Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ سہیل سانگی
رواں ہفتہ اخبارات نے نامور انسان دوست اور بے لوث خدمت گار عبدالستار ایدھی کی زندگی کے مخلتف پہلوﺅں پر اداریے، کالم اور مضامین شایع کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ بلاشبہ ایدھی صاحب بہت بڑے آدمی تھے۔ اخبارات نے ان کو اسی حساب سے اپنے کالموں میں جگہ دی۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
اخبارات نے سیاسی حوالے سے وزیراعظم کی وطن واپسی، پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے کمیشن کے ٹی او آرز کی تیاری میں ڈیڈ لاک ، الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرر کے معاملات پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے اویس شاہ ابھی تک اغواکاروں کے قبضے میں ہیں۔ اس حوالے سے مختلف تبصرے کئے جارہے ہیں۔ ایک اور اہم واقعہ یہ رونما ہوا ہے کہ سندھ کے وزیر داخلہ انور سیال کے بھائی طارق سیال نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے کہ انہیں رینجرز اور پولیس سے تحفظ دیا جائے۔
سندھ حکومت وفاقی حکومت سے مسلسل ناراضگی کا اظہار کرتی رہی ہے۔ گزشتہ دنوں حیدرآباد سمیت صوبے کے بعض شہروں میں پیپلزپارٹی نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ یہاں تک کہ حیدرآباد کے قریب کئی گھنٹوں تک ہائی وے بھی بلاک کیا گیا۔
دوسرا اہم معاملہ امکانی سیلاب اور تیز بارشوں کا ہے جس کو اخبارات نے موضوع بحث بنایا ہے۔ سندھ کے تمام اخبارات نے امکانی سیلاب اور مون سون کی تیز بارشوں کی پیش گوئی پر اداریے لکھے ہیں۔ اور حکومت پر سخت تنقید کی ہے کہ سیلاب یا تیز بارشوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی امکانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کوئی عملی تیاری نہیں کی گئی ہے۔ اخبارات کا خیال ہے کہ یہ عمل صرف سال میں ایک بار دیکھنے کا نہیں بلکہ پورا سال اس پر نظر رکھنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے۔روزنامہ عوامی آواز ، سندھ ایکسپریس اور روزنامہ عبرت نے اس موضوع پر اداریے لکھے ہیں کہ حکومت صرف اس وقت ایکشن میں آتی ہے جب ہنگامی صورتحال شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ جبکہ ہنگامی صورتحال سے بچنے کے لئے جن پیشگی اقدامات کی ضرورت ہے اس پر توجہ نہیں دی جاتی۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ایک طرف محکمہ موسمیات سندھ کے مختلف حصوں میں تیزبارشیں ہونے کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ دوسری طرف حفاظتی پشتوں کی صحیح مرمت نہ ہونے اور بعض کینال میں شگاف پڑنے پر وزیراعلیٰ سندھ نے سیکریٹری آبپاشی سے جواب طلب کیا ہے کہ ابھی دریاءمیں نچلے درجے کا سیلاب ہے اتنی رقومات خرچ کرنے کے باوجود اس وقت بھی اگر شگاف پڑ رہے ہیں۔ سندھ میں دریائی پشتوں کی بجٹ ہی نہیں بلکہ مونسون میں تمام پشتوں کی مرمت اور مضبوطی کے لئے مختص کی گئی رقم آبپاشی کے اہلکار ہضم کر جاتے ہیں۔ اس سے متعلق خبریں وقتا فوقتا اخباری صفحات پر شایع ہوتی رہی ہیں۔
بینظیر آباد ضلع میں ایس ایم بند کے پشتوں کو پانی کاٹ رہا ہے یہی صورتحال حیدرآباد میں لطیف آباد کے قریب واقع بند کی ہے جہاں
60 فٹ تک دریائی پشتہ پانی کی نذر ہو گیا ہے۔ اونے درجے کے سیلاب اور تیز بارشیں ابھی آنی باقی ہیں۔ لیکن بدانتظامی ابھی سے کھل کر سامنے آگئی ہے۔
محکمہ آبپاشی کی سالانہ رپورٹ ہر مرتبہ قادرپور لوپ بند، شینک بند، الرا جاگیر بند، اور دیگر پشتوں کے مزور ہونے کی بات کرتی ہے۔ محکمہ آبپاشی کے لئے پانی کی قلت کے دن بھی بہت سنہری ہوتے ہیں۔ تو پانی میں اضافے کے بھی۔ پانی کی قلت کے دنوں میں غیر منصفانہ تقسیم کے ذریعے چھوٹے زمینداروں اور کاشتکاروں کی فصلیں تباہ کی جاتی ہیں اور منظور نظر زمینداروں کی زمینیں اور فصلیں سر سبز و شاداب رہتی ہیں۔
سندھ میں محکمہ آبپاشی کی کارکردگی اتنی مثالی ہے کہ پانی کی قلت ہو یا سیلاب زراعت سے وابستہ طبقہ پریشان ہی رہتا ہے۔ محکمہ موسمیات کی تیز بارشوں کی پیش گوئی کے بعد زراعت سے وابستہ لوگ ہی نہیں بلکہ دیہی خواہ شہری علاقوں میں آباد لوگ خوف میں مبتلا ہیں۔
اس خوف کی صورتحال کو کم کرنے کے لئے ویزراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے دو اہم شکایات کی ہیں۔ اول یہ کہ وفاق دریا کے حفاظتی پشتوں کی مرمت اور مضبوطی میں مدد نہیں کر رہا ہے جبکہ یہ کام بنیادی طور پر وفاقی حکومت کا ہے۔ دوسرے یہ کہ محکمہ موسمیات کی تیز بارشوں کی پیش گوئی کے پیچھے حکومت سندھ دوڑ دوڑ لگا کر تھک گئی ہے ۔ سندھ کے دریائی علاقے میں بارش کی بوند بھی نہیں پڑی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ حفاظتی پشتوں پر کام ہو رہا ہے۔
اگر زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو نکاسی آب سے لیکر بجلی کی فراہمی تک تمام نظام معطدرہم برہم ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی رویت ہے جس کو آج تک توڑا نہیں جاسکا ہے۔ عوام بلدیاتی اداروں سے لیکر محکمہ صحت تک کی بد انتظامی کی ان رویات سے خوفزدہ ہے۔ دنیا بھرمیں بارشیں رحمت سمجھی جاتی ہیں۔ اور لوگ ان بارشوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کے دیہی علاقے ہوں یا شہری علاقے بارشوں کا پورا موسم خوف کے عالم میں گزارتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ کسی امکانی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اجلاس بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان اجلاسوں کے نتائج عوام تک تب پہنچ سکیں گے جب شگاف پڑنے بند ہونگے، شہروں کی سڑکوں پر کئی ہفتے تک پانی کھڑا نہیں ہوگا۔ بحالیات اور صحت کے محکمے بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔ بہتر کارکردگی باتوں سے زیادہ عملی شکل میں نظر آئے۔
http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/16-07-2016/details.aspx?id=p13_11.jpg
http://naibaat.com.pk/Pre/lahore/Page13.aspx