Friday, January 1, 2016

وزیراعظم نواز شریف کراچی مین



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ سہیل سانگی 
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے گورنر ہاﺅس کراچی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں امن کی صورتحال پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ قیام امن کے بعد کراچی میں کاروباری سرگرمیوں اضافہ ہوا ہے۔غیر سرمایہ کار بھی کراچی کا رخ کر رہے ہیں۔ انہوں نے تمام اداروں کی کارکردگی کو سراہا اور کہا کہ یہ آپریشن سات آٹھ سال پہلے ہونا چاہئے تھا۔

 اجلاس میں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں 2688 مقدمات زیر سماعت ہیں جبکہ 66 مقدمات کا فیصلہ
 نومبر میں سنایا جا چکا ہے جن میں سے 30 ملزمان کو سزائیں سنائی گئیں اور باقی کو بری کردیا گیا۔ اس اجلاس سے ایک روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاق سے یہ شکایت کی کہ کراچی مین آپریشن شروع کرتے وقت وزیراعظم نواز شریف نے آپریشن کے لئے فنڈ مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا اس پر تاحال عمل نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی بار وفاق سے بیس ارب روپے مہیا کرنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بحالت مجبوری سندھ حکومت نے اپنے ترقیاتی فنڈ میں سے کٹوتی کر کے آپریشن پر یہ رقم لگائی۔ رینجرز کو اختیارات اس لئے نہیں دیئے گئے کیونکہ یہ صوبائی معاملات میں مداخلت ہوگی۔ 

کراچی میں امن سے ملکی ترقی وابستہ ہے۔ اگر وہاں پر ایک روز بھی کاروبار بند ہوتا ہے تو ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ آج ہم جس زوال سے گزر رہے ہیں اس کی بڑی وجہ طویل عرصے تک کراچی کا دہشتگردی سے متاثر ہونا ہے۔ کراچی میں اگر امن ہوتا اور وہاں کی رونقیں اور روشنیاں بحال ہوتیں تو دنیا کے کئی ممالک کے سرمایہ کار یہاں پر سرمایہ کاری کر چکے ہوتے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ماضی میں سیاسی انائیں آڑے آتی رہیں۔ یہاں کے امن کو اتنا بگاڑ دیا کہ نہ یہاں کے شہری سکھ کی سانس لے پائے اور نہ ہی غیر ملکی سرمایہ کاری ہو سکی۔ نتیجے میں کراچی کی آبادی کروڑوں میں بڑھی لیکن سرمایہ کاری کا عمل سست پڑ گیا۔ 

 دیر آید درست آید۔ حکومت کو کراچی کی حالت پر رحم آیا۔ کئی برسوں سے یہاں تعینات رینجرز کو فعال کردار ادا کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ اور اس نے اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر سچائی پر آجائیں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ 

مذکورہ اجلاس کی اس وجہ سے بھی اہمیت ہے کہ سندھ اور وفاقی حکومتوں کے درمیان رینجرز کو پولیس کے اختیارات دینے کے اشو پر کشیدگی پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وفاق سندھ سے رینجرز واپس بلانے کی بھی دھمکی دے چکا ہے۔ دراصل یہ دھمکی ایسی ہے کہ اگر سندھ حکومت چاہے تو بھی رینجرز کو صوبے سے نہیں ہٹایاجاسکتا۔ کیونکہ گزشتہ برسوں میں کئی احتجاجوں کے باوجود ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایاگیا۔ ایسے حالات میں اس دھمکی کا مقصد رینجرز کو پولیسنگ کے اختیارات دینے کا ذریعہ تو بن سکتا ہے لیکن حقیقت کا روپ نہیں لے سکتا۔

 ہم تمام فریقین کو مشورہ دیں گے کہ کراچی میں قیام امن کے لئے تمام سیاسی انائیں ایک طرف رکھ کر ملک کے معاشی حب میں روشنیاں بحال کی جائیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کی شکایات کا بھی ازالہ کرنا از حد ضروری ہے۔ 

 روزنامہ کاوش نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ” کامیابی کے بعد کارکردگی دکھانے کی ضرورت“ کے عنوان سے اداریہ لکھا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ کئی تضادات، تنازعات، کے بعد بلدیاتی انتخابات کا تیسرا مرحلہ بھی مکمل ہو گیا۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق صوبائی دارالحکومت میں میئر کا عہدہ متحدہ قومی موومنٹ کو اور ضلع کونسل کی چیئرمنی کا عہدہ پیپلزپارٹی کو ملے گا۔

 پنجاب میں نواز لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی ہے۔ سندھ کے دیگر اضلاع میں پیپلزپارٹی اکثریت سے جیتی ہے۔ کراچی معیشت کے حوالے ملک کا اہم شہر ہے۔ اس شہر کی ترقی اور سرمایہ کاری میں دہشتگردی رکاوٹ بنی رہی ہے۔اس شہر میں اب ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات میں اکثریت حاصل کی ہے تو اس کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ ماضی میں ہوتا یہ رہا ہے کہ شہر کی قدیم بستیوں کو سیاسی بنیادوں پر نظر نداز کیا جاتا رہا۔ اب اس سوچ اور اس سلسلے کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ کراچی کا میئر خواہ کسی بھی پارٹی کا آئے یہ اس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ شہر کے مختلف علاقوں میں بلا تفریق ترقیاتی کام کرائے۔ 

 سندھ کے باقی اضلاع میں پیپلزپارٹی کامیاب ہوئی ہے۔ سندھ میں یہ جماعت کزشتہ سات سال سے حکومت میں ہے۔ شہروں اور قصبوں کی حالت کا اگر کارکردگی سے موازنہ کیا جائے ، یہ کسی طور پر بھی قابل تعریف نہیں۔ آج سندھ کے شہر کھنڈر اور دیہات اجڑے ہوئے ہیں۔سڑکیں تباہ، اور ڈرینینج ناکارہ ہے۔پینے کے پانی کی لائنیں گٹر سے مل رہی ہیں۔ صفائی کا کوئی بندوبست نہیں۔ لوگ اپنے سائل لے کر پہنچتے ہیں تو ان کا حل تو درکنار ان فریاد سنی بھی نہیں جاتی۔ لہٰذا لوگوں کو سڑکوں پر آکر احتجاج کرنا پڑتا ہے۔

 اگر شہری سہولیات فراہم کرنے والے ادارے وقت پر اور موثر انداز میں اپنا کام کریں تو یہ ادارے عوام کی سہولت کا سبب بن سکتے ہیں۔ اور عوام کو سڑکوں پر آنا نہیں پڑے گا۔ جو لوگ بلدیاتی انتخاب جیت کر ان اداروں کے سربراہ بنے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ ان اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ گزشتہ آتھ سال میں جو کسر رہ گئی ہے اس کو پورا کریں۔ 

Jan 10, 2015

No comments:

Post a Comment