Saturday, May 21, 2016

سندھ کی زمین مال برائے فروخت نہیں



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
 سندھ کی زمین مال برائے فروخت نہیں
 سندھ نامہ   سہیل سانگی 
 روزنامہ نئی بات

 پاناما لیکس کا بخار پورے ملک بشمول سرکاری مشنری اور میڈیا کے اتنا چڑھا ہوا ہے کہ اس سے ہٹ کر کوئی بات ہی نہیں ہو رہی۔ اخبارات خبروں خواہ مضامین، کالمز، اور اداریوں کے حوالے سے بھی اسی موضوع پر بھرے ہوئے ہیں۔ اس موضوع سے ہٹ کر شاید ہی کسی موضوع پر اداریے یا کالم لکھے جا رہے ہوں، یہ صورتحال صرف سندھی اخبارات کی نہیں ملک بھر کے اخبارات کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام کے باقی مسائل و مصائب تیسری چوتھی ترجیح پر جا کھڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ مالی سال کے اختتام کے دن ہیں۔ اور نئے بجٹ کی تیاری ہو رہی ہے، اس حولاے سے شاید ہی کوئی چیز پڑھنے کو ملتی ہے۔ باقی سرکاری محکموں میں جو کام ہو رہا ہے یا عوام کے ماسئک کو کس طرح سے نظرانداز کیا جا رہا ہے وہ ایسی داستان ہے جس کو الگ سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ 

ایسے میں روز نامہ کاوش نے رونگٹے کھڑے کرنے والی دو خبریں شایع کی ہیں۔ ایک خبر یہ ہے کہ س صحرائے تھر کے چھاچھرو کے علاقے میں ایک نوجوان دلاور پیاس کی وجہ سے فوت ہو گیا جبکہ اس کے ساتھی اکرم سنگراسی کو بے ہوشی کی حالت میں دیہاتیوں نے ہسپتال پہنچایا۔ یہ دونوں نوجوان چھاچھرو سے پیدل اپنے گاﺅں جا رہے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔ بھوتیو گاﺅں کے رہائشی یہ دونوں بچے کراچی میں مزدوری کرتے تھے۔ حکومت سندھ کے وہ نعرے اور دعوے کہاں چلے گئے لھ بھگ دس ارب روپے کی مالیت کے کہ آر او پلانٹس لگا کر سندھ میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کر دیا گیا ہے؟ 

 نوشہروفیروز ضلع کے قصبہ پھل میں گدھا گاڑی اور کار کے درمیان ٹکر کے بارے میں جرگہ کرایا گیا۔ جس میں دو بھائیوں کو جوتا منہ میں پکڑ کر مجمعے میں معافی طلب کی گئی۔ پھل قصبہ میں تذلیل کے اس واقعہ کہ ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری ہونے کے بعد آئی جی سندھ پولیس نے نوٹس لیا اور تذلیل کرنے والے وڈیرے محمدبخش مبیجو کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ واقعہ 15 دسمبر 20015 کو ہوا تھا۔ آئی جی ہدایت پر ملزم وڈیرے کو گرفتار کر لای گیا ہے لیکن جب گدھا گاڑی چلانے والے دونوں بھائی تھانہ پنچے تو پلویس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ تعجب ہے کہ اس معاملے پر وزیراعلیٰ سندھ، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرادری ابھی تک خاوموش ہیں انہوں نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ اور عدلیہ نے بھی سو موٹو نوٹس نہیں لیا۔ 

 سندھ شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ اوپر سے لوڈ شیڈنگ نے عوام کی زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ گرمی بڑھنے کے سائنسی یا فطری اسباب اپنی جگہ پر، لیکن اس کی وجہ سے جو عذاب بازل ہو رہا ہے اس میں انسانی ہاتھ بھی شامل ہے۔ ایک طرف موسم نامہربان ہے دوسری طرف شدید لوڈ شیڈنگ ہے۔ اور ملک توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے بجلی کے بحران کے خاتمے کے لئے اب تک جو وعدے اور اعلان کئے ہیں ان کی چوتھائی بربار بھی سنجیدگی اختیار کرتے تو آج عوام اس مصیبت میں نہ ہوتے۔ 

 بجلی کے بحران کی وجہ سے زندگی کی رونقیں ختم ہو گئی ہیں بلکہ بعض مقامات پر زندگی داءپر لگ گئی ہے اور اموات کی بھی اطلاعات آئی ہیں۔ حکمرانوں کو اس شدید گرمی کا اس وجہ سے بھی احساس نہیں کہ وہ ٹھنڈے کمروں سے باہر نہیں نکلتے۔ اگر لاچاری میں انہیں کہیں جانا بھی ہوتا ہے تو وہ ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں سے پاﺅں باہر نہیں نکالتے۔ ایسے میں عام لوگوں کی حالت کا انہیں ادراک کیسے ہوگا؟ انہیں نہیں معلوم کہ پہلے جن علاقوں سے ان کا عملہ نچلی سطح سے لیکر اوپر تک بھتہ وصول کرتا تھا اب کرپشن کے خلاف کارروائی کے خوف کے مارے یا اس بہانے خود کو بچانے کے چکر میں بجلی کپمنیوں کا عملہ کس بے حیائی پر اتر آیا ہے کہ ٹرانسفارمر ہی اتار کر لے جاتا ہے۔ وہاں پر تب تک بجلی بحال نہیں کی جاتی جب تک بھاری رشوت ادا نہیں کی جاتی۔ ایسا کر کے وہ رشوت بھی لے لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ثبوت بھی مٹا دیتے ہیں۔ 

 اگر حکمران اور محکمہ بجلی و پانی اس طریقہ واردات سے ناواقف ہیں تو ہم اس اداریے کے ذریعے انہیں ّگاہ کرتے ہیں کہ یہ پورا گھن چکر کس طرح سے چل رہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وزارت بجلی و پانی متعلقہ عملے کو ہدایت کرے گی اور اس بات کو یقینی بنائے گی کہ اس شدید گرمی میں عوام کی زندگی کو عذاب نہ بنایا جائے۔ 

 روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ روینیو بورڈ نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بتایا کہ کراچی کی 60 ہزار ایکڑ زمین پر صوبائی و وفاقی اداروں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ چھ ہزار ایکڑ زمین پر نجی لوگوں کا قبضہ ہے۔ یہ اعدا و شمار زیادہ ہیں جن کا ذکر کرنا یا رپورٹ کرنا مشکل ہے یا پھر اس بحث کو چھیڑنا شعوری طور پر صحیح نہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کراچی کی نو لاکھ ایکڑ سے زائد کل زمین میں سے ساٹھ لاکھ ایکڑ زمین پر صوبائی یا وفاقی اداروں کا ناجائز قبضہ ہے۔ ہر ملک میں زمینوں کے سرکاری خواہ نجی حوالے سے ملکیت کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ اگر کہیں غیر ملکیوں کو زمین دی جاتی ہے تو ان کو حق ملکیت نہیں دیا جاتا۔ انگریزوں کے دور سے یہ چلا آرہا ہے کہ اگر کسی کو زمین دی جاتی تھی تو یہ زمین کسی خاص مقصد کے لئے اور ایک خاص یا محدود مدت کے لئے دی جاتی تھی۔ وقت گزرنے کے بعد حومت یہ زمین اپنے قبضے میں لے لیتی تھی۔ 

سندھ میں ایک عرصے سے زمینیں حکومت خواہ منتخب ہو یا غیر منتخب ان کے لئے یہ مال غنیمت ہیں۔ حکومت ان زمینوں کی عملی طور پر اور اپنے حق ملکیت کے طور پر تحفظ نہیں کرتی۔ اور نہ ہی زمین کی تقسیم کے لئے کوئی موثر پالیسی بنائی گئی ہے۔
ایسے میں حکومت اپنے صوابدیدی اختیارات پر قیمتی زمین بھی اونے پونے داموں فروخت کر دیتی ہے۔ ایک طرف حکومت کو زمین کی صحیح قیمت نہیں ملتی دوسری
 طرف بلڈرز اور دیگر ادارے اپنی مرضی سے تعمیرات کرتے ہیں ۔ سندھ حکومت کو اپنی ملکیت اور جائداد کے بارے میں مالک کے طور پر سوچنا پڑے گا۔ یہ زمین یہاں کے لوگوں کی ہے جو انہی کی سہولیات کے لئے ہے۔ یہ کوئی مال برائے فروخت  نہیں

Nai Baat May 21, 2016 

No comments:

Post a Comment