سندھ میں لوڈ شیڈنگ اسباب فنی نہیں سیاسی ہیں
سندھ نامہ سہیل سانگی
چیئرمین واپڈا کی جانب سے نفرت کی آگ بھڑکانے کی کوشش “ کے عنوان سے” روز نامہ عبرت “ لکھتا ہے کہ کالاباغ ڈیم پنجاب کے حکمرانوں کی ایسی خواہش رہی ہے جس کو وہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی مخالفت کے باوجود ہر صورت میں مکمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر دور میں میں کوئی نہ کوئی اس متنازع آبی منصوبے کو آگے لے آتا ہے اور نفرتوں کی آگ بھڑکانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مرتبہ یہ کوشش واپڈا چیئرمین نے اپنے بیانات اور مضامین کے ذریعے کی ہے۔ جس پر پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے احتجاج کیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمدشاہ نے واپڈا چیئرمین کے اس بیان کو وفاق کی روح کے خلاف قرار دیا ہے۔ اور انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ اس طرح کے متنازع بیانات دینے سے گریز کریں۔ سید خورشید احمد شاہ کا کہنا ہے کہ کالاباغ ڈیم کا معاملہ چیئرمین واپڈا کے مینڈیٹ سے بہت بڑا ہے۔ وہ سرکاری ملازم ہیں انہیں متنازع بیانات دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج سے پہلو تہی کرنے کے لئے کالاباغ ڈیم کا اشو دوبارہ زندہ کرنا چاہتی ہے۔
یہ ایک متنازع منصوبہ ہے جس کے خلاف تین صوبائی اسمبلیاں قراردیں منظور کر کے مسترد کر چکی ہیں۔ اور اسے ملکی وحدت کے خلاف قرار دے چکی ہیں۔ اس کے لئے ایک سرکاری ملازم کہتے ہیں کہ وہ اس منصوبے کی افادیت کے لئے قوم کو اعتماد میں لیں گے۔ قوم کے ساتھ اس سے بڑا مذاق کیا ہوسکتا ہے؟
ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی چھوڑنے کو زیان قرار دینے والے عقل کے اندھے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ صدیوں سے دریاے سندھ سمندر سے رشتہ جوڑے ہوئے ہے اور اس ڈیلٹا کا اپنا ’ایکو سسٹم‘ ہے۔ اور کوٹری سے نیچے سمندر تک سینکڑوں میل زمین موجود ہے۔ جس پر کاشت بھی ہوتی ہے ماہی گیری بھی ہوتی ہے اور دیگر درجنون ذرائع روزگار ہیں جس پر لاکھوں انسان اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
آج یہ صوبے پانی کے قحط کا شکار ہے، تھر ہو یا کاچھو اور کوہستان یا کراچی شہر لوگ بالٹیاں ہاتھوں میں اٹھائے پانی کی تلاش میں سرگردان ہیں۔
صاف پینے کا پانی کی عدم موجودگی میں مضر صحت پانی استعمال کرنے کی وجہ سے سندھ کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ پانی سے متعلق بیماریوں میں مبتلا ہے۔ چند ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کے لئے پورے صوبے کی آبادی کو غریب اور تباہ کرنا، بیماریوں میں مبتلا کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے سمندر لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین نگل چکا ہے۔
اپوزیشن لیڈ ٹھیک ہی کہہ رہے ہیں کہ حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لئے اس متنازع منصوبے کی آڑ لے رہی ہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسترد شدہ منصوبے کو ہمیشہ کے لئے دفن کردیا جائے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازم کو ہدایت کی جائے کہ وہ قومی وحدت کے معاملات میں فتور نہ پھیلائے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے ہر چھوٹے بڑے شہر سے لیکر صوبائی دارلحکومت تک بجلی کے بحران اور لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ اس کے بارے میں عوامی احتجاج کا نچوڑ یہ جا کر بنا ہے کہ اس بحران کے اسباب فنی نہیں بلکہ سیاسی ہیں۔
وفاقی حکومت سندھ کے مسائل کو کم کرنے کے بجائے اپنی یک طرفہ پالیسیوں کے ذریعے ان میں اضافہ کر رہی ہے۔ لہٰذا بجلی کے بحران کے لئے وفاقی حکومت کو ہی ذمہ دار ٹہریا جارہا ہے۔ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کے لوگوں کو سزا دے رہی ہے۔
اس موقع کوغنیمت جانتے ہوئے وپڈا کے چیئرمین مسئلے کا واحد حل کالاباغ ڈیم تجویز کر کے اس کے لئے مہم چلا رہے ہیں کہ بجلی کے بحران کا حل اسی منصوبے سے مشروط ہے۔
میڈیا مسلسل حکومت کو یاد دہانی کراتا رہا ہے کہ سندھ میں بجلی کا بحران کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ لیکن متعلقہ وزارت اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کے لئے تیار نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ سندھ کو بجلی چور قرار دیا جارہا ہے۔
اس صورتحال میں سندھ کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وفاقی حکومت کے پاس سندھ کے لوگوں کے درد کی دوا نہیں۔ وفاق کی تمام توانائیاں پنجاب پر ہی خرچ کرنے کے لئے مخصوص کی گئی ہیں۔ سندھ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے لیکن وفاقی حکومت کو کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔ بلکہ وہاں مزید کنیکشن کاٹے جارہے ہیں ٹرانسفارمر اتارے جارہے ہیں۔ تاکہ بقایاجات کے نام پر سندھ سے زبردستی وصولی کی جائے۔
اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حیسکو حکام ضلع اتظامیہ کی سننے کے بجائے اپنے طور پر فیصلے کرتی۔ کمشنر حیدرآباد کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ حیسکو انتظامیہ نے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔
حیسکو کی کارروایوں کی وجہ سے حیدرآبا شہر کو پانی فراہم کرنے کے ٹینک خالی ہو چکے ہیں۔ حیسکو کی کارکردگی صفر ہے کیونہ کہ گزشتہ دنوں معمولی بارش میں 84 فیڈر بند ہو گئے تھے۔
یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آج کل سندھ کے مختف علاقوں سے آنے والی خبروں میں سب سے زیادہ خبریں بجلی کے بحران، لوڈ شیڈنگ سے متعلق ہیں۔
حیسکو کی کارروایوں کی وجہ سے حیدرآبا شہر کو پانی فراہم کرنے کے ٹینک خالی ہو چکے ہیں۔ حیسکو کی کارکردگی صفر ہے کیونہ کہ گزشتہ دنوں معمولی بارش میں 84 فیڈر بند ہو گئے تھے۔
یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آج کل سندھ کے مختف علاقوں سے آنے والی خبروں میں سب سے زیادہ خبریں بجلی کے بحران، لوڈ شیڈنگ سے متعلق ہیں۔
بجلی کی عدم فراہمی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ متعدد لوگ بیمار پڑ رہے ہیں۔
بچوں اور ضعیف افردا کی اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔ ان کے
بچوں اور ضعیف افردا کی اموات بھی واقع ہوئی ہیں۔ ان کے
ورثاء نے سڑکوں پر احتجاج بھی کیا لیکن ان کی کوئی سننے والا نہیں۔ حکمران جماعت نواز لیگ کے پاس سندھ کسی شمار میں نہیں۔ لہٰذا صرف بجلی ہی نہیں بلکہ اور کوئی بھی چیز جو وفاق کے ماتحت ہے اس میں سندھ کا حصہ کم کیا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت کا یہ رویہ قابل مذمت ہے ۔ سندھ میں اگر بجلی کا بحران جلد نہ ہوا تو نواز حکومت کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
روزنامہ کاوش ”بجلی سے لیکر اے ٹی ایم تک ڈاﺅن شدہ لنک“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ملکی انتظام ویسے بھی ڈانواڈول ہوتا ہے لیکن خاص یا تہوار کے موقع پر بھی اس انتظام کاری کو ذرا بھی بہتر نہیں بنایا جاسکتا ۔ اس ضمن میں حکومت اور اس کے اداروں کے دعوے سچ سے کوسوں دور ہی رہتے ہیں۔
ماہ صیام شروع ہونے سے پہلے حکومت نے دعوا کیا تھا کہ مہنگائی کو روک دیا جائے گا اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی۔ لیکن عملا کیا ہوا؟ وہی جو سب نے بھگتا۔ اسٹیٹ بینک نے ہدایات جاری کی کہ تمام بنکوں کے اے ٹی ایم چھٹیوں میں کام کرتے رہیں گے۔ لیکن عید سے پہلے ہی سینکڑوں برانچز میں اے ٹی ایم مشینیں بند تھیں یا ان پر نوٹس لگادیا گیا تھا کہ ”اے ٹی ایم خراب ہے“۔ یعنی عوام اپنا پیسہ بھی بنک سے نہیں نکال سکتے۔
اے ٹی ایم بند ہونے کی شکایات صوبے بھر سے آئی ہیں۔ جن میں سے کچھ میڈٰا میں بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسٹیٹ بنک اپنے اعلان کے مطابق کتنے بنکوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔
روزنامہ نئی بات ۹ ۔جولائی
No comments:
Post a Comment