Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ کے” پڑھے لکھے“ منتخب نمائندوں کے نام
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
پر سندھ کے تمام بڑے اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔ اور حکومت کی توجہ اس حساس مسئلے کی جانب منبذول کرائی ہے۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت نے نئے مالی سال کے بجیٹ میں مالی وسائل کی تقسیم کے لئے نیا مالیاتی ایوارڈ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے بعد مالی وسائل کی تقسیم پرانے ایوارڈ کے تحت ہوگی۔ قومی مالیاتی کمیشن کے سندھ سے غیر سرکاری میمبر سنیٹر سلیم مانڈی والا نے چاروں صوبوں کے وزراءخزانہ کو خط لکھ کر کمیشن کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرنے کو کہا ہے۔ وفاقی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن نے مختلف معاملات پرچار کمیٹیاں تشکیل دی تھی، ان کمیٹیوں نے ابھی تک اپنی سفارشات پیش نہیں کی ہیں۔ لہٰذا نیا مالیاتی ایوارڈ نہیں دیا گیا ہے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مردم شماری ملتوی ہونے کے باوجود اخراجات کی مد میں سندھ کے حصے سے 48 کروڑ روپے کاٹ دیئے گئے ہیں۔ جمہوری دور جمہور کی خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن یہ تب جب آئین اور قانون پر عمل ہو۔ پورے ملک کے عوام کے ساتھ انصاف ہو، جمہوری دور میں بھی وفاق کا صوبوں کے ساتھ ناروا سلوک رہتا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے صوبوں میں احساس محرومی بڑھ جاتاہے۔ سندھ اور بلوچستان وسائل سے مالا مال ہیں لیکن یہ دونوں صوبے وفاق کی نظر کرم سے محروم ہیں۔ اگرچہ آئین یہ کہتا ہے کہ جو صوبے وسائل میں خود کفیل ہیں یا اپنے وسائل کی وجہ سے ملکی معیشت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں ان صوبوں کے وسائل پر پہلا حق انہی صوبوں کا ہے۔ لیکن ہوتا یہ رہا ہے کہ چھوٹے صوبے مرکز کے سامنے سوالی بنے رہتے ہیں۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو کاغذوں پر خود مختاری دی گئی ہے لیکن عملی طور پر صوبے خود مختار نہیں ہو سکے ہیں ۔ نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرنے میں باقی چند ہفتے باقی ہیں۔ وفاقی حکومت مختلف بہانوں کی آڑ لیکر نیا مالیاتی ایوارڈ دینے سے انکرا کر رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ آبادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اخراجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو صوبے تیل اور گیس کی زیادہ پیداوار دیتے ہیں معدنی وسائل سے مالامال ہیں ان کو جائز حسہ اور حق ملنا چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نئے مالیاتی ایوارڈ کا فیصلہ کرے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس ”پڑھے لکھے منتخب نمائندوں کے نام“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سنیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی کے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے سندھ حکومت کے نمائندوں نے کہا ہے کہ تھر میں بچوں کی اموات کی وجہ کم عمری میں شادیاں اور جہالت ہے۔ چونکہ کم عمری میں شادی کی وجہ سے وقت سے پہلے بچے کا جنم ہوتا ہےان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت تھر میں تین سو مزید ڈاکٹر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور مزید فنڈ بھی جاری کئے جا رہے ہیں۔ تھر میں چار ارب دس کروڑ روپے کی گندم تقسیم کی گئی ہے۔ جو کہ تھر کی تیرہ لاکھ آبادی کے حساب سے فی آدمی ڈھائی من ہوتی ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کے مطابق ضلع کے ہر رہائشی کو ڈھائی من گندم دی گئی ہے اور پانی کی اسکیموں پر پانچ ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں تو پھر لوگ بھوک کیوں مر رہے ہیں۔ کمیٹی نے تھر میں بچوں کی اموات کے لئے سندھ حکومت کو ذمہ دار ٹہراتے ہوئے اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔
جو لوگ 2010 کے سیلاب میں اپنی جاگیریں بچانے کے لئے حفاظتی بند توڑ کر سندھ بھر کے عوام کو ڈبو سکتے ہیں، ان سے اسی طرح کے بیان کی توقع کی جاسکتی ہے۔ تھر میں لوگ یقیننا جہالت کے باعث بھوکے مر رہے ہیں۔ لیکن یہ جہالت تھر کے بے یار و مددگار عوام کی نہیں بلکہ حکمران طبقے کی ہے۔ جو الیکشن کے وقت مینڈٰٹ لینے کے لئے ان کے پاس جاتے ہیں اور بعد میں یا تو انہیں سیلاب میں ڈبو دیتے ہیں یا انہیں جاہل قرار دیتے ہیں ۔
تھر اب ایک ایسی دھرتی بن گئی ہے جہاں اب زندگی کے بجائے موت پرورش پا رہی ہے۔ اس انسانی المیے کو روکنے کے لئے ” پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ“ حکمران کچھ کرنے کے لئے آادہ نہیں۔ اگرچہ تھر کی تقدیر بدلنے کے لئے کئی اعلانات کئے گئے بعض منصوبے بھی شروع کئے گئے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں تھر میں کوئی بناید تبدیلی نہ لاسکی اور نہ ہی بنیادی اور پائدار سہولت فراہم کر سکی۔ تعجب کی ابت ہے کہ حقائق کو تسلیم کرنے کے بجائے تھر میں بچوں کی اموات کو سندھ حکومت اپنے خالف سازش قرار دے رہی ہے۔
سندھ کے ان منتخب نمائندوں سے گزارش ہے کہ اگر وہ ان قحط زدہ اور مصیبت کے مارے لوگوں کو کچھ دے نہیں سکتے تو کم از کم ان کے زخموں پر نمک پاشی تو نہ کریں۔
http://www.naibaat.com.pk/ePaper/lahore/07-05-2016/details.aspx?id=p13_02.jpg
No comments:
Post a Comment