Sunday, August 28, 2016

سندھ میں حکمرانی کا صرف تاثر ہی خراب نہیں ۔ سندھ نامہ ۔ سہیل سانگی


Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi


سندھ میں حکمرانی کا صرف تاثر ہی خراب نہیں

سندھ نامہ   سہیل سانگی


روزنامہ کاوش سندھ میں حکمرانی کا صرف تاثر ہی خراب نہیں کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی ٹیم جو نئے وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم کے لئے جو مسائل کے ڈھیر ورثے میں دے گئی ہے ان میں سے ایک مسئلہ افسران کی میرٹ پر، ضرورت اور معیار کی بنیاد پر تقرر اہم ہے۔ صرف وزیراعلیٰ ہاؤس میں 25 ہزار سمری ہی بغیر نمٹائے رہ گئی ہیں اس طرح کے کئی انتظامی مسائل حل ہونے سے رہ گئے ہیں۔ یا انہیں جان بوجھ کر التوا ڈالا گیا تھا۔ جنہیں موجودہ وزیراعلیٰ حل کریں گے۔ ایک چھوٹی سی مثال عطا محمد پنہور کا ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی میں تقرر ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود سندھ حکومت نے ان کی خدمات واپس وفاق کے حوالے نہیں کی ہیں۔ سوال صرف اس افسر کا نہیں۔ سندھ میں ایک عرصے سے اپنے حق کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے افسران کو در در رسوا کیا جارہا ہے ۔ انہیں گریڈ 18 سے 17میں اور پھر نافرمانی کرنے پر گریڈ 14 میں سزا کے طور پربھیج دیا گیا۔


انتظامی نا انصافی کی یہ مثال صرف سندھ میں ہی ملتی ہے۔ کہ عدالت کے منع کرنے کے باوجود من پسند افسران کو پسندیدہ عہدوں سے نوازا گیا۔ جن توہین عدالت کی درخواستیں دائر ہوتی ہیں اور ان کی سماعت کے دوران جب عدالت حکومت سندھ کے دل پسند افسران کے بارے میں سوال کرتی ہے تو س سرکاری وکیل لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔ یوں ایک افسر دوسرے پر کوتاہی کا الزام لگتا ہے ، پھر دوسرا تیسرے پر ، اور یوں یہ سلسلہ آگے چیف سیکریٹری تک چلا جاتا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں کہ سندھ میں افرسان کے تقرر، تبادلے اور ترقی کا معاملہ عدالت عظمیٰ تک پہنچا ہے۔ اس سے پہلے بھی متعدد درخواستیں انصاف کے لئے عدالت میں دائر کی جاتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ تبصرے اور ریکامرکس بھی سننے کو ملتے ہیں کہ سندھ میں چھانٹ چھانٹ کے غلط افسران کو اہم عہدوں پرؓ تھایا گیا ہے۔ سندھ کے انتظامی ڈھانچے کی بدانتظامی کا عالم یہ ہے کہ محکمہ پولیس میں ایس پی لیول کے عہدوں پر غلط ترقیاں دی گئی ہیں۔ جنہیں بعد میں عدالت کے حکم پر واپس کیا گیا۔ ایک محکمے کے افسران کو دوسرے محکمے میں ضم یا تقرر کیا گیا۔ محکمہ بلدیات میں ملازمت اتنی چمک والی چابت ہوئی کہ پی آئی اے کے بعض ملازمین بھی اس محکمے میں آکر موج کرنے لگے۔ اس کا اعتراف سابق وزیر بلدیات آغا سراج درانی کر چکے ہیں۔


وزیراعلیٰ سندھ بھلے یہ کہتے رہیں کہ سندھ میں اتنی خراب حکمرانی نہیں ہے۔ جتنا اس کے بارے میں تاثر دیا جارہا ہے۔ اچھا یا خراب تاثر تب بنتا ہے جب کوئی عمل ہوتا ہے۔ تاثر تبدیل کرنے کے لئے تحرک اور سرگرمیاں ہی کافی نہیں ہوتی، میرٹ کو رائج کرنا، ضرورت کے مطابق افسران کی تقرری اور تبادلے ، انتظامی ڈحانچے کے حوالے سے ہونے والی ناانصافیوں کی آواز کو مدھم کر سکتے ہیں۔ حکمرانی سے متعلق اچھا تاثر تب بن سکتا ہے جب ورثے میں ملنے والے مسائل کو حل کرنے کے لئے ماضی کی رپیکٹس سے نکالا جائے گا۔ پرانی ٹیم سے ممکن ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ ڈرے ہوئے نہ ہوں لیکن سندھ کے عوام ضرور ڈرے ہوئے ہیں۔ جس نے عوام کو گزشتہ آٹھ سال تک خراب حکمرانی کا مزہ چکھایا ہے۔ 
روزنامہ ایکسپریس سندھ وفاق تنازع کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے بعد نواز لیگ کی حکومت تیسری مرتبہ اقتدار میں آئی ہے۔ جب بھی نواز شریف کی حکومت آتی ہے وفاق اور صوبوں کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔ ان کی حکومت صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ کبھی کالا باغ کے متنازع آبی منصوبے کو چھیڑا جاتا ہے۔ 
کبھی پانی کے معاہدے کو ایک طرف رکھ کر مختلف فارمولے سامنے آالئے جاتے ہیں۔ چیئرمین واپڈا اخباری مضامین کی سیریز کے ذریعے کالا باغ ڈٰم کا معاملہ نئے سرے سے کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن وفاقی حکومت ان سے پوچھ ہی نہیں رہی کہ آخر اسکو کیوں چھیڑا جارہا ہے۔ صندھ کے مشیر اطلاعات مولابخش چانڈٰو کہتے ہیں کہ اگر سندھ حکومت کو ہلایا گیا تو پورا وفاق ہل جائے گا۔ وفاقی وزیرداخلا چوہدری نثار علی خان سندھ حکومت کو مختلف آپشنز کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دوسرے صوبوں سے بھی جو موقف سامنے آرہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ صوبوں اور وفاق کے درمیاں دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی کا لازمی طور پر فائدہ غیر سیاسی قوتوں کو ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ اور وفاق کے درمیان جو بھی اختلافات اور کشیدگی ہے اس کو بات چیت کے ذریعے اور ٹھنڈے دماغ کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ 



روزنامہ عبرت وزیراعلیٰ سندھ کے حیدرآباد دورے کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ان کے دورے نے حیدرآباد کی انتظامیہ کو بڑی پریشانی میں مبتلا کردیا کیونکہ سڑکوں کی زبون حالی، گلیوں کی صفائی، سیوریج کے پانی کی ناقص نکاسی کے معاملات ان کی کارکردگی کی چغلی لگا رہے تھے۔ اخبار لکھتا ہے کہ سندھ بھر کے شہروں کو تفصیل سے دیکھنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس طرح کا مکینزم بننا چاہئے کہ وزیراعلیٰ نہ بھی دورہ کر سکیں تو بھی نظام چلنے لگے اور لوگوں کو سہولیات اور انصاف ملتا رہے۔ 

No comments:

Post a Comment