Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ بہت بڑی تبدیلی سے گزرہا ہے
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
گزشتہ ہفتہ سے سندھ بہت بڑی تبدیلی سے گزرہا ہے۔ یہ تبدیلی بظاہر چانک تھی لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کے لئے میدان پہلے سے تیار کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی طے تھا کہ کس کردار کو کب اور کیا رول ادا کرنے ہے۔ ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رہنما فارق ستار نے لندن کی قیادت سے لاتعلقی کا اظہار کر کے عملی طور پر پارٹی کو بچا لیا اور اس کے ساتھ ساتھ کراچی اور حیدرآباد میں میئر کے انتخابات بھی جیت لئے۔ اخبارات میں یہ خبریں اور تبصرے بھی شایع ہوئے کہ فاروق ستار کے اس عمل نے پارٹی پر پابندی لگنے سے بچا لیا۔ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے باقی شہروں میں جہاں جہاں ایم کیو ایم کا وجود تھا وہاں دفاتر سیل کردیئے گئے ہیں۔ الطاف حسین کی تصاویر اتار دی گئی ہیں۔ اس پورے عمل پر ایم کیو ایم جس کا نعرہ تھا ’’قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے ‘‘ خاموش رہی۔ ایک بہت بڑی تبدیلی بہت ہی خاموشی کے ساتھ اور پر امن طور پر آ گئی۔ پورا ہفتہ اس تبدیلی سے متعلق خبریں، تبصرے، مضامین، اور اداریے شیاع ہوتے رہے۔ اس ہٹ کرواقعہ یا خبر کم اہمیت اختیار کر گئی۔
روزنامہ عوامی آواز سرکاری زمینیں اور پارک چھڑانے کا فیصلہ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ کے مختلف شہروں میں خاص طور پر کراچی، حیدرآباد، سکھر میں سرکاری زمینوں، پارکوں ، سرکاری دفاتراور اسکولوں میں قائم یونٹ اور سیکٹر آفیسوں کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لئے اپنے ذاتی یا کرایے کی عمارتیں استعمال کرے۔ یہ فیصلہ السام آباد میں وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کی مشترکہ اجلاس میں کیا گیا۔ جو دو روز تک جاری رہا۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر داخلا چوہدری نثار علی خان نے کراچی کا دورہ کیا اور گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سے ملاقاتیں کر کے ضروری ہدایات دیں۔ چوہدرینثار علی نے کراچی کے عوام کو شاباش دی کہ 25 سال میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ وہ کسی کی دھمکیوں میں نہ آئے۔ انہپوں نے کہا کہ ایم کیو ایم دو یا تین دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی اس کا پتہ ایک دو روز میں چل جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ایم کیو ایم کی سوچ سے متعلق انہیں (وفاقی حکومت) کو کئی برسوں سے پتہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے پاکستان کے خاف بعض قوتوں کا پتہ ہونے کے باوجود ان کی طرف نرم رویہ رکھا۔ پاکستان کے خلاف کام کرنے والے کسی شخص، گروپ یا پارٹی میں وفاقی حکومت نے بعض چھوٹے مفادات و معاملات کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈالا۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ کابینہ نے مدرسوں کی رجسٹریشن اور این جی اوز کی آڈٹ اور مانیٹرنگ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معلومات تک رسائی کے بل کی بھی منظوری دے دی ہے۔ کابینہکو بتایا گیا کہ صوبے میں 8 ہزار مدارس بغیر رجسٹریشن کے کام کر رہے ہیں۔ ان کی رجسٹریشن کے لئے نیا قانون متعارف کرایا جائے گا۔ والنٹیئر سوشل ویلفیئر ایجنسیز کے قانون میں ترمیمی بل کی بھی منظوری دی گئی۔ بنیادی طور پر سندھ کابینہ نے جو فیصلے کئے ہیں ا کا تعلق امن و مان سے ہے۔ جہاں تک مدارس کی بات ہے، سندھ میں صدیوں سے مدارس چل رہے ہیں جس کا کوئی بھی مخالف نہیں۔ لیکن اعتراض تب شروع ہوا جب بعض مدارس کو امن و مان بگاڑنے میں ملوث پایا گیا۔ مدارس میں جو تعلیم دی جاتی ہے اور جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس پر صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان اور دنیا میں بحث چل رہی ہے۔ دینی تعلیم الگ چیر ہے اور دینی تعلیم کے نام پر کچے ذہنوں کو غلط راہ پر لگانا بلکل ہی الگ بات ہے۔ مدارس کے اس بدلے ہوئے رول کو سمجھنے کے لئے ہمیں سرد جنگ کے دور میں جانا پڑے گا۔ جب ہمارے خطے میں مدارس دینی تعلیم کے ساتھ ایک کاص ایجنڈا پر کام کرنے لگے۔ خرابی میں شدت تب آئی جب ان کے قیام اور پروان میں غیر ملکی پیسہ آنا شروع ہوا اور اس کی بھی کوئی تحقیقات اور مانیٹرنگ نہیں ہو رہی تھی۔ اگر کوئی ادارہ رضاکارانہ طور پر بغیر کسی آمدن کے چلتا ہے تو وہ کسی اور طریقے سے چلتا ہے۔ اگر اس میں بعض دیگر ذرائع سے رقومات آنا شروع ہوں اور حکومتی اداروں کے کو بھی اس کا نہ پتہ ہو تو پھر ایسے نتائج نکلیں گی جس طرح کے نتائج بعض مدارس کی صورت میں ہمارے سامنے آئے ہیں۔ مدرسہ ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ادارہ بغیر رجسٹریشن کے کیسے چل سکتا ہے؟ کوئی بھی ادارہ ہو اس کی نہ صرف رجسٹریشن ضروری ہے بلکہ اس کے بارے میں حکومت خواہ عوام کو بھی پورے طور پر آگاہی ہو نی چاہئے۔ ہمارے ہاں حکومتی سطح پر کوئی مانیٹرنگ اور چیک نہ ہونے ک وجہ سے بعض غیر ملکی عناصر نے اپنے ایجنڈا پر کام کرنا شروع کیا۔ اگرچہ اس ضمن میں خاصی دیر ہوچکی ہے تاہم اب بھی اگر بلاامتیاز یہ کام کیا جائے تو اس کے مجموعی طور پر ہمارے معاشرے پر سیاسی، مذہبی، اور امن و مان کے حاولے سے بھی بہتر اثرات پڑیں گے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس پانی کی تقسیم میں سندھ کے ساتھ امتیازی سلوک کے عنوان سے لکھتا ہے کہ حال ہی میں ارسا کے اجلاس میں پانی کی موجودہ صورتحال، تربیلا ڈیم کے نہ بھرنے، صوبوں کے حصے اور دیگر معاملات پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ارسا نے 28 جولائی کو تربیلا ڈیم بھرنے کے لئے واپڈا کو ہدایات جاری کی تھیں۔ ان ہدایات کو نظرانداز کیا گیا۔ جس کے بعد صورتحال خراب ہو گئی۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ پنجاب اب تریمو اور پنجند کیالز کے لئے منگلا سے پانی لے گا۔ دوسری طرف چشمہ جہلم لنک کینال کو بند کردیا گیا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سندھ اور پنجاب کو ان کی ضروریات کے بجائے معاہدے کے پیرا 2 کے تحت پانی ملے گا۔ لیکن یہ پانی 20 فیصد لاسز کے حساب سے ملے گا۔ سندھ نے یہ موقف اختیار کیا کہ عملی طور پر لاسز 40 فیصد ہیں کیونکہ چشمہ سے پانی گڈو تک پہنچتے ہوئے کم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا چالیس فیصد لاسز طے کر کے اس کے حساب سے سندھ کو پانی دیا جائے۔