Sunday, July 3, 2016

صوبائی حکومت کے اختیار میں مداخلت : سندھ نامہ

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
Nai Baat July 2, 2016

صوبائی حکومت کے اختیار میں مداخلت
سندھ نامہ     سہیل سانگی 

تمام اخبارات نے کراچی میں آپریشن تیز کرنے سے متعلق حالیہ اپیکس کمیٹی کے فیصلوں اور بعد میں وفاقی وزیر داخلہ کی پریس بریفنگ پر اداریے لکھے ہیں۔ اخبارات نے آپریشن کو منطقی نتیجے تک پہنچانے پر زور دیا ہے۔ تاہم امن و امان کے حوالے وزیرداخلہ کی بریفنگ میں بتائی گئی بعض باتوں کو صوبائی اتھارٹی میں مداخلت قرار دیا ہے۔ اور وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ اس ضمن میں آئین اور قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں۔

 روزنامہ عوامی آواز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کے حوالے سے لکھتا ہے کہ کراچی میں امن قائم ہونا چاہئے، اس پر دو رائے نہیں ہوسکتی۔ ہر شہری کی خواہش ہے کہ وقتا فوقتا موت کا پنجہ اس شہر پر جھپٹتا رہتا ہے اس کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے۔ لیکن سندھ بھی باقی تین صوبوں کی طرح وفاق کی ایک وحدت ہے۔جہاں پر منتخب حکومت کام کر رہی ہے۔ پولیس سمیت دیگر تمام محکموں میں بھرتی اس حکومت کا آئینی اور قانونی اختیار ہے۔ بالکل اسی طرح سے جس طرح دوسری صوبائی حکومتیں کر رہی ہیں۔ بھرتی میرٹ پر ہونی چاہئے تاکہ حقداروں کوحق ملے ۔ 

بقول چوہدری صاحب کے اس وقت پورا ملک حالت جنگ میں ہے۔ قبائلی علاقہ جات ہوں یا بلوچستان اور سندھ یا پنجاب اور خیر پختونخوا ملک کی کوئی بھی جگہ بدامنی سے بچی ہوئی نہیں ہے۔ وہاں کی صوبائی حکومتیں وفاقی اداروں کے ساتھ مل کر قیام امن کے لئے کوشاں ہیں۔ ماسوائے سندھ کے کہیں بھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ پولیس سمیت کسی بھی محکمے میں بھرتیاں وفاقی اداروں کی مدد سے کی جائیں گی۔ ایسا کرنا صوبائی حکومت کے اختیار میں مداخلت کے مترادف ہے۔ بہتر ہوگا کہ صوبائی حکومت کے اختیارات میں دخل اندازی کے بجائے اسے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں نبھانے دی جائیں۔ چند افراد کی نااہلی کی سزا آئینی اور قانونی حدود پھلانگ کر اس صوبے کے عوام کو نہیں دی جانی چاہئے۔ 
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو بھی میرٹ کو ایک طرف رکھنے اور اپنی کارکردگی کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے بارے میں سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ سندھ میں صرف پولیس ہی نہیں بلکہ تمام محکموں میں بھرتیاں میرٹ پر کی جانی چاہئیں ۔ اخبار وفاقی وزیر داخلہ کے اس خیال سے متفق ہے کہ کراچی کو محفوظ شہر بنانے کے لئے ملکی اور غیر ملکی باشندوں کی جسے انہوں نےمقامی اور غیر مقامی کہا ہے ان کی کی رجسٹریشن کی جائے گی۔ 

یہ رجسٹریشن درست طریقے سے ہونی چاہئے ۔ ملک میں رھنے والے غیر ملکیوں کے اعدادوشمار کی تفصیلات جمع کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں، قبائلی علاقہ جات اور گلگت بلتستان سے آکر یہاں پر مختلف کام کرنے والے افراد کی بھی تفصیلات اور اعداد و شمار جمع کی جانی چاہئیں۔ کراچی چونکہ آتش فشاں کی شکل اختیاتر کر گیا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ پہلی فرصت میں غیر قانونی طور پر آباد تارکین وطن اور دیگر تارکین وطن کو پہلی فرصت میں اپنے اپنے ملک بھیج دینا ازحد ضروری ہو گیا ہے۔ 

 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ وفاقی حکومت کے جاری کردہ ایک سروے کے مطابق ملک میں گیس کی 72 فیصد پیداوار دینے والے صوبے سندھ کی شہری خواہ دیہی آبادی کا 43 .66 فیصد گیس کی سہولت سے محروم ہے۔ گیس کی پیداوار دینے والے ضلع گھوٹکی 28.8 فیصد شہری آبادی اور 88.69 فیصد دیہی آبادی، خیرپور کی 45.45 فیصد شہری اور 86 فیصد دیہی آبادی گیس کی فراہمی سے محروم ہے۔ یہ آبادی لکڑی یا دیگر ذرائع سے کھانا پکانے کا ایندھن حاصل کرتی ہے۔ عمرکوٹ کی 95 فیصد اور تھرپارکر کی سو فیصد آبادی گیس کی سہولت سے محروم ہونے کا نکشاف ہوا ہے۔ کراچی میں شہری آبادی کا 1.39 اور دیہی آبادی کا 16.12 فیصد گیس کی سہولت سے محروم ہے۔ سندھ کے وسائل جب یہاں کے لوگوں کو نہ ملیں تو ظاہر ہے کہ احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں وفاق کی جانب سے صوبوں کی آواز کو نہیں سنا جاتا۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی پالیسی کا از سرنو جائزہ لے اور موجودہ صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے عملی اقدامات کرے۔ 

روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ میں جاری پرانے قبائلی جھگڑوں کو دیکھ کر حکومت کی نیت پر شک ہوتا ہے کہ کیا واقعی وہ ان جھگڑوں اور تضادات کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ 
کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ حکومت کسی قانون پر عمل کرنا چاہے اور وہ عمل نہ کرا سکے۔اس کی مثال وہ قوانین ہیں جن پر عمل درآمد کرنا حکومت اپنی بقا کے لئے ضروری سمجھتی ہے۔ کوئی بھی اگر ایسے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پکڑا جاتا ہے اور اسے سزا بھی ملک جاتی ہے۔ لیکن سندھ کی معیشت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ان تصادموں کی روک تھام کے لئے قانون حرکت میں نہیں آتا جس میں سینکڑوں انسانی جانیں ضایع ہو چکی ہیں ہزاروں بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ 
گزشتہ دنوں یہ خبر آئی ہے کہ شکارپور ضلع کے گاﺅں رکھیل وانڈھ میں دو فریقوں کے درمیان 2003 سے جاری چوری کے تنازع پر ایک بار پھر تصادم ہوا جس میں تین انسانی جانیں چلی گئیں۔ پولیس 13 سال تک دور کھڑی ہو کر اس تنازع کو دیکھتی رہی۔ عموما یہ شکایت رہتی ہے کہ پولسی اس فیرق کا ساتھ دیتی ہے جو طاقتور ہو۔ اس طرح کے واقعات جو قبائلی جھگڑوں میں تبدیل ہوتے ہیں وہ دراصل معمولی اور چھوٹے واقعات سے جنم لیتے ہیں۔ جس میں پانی کی باری، فصل میںمویشی چرانے، چوری کے شبہ وغیرہ جیسے معاملات شامل ہیں۔ حکومت سندھ سے مطالبہ ہے کہ ان پرانے جھگڑوں کو نمٹانے کے لئے اقدامات کرے اور سندھ کو مزید خونریزی سے بچائے۔ 


No comments:

Post a Comment