Friday, January 1, 2016

وزیر اعظم !سندھ کا مینڈیٹ جان کی امان مانگتا ہے



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
 وزیر اعظم !سندھ کا مینڈیٹ جان کی امان مانگتا ہے 

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 

 وفاق کی جانب سے رینجرز کو اختیارات دینے پر وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے رواں ہفتے اخبارات کا موضوع رہے۔ ا موضوع پر کلام ، اداریے اور تجزیے شایع ہوتے رہے۔ سندھ کی میڈیا اگرچہ کراچی میں جاری آپریشن کے حق یں ہے لیکن اس ضمن میں وہ وفاقی حکومت کے اس رویے کے حق میں نہیں کہ اسمبلی کی قرارداد کو ایک طرف رکھ کر وفاق اپنی من مانی کرے۔ اخبارات کا خیال ہے کہ یہ بات مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کی جاسکتی تھی۔ لیکن اسمبلی کی قراداد کے برعکس وفاق کی جانب سے رینجرز کو اختیارات دینے کا نوٹیفکیشن نکالنا کوئی مثبت پیغام نہیں۔ 

اخبارات نے کراچی ایئر پورٹ پر وزیر اعلیٰ سندھ کے ساتھ وزیر اعظم کے رویے کو بھی ناخوشگوار قرار دیا ہے۔ اخبارات کا خیال ہے کہ اس طرح سے جمہوری نظام میں معاملات نہیں چلائے جاسکتے۔ اور یہ بھی رائے دی ہے کہ اس انداز سے خود آپریشن کے معاملات کو بہتر انداز میں نہیں چلایا جاسکتا۔ اس عمل کو اخبارات نے صوبے اور وفاق کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے قرار دیا ہے۔ 

 ”وزیر اعظم !سندھ کا مینڈیٹ جان کی امان مانگتا ہے“ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس اداریے میں لکھتا ہے کہ جناب وزیر اعظم! صورتحال کا تقاضا ہے کہ ہم تخاطب کا بارہر است طریقہ اختیار کریں۔ جانب! سندھ کی منتخب حکومت اور وفاقی حکومت کے درمیان رینجرز کے اختیارات پر تکرار چل رہا ہے۔ جس میں آپ کی حکومت کے اگلے مورچے پر وزیر داخلا چوہری نثار علی خان تمام آپشنز سے لیس کھڑے ہیں ۔سندھ کے لوگ ان کے الفاظ زہر سے بھری برچھیوں کی طرح سندھ کے مینڈیٹ کے سینے سے آرپار ہوتے محسوس کرتے ہیں۔ 

دوسری جانب صوبائی حکومت اسمبلی کی قرارداد کے بعد یہ موقف اختیار کئے ہوئے کہ ہم تو ڈوبیں گے صنم مگر تمہیں بھی لے ڈوبیں گے۔ سیاسی” سانڈوں“ کی اس لڑائی میں ایک طرف سنھد کے عوام اور ان کا مینڈیٹ کچلا جارہا ہے تو دوسری طرف سسٹم کے لئے بھی خطرات پیدا ہو رہے ہیں ۔ جناب وزیر اعظم! طویل آمریت کے بعد جب ملک میں جمہوریت کا سورج طلو ع ہوا تودونوں بڑی جماعتوں کے درمیان آٹھ مارچ کو ”مری ڈکلیئریشن“ ہوا۔ جسے بھوربن معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں اس معاہدے کی پاسداری نہیں ہو سکی اور دونوں فریق ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے رہے۔ اس معاہدے کی عدم پاسداری نے غیر جمہوری قوتوں کو موقعہ دیا اور انہیں مضبوط کیا۔ 

 کشیدہ صورتحال کو جواز بنا کر سندھ میں کسی مہم جوئی کی کوشش کی گئی تویہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ملک کسی ایسی غلطی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس تناظر میں جہاں رودالیاں (پیشہ ور رونے والیاں)متحرک ہوگئی ہیں اور چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔ وہاں گورنر رج اور ایمرجنسی سمیت وفاق کی زنبیل میں جتنے بھی منفی آپشنز ہیں وہ سندھ پر آزمانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ 

سندھ خواہ وفاقی حکومت کے پاس اپنے اقدامات کی اپنی اپنی تاویلیں اور تشریحات ہیں۔ لیکن سسٹم کو بچانا کسی کی بھی ترجیح نہیں۔ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کو سیاسی شہید ہونے کا شوق ہو سکتا ہے۔ جبکہ وفاق اپنی ہی ایک وحدت کو فتح کرنے کی راہ پر چل پڑا ہے۔ 

 جناب وزیر اعظم! دہشتگردی، بھتہ خوری ٹارکیٹ کلنگ، اور لینڈ مافیا سمیت مختلف جرائم کے خلاف رینجرز کے کرادر کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کای جاسکتا کہ کسی جنگ میں جب پرجوش سپاہ اپنے سالار کو نظرانداز ک دے تو اس افراتفری کی جنگ میں اس جنگ کو فتح تک لے جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں ہر قانون ، قاعدہ اور اصول سپاہ کے بوٹون تلے کچل دیا جاتا ہے۔ 

 جناب وزیر اعظم اس سیاسی ” عظیم جنگ“ میں معاملات کو حل کرنے کے لئے اب تک آپ کا کردار دیکھنے میں کم ہی آیا۔ ہم سیاسی اناﺅں کی اس ایوریسٹ سر کنے کے اس مقابلے میں آپ سے سیاسی تدبر کی توقع رکھتے ہیں۔ اگر آپ کسی مجبوری کے باعث بادشاہی فیصلے کرنے کی طرف مائل ہیں تو سندھ کا مینڈیٹ جان کی امان مانگتا ہے۔ 

”روزنامہ عبرت“ پیپلز پارٹی پارلیامینٹرین کے نئے صدر کے انتخاب اور پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کی جانب سے تنظیمی حوالے سے کئے گئے فیصلوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے جرنل ضیا سے لیکر مشرف کی آمریت تک جمہوریت کی بحالی کے لئے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی جدوجہد اور قربانیوں پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔لیکن اب عوام ایسے رہنماﺅں سے محروم ہے۔

پیپلزپارٹی کا منشور دوسری جماعتوں کے مقابلے میں بہترین ہے اور غریب طبقے لئے لئے پرکشش ہے۔ لیکن اس کا فائدہ عوام کو تب مل سکتا ہے ، جب ایسے رہنما موجود ہوں اس لئے ایسے رہنما سامنے لانے کی اشد ضرورت ہے جو عوام کے درمیان رہ کر ان کے مسائل سمجھ سکیں اور انہیں حل کر سکیں۔ عوام اور کسی سیاسی جماعت کے درمیان جب فاصلے بڑھ جاتے ہیں تو اسکا فائدہ تیسری قوت کو ہوتا ہے۔ اور یہ قوت خلاءپر کر دیتی ہے۔ 

 گزشتہ انتخابات اور بعد میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تنظیمی طور پر بڑا نقصان پہنچا ہے۔ پنجاب میں اس کا ووٹ بینک کم ہوتا نظر آیا۔جو پارٹی کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ وہاں جو جگہ پیپلزپارٹی کو ملنی چاہئے تھی وہ تحریک انصاف نے لے لی اور اپنا
 ووٹ بینک بنا لیا۔ یوں پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں کمی آئی۔ پنجاب کی موجودہ صورتحال سے لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس کے ووٹ بینک میں مزید کمی آئے گی۔ 

 اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ پنجاب میں پارٹی کی از سرنو تنظیم سازی کی جائے، جو پارٹی کو دوبارہ اس اٹھان کی طرف لے جائیں جو اس صوبے میں ایک عرصے تک رہی ہے۔ 

Jan 2, 2015 
Nai Baat

No comments:

Post a Comment