وزیراعلیٰ کی تبدیلی اور سندھی میڈیا
سندھ نامہ سہیل سانگی
ہر شعبے میں انتظامی، نااہلیت، امن و امان، کرپشن کی مسلسل شکایات کے بعد صوبے میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی نے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو تبدیل کردیا ہے ۔ ان کی جگہ پر جواں سال سید مراد علی شاہ کو یہ منصب سونپا گیا ہے۔
اکثر اخبارات نے سندھ میں معاملات خراب ہونے کے لئے سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو کم اور پیپلزپارٹی کی قیادت کو زیادہ ذمہ دار ٹہرایا ہے۔ اخبارات میں شایع ہونے والے مضامین تجزیوں اور تبصروں کے مطابق شاہ صاحب کے پاس اختیارات نہیں تھے اور پردے کے پیچھے کچھ اور لوگ فیصلے کرتے تھے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب تک پیپلز پارٹی کی قیادت حکمرانی کے حوالے سے اپنی روش تبدیل نہیں کرے گی تب تک نیا وزیراعلیٰ بھی وہی کرتا رہے گا جو سابق وزیراعلیٰ کرتے رہے۔ بلکہ بعض مبصرین نے سید قائم علی شاہ کو ان کے روش، سیاسی کردار ، پارٹی کے ساتھ طویل وفاداری، اور جدوجہد کو سراہا ہے اور 83 برس کی عمر میں بھی ان تھک محنت کرتے رہے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ کسی بھی پارٹی کو نئے فیصلے کرنے کی ضرورت کارکردگی کی وجہ سے پڑتی ہے۔ ہمارے پاس اگرچہ ان تبدیلیوں کے لئے گرمجوشی کے ساتھ توقعات نہیں کی جاری لیکن پھر بھی عوام جو صرف امید رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا ، وہ اس تبدیلی سے بھی امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ صوبہ جن متعدد مسائل کی لپیٹ میں ہے وہ نئے ویزراعلیٰ کے لئے بڑا چیلینج ہیں۔ ان کے حل کے لئے محنت، کردار، ارادے کی پختگی، برداشت، رواداری کی روش از حد ضروری ہے۔ پیپلزپارٹی خواہ دیگر جماعتویں وقتا فوقتا عوام سے جو وعدے کرتی رہی ہیں وہ نامکمل ہی رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ میں یہ تبدیلی حقیقی معنوں میں عوام کے لئے تبدیلی واقع ہوتی ہے یا نہیں۔
روزنامہ عبرت نے ” نئے وزیر اعلیٰ کی ترجیحات“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سید مراد علی شاہ نے نامزدگی کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ امن و مان ان کی اولین ترجیح رہے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سول ادارے صحیح طریقے سے کام کریں تو دوسرے اداروں کو بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کے علاوہ انہوں نے صحت اور تعلیم کو بھی اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا ہے اور کہا ہے کہ ان دو شعبوں یعنی صحت اور تعلیم میں ایمرجنسی نافذ کرنی پڑے گی۔ صحت اور تعلیم میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے عزم کو عوام میں مثبت قرار دیا جارہا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اب لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے آئینی مدت حکمرانی کے باقی اٹارہ انیس ماہ کے دوران واقعی عوام کو کچھ ڈلیور کرے گی۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پارٹی کی حکمرانی کی باقی مدت کے دوران وہ اتنا کام کرنا چاہتے ہیں کہ نہ صرف سندھ میں بلکہ باقی صوبوں میں بھی ان کی کارکردگی مثال بن جائے۔ سید مراد علی شاہ نے جن نکات کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے، یہ وہ نکات ہیں جو معاشرے کو پستی سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر لے آتے ہیں۔ کوئی بھی خطہ چاہے کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو، اگر وہاں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں، لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں، تو یہ ترقی کچھ زیادہ عرصہ چل نہیں پائے گی۔ اس کے لئے ہم دور کیوں جائیں، آج سے تین عشرے پہلے تک حیدرآباد ملک کا تیسرا بڑا شہر تھا۔ جہاں ملک بھر کے لوگ روزگار کے لئے آتے تھے۔ لیکن جیسے ہی لسانی جھگڑوں کی آگ کی لپیٹ میں آیا تو اب وہ ساتویں نمبر پر آگیا۔ بدامنی کسی بھی آباد علاقے کو برباد کرنے میں دیر نہیں کرتی۔ سندھ اگر ملک کے دیگر علاقوں سے ترقی کے معالے میں پیچھے رہ گیا ہے ، اس میں دیگر عوامل اپنی جگہ پر لیکن بدامنی سب سے بڑی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ قبائلی اور برادریوں کے جھگڑے، کارو کاری کے واقعات، ڈاکے اور لوٹ مار ، انتہا پسندی، دہشتگردی وہ عوامل ہیں جنہوں نے خوشحال سندھ کو کنگال اور غریب بنادیا ہے۔
اگر مرادعلی شاہ کابینہ اس حوالے سے واقعی کچھ کرتی ہے تو یہ سندھ کے عوام پر بڑا احسان ہوگا۔ اس اس لئے بھی ضروری ہے کہ باتیں تو ہر کوئی آکر کرتا ہے ی لیکن عمل کرنا ہی اصل ضرورت ہے۔
ہم صوبے میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ اور عوام سے بھی توقع رکھتے یں کہ یہ دو اہم شعبے جن کا تعلق براہ راست عام آدمی سے ہے، اس میں حکومت سے تعاون کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان ترجیحات کو پورا کرنے کے لئے پیپلزپارٹی کی قیادت نئے وزیراعلیٰ کا ساتھ دے گی؟ اب تک سندھ حکومت کے معاملات میں جو مداخلت دیکھنے میں آئی ہے ، اس س کے پیش نظر یہ سب کچھ مشکل نظر آتا ہے۔ لیکن چونکہ دنیا امید پر قائم ہے۔ ہم بھی اسی طرح امیدوں کا دامن ہاتھوں میں لئے ہوئے انتظار کریں گے کہ پارٹی کی قیادت ان ترجیحات کو پورا کرنے کے لئے نئے صوبائی سربراہ کو فری ہینڈ دے گی۔ اس سے نہ صرف سندھ اور یہاں کے لوگوں کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آئے گی بلکہ خود پیپلزپارٹی کی بھی نیک نامی ہوگی۔
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ بلاشبہ چینی اقتصادی راہداری منصوبے کی مد میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملک کے لئے بہت بڑی اقتصادی امداد ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ متنازع بنا ہوا ہے۔ اس ضمن میں مختلف وقت میں آوازیں اٹھتی رہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے تاحال اس منصوبے کے اہم فیچرز عوام خواہ صوبائی حکومتوں کے سامنے ظاہر نہیں کئے ہیں۔ بدھ کے روز سنیٹ میں جب اس منصوبے کے ارے میں بحث ہو رہی تھی تو تین صوبوں کے سنیٹرز ایک طرف تھے اور پنجاب کے سنیٹرز دوسری طرف تھے۔ بحث میں اتنی تلخی آگئی کہ تینوں چھوٹے صوبوں کے نمائندگان کو کہنا پڑا کہ” راہداری منصوبہ دھوکہ ہے۔ وزیراعظم نے اگر خدشات دور نہیں کئے تو وفاق کو خطرہ درپیش ہوگا۔“
کسی بھی وفاقی نظام میں اس طرح کی دوریاں اچھی علامت نہیں ہوتی۔ اگر چار بھائیوں میں تین بھائی ایک طرف ہوں اور اپنے ساتھ ناانصافی کی شکایت کر رہے ہوں، ایسے میں بڑے بھائی کو ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ شکایات اور تحفظات دور کرنے چاہئیں۔ اگر یہ پورے ملک کا منصوبہ ہے، جیسا کہ کہا جا رہا ہے، تودوسرے صوبو ں کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ اس منصوبے کی صحت کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں۔
جب سے راہداری منصوبہ شروع ہوا ہے، وفاقی حکومت اس کے کئی فیچرز اور معلومات صوبوں کو بتانے سے گریز کرتی رہی ہے۔ ہم سمجھت ہیں کہ راہداری منصوبہ اس ملک کا نہایت ہی اہم منصوبہ ہے۔ لیکن مرکزی حکومت کے رویہ کی وجہ سے متنازع بن رہا ہے۔ جس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔ اس منصوبے میں جو مبہم امور ہیں ان کے بارے میں صوبوں کو آگاہی دی جانی چاہئے۔ اگر
صوبوں کو اس طرح کی شکایات رہیں تو وفاق کے مفاد میں نہیں
http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/30-07-2016/details.aspx?id=p13_03.jpg
No comments:
Post a Comment