Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
May 27, 2016
سندھ نامہ سہیل سانگی
ملک میں پاناما لیکس پاناما فلیکس بن گیا ہے کس کی تصویر اور بل بورڈ ہر جگہ نظر آرہے ہیں۔ یہ اوپر کے سیاست کھیل میں نہ عوام شریک ہے اور نہ اس سے پوچھا جارہا ہے۔ اس تمام شور میں عوام کے مسائل اور تکالیف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اجتماعی خواہ انفرادی سطح پر ناانصافیاں بڑھ رہی ہیں۔ کیونکہ حکومت اور سیاسی جماعتیں بڑا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔
ہر ہفتے کوئی ایک نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے ۔ نتیجے میں عوامی ایجنڈا پیچھے چلا جاتا ہے۔ اس ایجنڈا کے لئے نہ میڈ یاکے پاس اسپیس ہے اور نہ ہمارے حکمرانون کے پاس وقت۔ حسن کمال یہ ہے کہ وفاقی خواہ حکومت ان معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کو تیار نہیں۔
ہر ہفتے کوئی ایک نیا واقعہ رونما ہو جاتا ہے ۔ نتیجے میں عوامی ایجنڈا پیچھے چلا جاتا ہے۔ اس ایجنڈا کے لئے نہ میڈ یاکے پاس اسپیس ہے اور نہ ہمارے حکمرانون کے پاس وقت۔ حسن کمال یہ ہے کہ وفاقی خواہ حکومت ان معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کو تیار نہیں۔
”سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے صوبے سندھ سے متعلق اعتراف“ کے عنوان سے روز نامہ کاوش لکھتا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ دہشتگردی کی کارروایوں کی وجہ سے گزشتہ پانچ سال کے دوران ملکی کو پان ارب روپے سے زیادہ مالیت کا نقصان ہوا ہے۔
تین سال کے دوران 67 کھرب ، 90 ارب سے زائد رقم ٹیکس آمدنی کے طور پر وصول ہوئی ہے۔ جس میں سے 56 فیصد سے زائد آمدنی سندھ سے ہوئی ہے۔ ان کے مطابق مالی سال 2012- 13 کے دوران 19 کھرب ، 46 ارب، 45 کروڑ روپے کا ٹیکس وصول کیا گیا جس میں سے سندھ سے 11 کھرب ، ایک ارب، 45 کروڑ روپے وصول ہوئے۔
تین سال کے دوران 67 کھرب ، 90 ارب سے زائد رقم ٹیکس آمدنی کے طور پر وصول ہوئی ہے۔ جس میں سے 56 فیصد سے زائد آمدنی سندھ سے ہوئی ہے۔ ان کے مطابق مالی سال 2012- 13 کے دوران 19 کھرب ، 46 ارب، 45 کروڑ روپے کا ٹیکس وصول کیا گیا جس میں سے سندھ سے 11 کھرب ، ایک ارب، 45 کروڑ روپے وصول ہوئے۔
اگرچہ سندھ وسائل سے مالا مال ہے۔ لیکن یہ وسائل بھی سندھ کی قسمت تبدیل کردیا ۔ دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں سندھ کی آمدنی بھی زیادہ ہے، اور ٹیکس بھی زیادہ دیتا ہے۔ پھر بھی سندھ کے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سندھ میں تیل اور گیس کی پیداوار زیادہ دیتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر سندھ کے انفرا اسٹرکچر ، یا صحت اور تعلیم یا روزگار کی صورتحال کو دیکھا جائے لگتا ہے کہ سندھ کے لوگ وسائل کے ہوتے ہوئے بھی لاوارث اور یتیم لگتے ہیں ۔
یہاں پر غربت لوگوں کو نگل رہی ہے۔ لوگ کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ۔ یہاں پر تعلیم آکسیجن پر سانس لے رہی ہے۔ محکمہ صحت خود بیمار ہے، انفرا اسٹرکچر تباہ ہے۔ ترقی ہوتی ہے تو صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ صوبے میں بہتر حکمرانی کا قحط ہے۔ ایسے میں صوبہ خواہ کتنے ہی وسائل میں شاہوکار ہو، اگر ان وسائل کی آمدن صحیح طور پر استعمال نہیں ہوگی، توصوبے کے لوگوں کی حالت بدل نہیں سکے گی۔
یہاں پر غربت لوگوں کو نگل رہی ہے۔ لوگ کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ۔ یہاں پر تعلیم آکسیجن پر سانس لے رہی ہے۔ محکمہ صحت خود بیمار ہے، انفرا اسٹرکچر تباہ ہے۔ ترقی ہوتی ہے تو صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ صوبے میں بہتر حکمرانی کا قحط ہے۔ ایسے میں صوبہ خواہ کتنے ہی وسائل میں شاہوکار ہو، اگر ان وسائل کی آمدن صحیح طور پر استعمال نہیں ہوگی، توصوبے کے لوگوں کی حالت بدل نہیں سکے گی۔
وفاقی حکومت اس طرح کے اعترافات اس سے قبل بھی کرتی رہی ہے کہ سندھ صوبہ ملک کو کما کر دے رہا ہے۔ لیکن صرف یہ اعتراف کافی نہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو مزید خود مختاری ملنی چہائے تھی۔ لیکن تاحال یہ خود مختاری ایک سوال ایک خواب بنی ہوئی ہے۔ حالت یہ ہے کہ جب بھی سندھ اور بلوچستان وفاق سے اپنا حق مانگتے ہیں تو وفاق کا رویہ نامناسب ہو جاتا ہے۔ اس نامناسب رویے کی وجہ سے احساس محرومی بڑھتا ہے۔ حق اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہر صوبے کے وسائل اور آمدن کا فائدہ اسی صوبے کو ملنا چاہئے۔
دوسرے یہ کہ وفاق کو چاہئے کہ وہ تمام صوبوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے۔ تب کہیں جا کر صوبوں کا احساس محرومی ختم ہوگا۔ یہ امر اہم ہے کہ صوبوں کی خوشحالی اور مضبوطی ہی ملک کی سلامتی اور مضبوطی کا سبب بنے گی۔
دوسرے یہ کہ وفاق کو چاہئے کہ وہ تمام صوبوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے۔ تب کہیں جا کر صوبوں کا احساس محرومی ختم ہوگا۔ یہ امر اہم ہے کہ صوبوں کی خوشحالی اور مضبوطی ہی ملک کی سلامتی اور مضبوطی کا سبب بنے گی۔
” روزنامہ عبرت “ نوشہرو فیروز میں دو نوجوانوں کی سر عام توہین کرنے کے واقعے کہ مذمت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ چند روز قبل ایک ویڈیو کلپ منظر پر آیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ دو بے بس نوجوان منہ میں جوتا لیکر ایک مقامی وڈیرے اور اس کے ڈرائیور سے معافی مانگ رہے ہیں۔ ان دونوں نوجوانوں کی گدھا گاڑی وڈیرے محمد بخش مبیجو کی کار سے ٹکرا نے کے واقع کا فیصلہ کرانے کے لء جرگہ منعقد ہوا۔ فیصلہ کے مطابق نوجوانوں نے جوتا منہ میں پکڑ کر سر عام وڈیرے سے معافی مانگی۔
واقعہ کو دبانے کے لئے ایک اور جرہ ہوا، جہاں وڈیے نے دھمکی کے انداز میں کہا کہ بھلائی اسی میں ہے کہ معاملہ یہیں پر ختم کردیا جائے۔ جس پر ودیرے قبول میمن نے متاثرہ بھائیوں سے پوچھے بغیر کہا کہ ’ہم نے معاف کیا۔ باقی آپ لوگ جانیں اور پولیس جانے“۔
سندھ میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رھتے ہیں اور ان کا انجام بھی اسی طرح سے ہوتا ہے۔ آخر مظلوم کب تک ایک طاقتور فریق سے جھگڑے میں رہ سکتا ہے؟ جبکہ اس کے ساتھی حکومت بھی ہوں جن کے کہے بغیر قانون تھوڑا سا بھی حرکت میں نہیں آتا۔ وہاں یہ دو مظلوم بھائی اور ان کا معزز قبول میم کہاں اتنا دباﺅ برداشت کر سکتے ہیں ۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ حکرمان مظلوم بھایئیوں کی طرف سے فریق بنتی۔ اور ان مظلوموں کو انصاف دلاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے وڈیروں اور ظالموں کے لئے بھی ایک مثال قائم ہو جاتا اور کوئی بھی اس طرح کی جرئت نہیں کر سکتا۔
وزیراعلیٰ سندھ سے عوام کو کم امید ہے ۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی لیڈر بینظیر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری یقیننا ان کی مدد کو آئے گا۔ ہم مہذب ہونے کی خواہ کتنے دعوے کریں ۔ لیکن عملا یہ سماج پتھر کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔
واقعہ کو دبانے کے لئے ایک اور جرہ ہوا، جہاں وڈیے نے دھمکی کے انداز میں کہا کہ بھلائی اسی میں ہے کہ معاملہ یہیں پر ختم کردیا جائے۔ جس پر ودیرے قبول میمن نے متاثرہ بھائیوں سے پوچھے بغیر کہا کہ ’ہم نے معاف کیا۔ باقی آپ لوگ جانیں اور پولیس جانے“۔
سندھ میں اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رھتے ہیں اور ان کا انجام بھی اسی طرح سے ہوتا ہے۔ آخر مظلوم کب تک ایک طاقتور فریق سے جھگڑے میں رہ سکتا ہے؟ جبکہ اس کے ساتھی حکومت بھی ہوں جن کے کہے بغیر قانون تھوڑا سا بھی حرکت میں نہیں آتا۔ وہاں یہ دو مظلوم بھائی اور ان کا معزز قبول میم کہاں اتنا دباﺅ برداشت کر سکتے ہیں ۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ حکرمان مظلوم بھایئیوں کی طرف سے فریق بنتی۔ اور ان مظلوموں کو انصاف دلاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے وڈیروں اور ظالموں کے لئے بھی ایک مثال قائم ہو جاتا اور کوئی بھی اس طرح کی جرئت نہیں کر سکتا۔
وزیراعلیٰ سندھ سے عوام کو کم امید ہے ۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی لیڈر بینظیر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری یقیننا ان کی مدد کو آئے گا۔ ہم مہذب ہونے کی خواہ کتنے دعوے کریں ۔ لیکن عملا یہ سماج پتھر کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ اس واقعہ کا نہ وفاقی حکومت نے نوتس لیا اور نہ ہی عدلیہ نے۔