اور مشیر برائے اطلاعات پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جو کہ قحط زدہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد انہیں رپورٹ پیش کرے گی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مثبت بات ہے کہ اٹھتے ہی معاملے کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ گزشتہ سال وزیراعلیٰ سندھ نے تھر کے معاملے کو جس طرح سے مذاق بنایا تھا وہ آج تک سندھ کے لوگوں کو یاد ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اورحکومت کے ذمہ داران نے ایوان میں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے تھر کے باشندوں کے لئے ایسے ناخوشگوار الفاظ استعمال کئے۔ جس پر تھر کے لوگوں کو رنج ہوا جبکہ دوسرے صوبوں کے باشندے بھی حیران رہ گئے۔ کہ صوبے کی باگ دوڑ سنبھالنے والے اتنے بھی بے حس ہوتے ہیں کہ معصوم بچوں کی ماوات پر غمزدہ ہونے کے بجائے انہیں مذاق کی سوجھ رہی ہے۔
حکومت سندھ شروع سے ہی معاملہ فہمی سے محروم رہی ہے۔ اس نے اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کے لئے جو راہ فرار اختیار کی ہے جس سے اس کی ساکھ متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ رسوائی بھی ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ پونے آٹھ سال کے دور حکمرانی میں سندھ کے عوام کو ایک لمحے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ شہید بینظیر بھٹو کی شہادت کے عوض ملنے والی حکومت کو عوام کے دکھ درد کا احساس ہے۔ اس نے ہمیشہ پانے اقتدار کو ہی ترجیح دی ہے اور اپنے اتحادیوں کو راضی رکھنے کے لئے ہر قدم اٹھاتی رہی ہے۔ چاہے وہ قدم سندھ کے عوام کی منشا کے خلاف کیوں نہ ہو۔ اس کی ایک مثال سندھ کو انتظامی طور پر دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ تھا۔
صرف اتنا ہی نہیں، افغانستان اور سوات سے آنے والے پناہ گزینوں کے لئے پانی دلوں کے دروازے کھول رکھے تھے۔ لیکن سندھ کے سیلاب زدگان جب محفوظ مقام کی تلاش میں اپنے ہی دارلحکومت کے شہر پہنچے تو انہیں گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔اور انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ وہ واپس اپنے تباہ شدہ زیر آب علاقوں کی طرف چلے جائیں۔ ان تمام شکایات کے باوجود سندھ کا آدمی اس پارٹی سے خود کو جوڑے ہوئے ہے۔ کیونکہ کسی اور طرف انہیں ویرانہ ہی نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت انہیں بے یار و مددگار سمجھتی ہے اور انہیں مناسب اور مثبت ردعمل نہیں دیتی۔
اگر حکومت کی نظر میں یہاں کے عوام کی کوئی قدر و قیمت ہوتی تو تھر کی ماﺅں کی جھولیاں یوں خالی نہیں ہوتی رہتی ۔ حالت یہ ہے کہ خود وزیراعلیٰ کے آبائی ضلع کے سول ہسپتال میں ٹیکنیکل اسٹاف ، ادویات ار دیگر سہولیات کا فقدان ہے۔ تعجب ہے کہ حکمرانوں کی پیشانی پر کوئی پریشانی ہی نظر نہیں آتی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو نے تھر کے حالات کا نوٹس لیا ہے یہ بات نوٹس لینے سے آگے بھی بڑھے گی۔
راہداری منصوبے پر صوبوں کے تحفظات کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ قومی اسمبلی میں پاوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے حکومت پر آئین، پارلیمنٹ اور صوبوں کو نظرانداز کرنے کے اعتراضات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے اگر آئین کی خلاف ورزی جاری رکھی تو یہ سب سے بڑی دشمنی ہوگی۔ان کاکہنا تھا کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان بے اعتمادی بڑھ رہی ہے ۔ خیبرپختونخوا اور سندھ کے کئی معاملات وفاق کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں ۔ دوسرے صوبوں کو بھی تحفظات ہیں۔
صوبوں کے حقوق کے لئے آئین میں مشترکہ مفادات کونسل کی شقیں رکھی گئی ہیں لیکن حکومت صرف آئین کی ان شقوں پر عمل کرتی ہے جو صرف اس کے اپنے مفاد میں ہوتی ہیں ۔ سندھ کو وفاق سے ناراجگی ہے۔ خیبر پختونخوا بھی اس سے خوش نہیں ۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ راہداری پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ وفاق پنجاب کی ترقی کو قومی ترقی سمجھ رہا ہے ۔ اگر حقوق نہیں ملے تو اس اقتصادی راہداری کو صوبے سے گزرنے نہیں دیں گے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال خیبر پختونخوا کے خدشات دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔
اربوں روپپے کی مالیت سے بننے والی اس راہداری پر اب تک سب سے زیادہ خدشات کا اظہار خیبرپختونخوا نے کیا ہے ۔ لیکن تاحال وفاق اس صوبے کو مطمئن نہیں کرسکا ہے۔
راہداری منصوبے سے متعلق آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد کی گئی تھی جس میں مختلف پارٹیوں نے اپنے صوبوں کے حوالے سے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا تھا۔ جن کو دور کرنے کے لئے ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ۔
وفاق سے سندھ کی رنجشوں کی خبریں بھی مسلسل میڈیا میں آرہی ہیں۔ فی الحال ان رنجشوں میں گرما گرمی کچھ کم ہوئی ہے لیکن اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کی قومی اسمبلی میں اس تقریر سے عیاں ہوتا ہے کہ سندھ حکومت کے وفاق کے ساتھ معاملات مکمل طور ٹھیک نہیں ہو پائے ہیں۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوے بہت خود مختار اور بااختیار نظر آتے ہیں ، لیکن حقیقت میں اور عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اس ترمیم پر عمل درآمد کے لئے ابھی تک بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ترقی کے امور ہوں یا وسائل کی تقسیم کے معاملات صوبوں کی رائے کو کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔