Sindhi Press- Sindh Nama 25-11-2017
Sohail Sangi
Nai Baat
Sohail Sangi
Nai Baat
پیپلزپارٹی اپنے ہی ووٹر کو غریب کر رہی ہے
سندھ نامہ سہیل سانگی
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے شگر ملز وقت پر نہ چلانے اور گنے کی قیمت مقرر نہ کرنے کے خلاف سندھ میں تحریک جاری ہے۔ اب یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ جہاں عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ کو 29 نومبر کو طلب کرلیا ہے۔ درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے گنے کی قیمت 180 روپے من مقرر کردی ہے لیکن سندھ حکومت اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کر پائی ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ کاشتکار ایک ہفتہ صبر کریں ۔انہیں مناسب دام دیئے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے چینی کے اسٹاک پڑے ہیں۔ جنہیں ایکسپورٹ نہیں کیا جاسکا ہے۔ سندھ کے اخبارات نے کاشتکاروں کے اس احتجاج اور مطالبات کے حق میں اداریئے لکھے۔ اخبارات نے فیض آباد کے دھرنے کو بھی موضوع بنایا ہے اور کہا ہے کہ ریاست کی رٹ کو تماشہ نہ بنایا جائے۔ ان دو مسائل پر سندھ کے اخبارات کی متفقہ رائے ہے۔
’’حکومت کو سندھ کے کاشتکاروں کا احتجاج نظر نہیں آتا ‘‘کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے کاشتکار سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ روز گمبٹ کے قریب قومی شاہراہ پرکاشتکاروں نے دھرنا دیا۔ اس دھرنے میں کاشتکاروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ ایک طرف اشیائے صرف و خوردنی کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے جس کو حکومت روکنے میں ناکام رہی ہے۔
دوسری جانب جب بھی کوئی زرعی جنس اترتی ہے تو تاجر مافیا اس کی قیمتیں گرا دیتی ہے اور محنت مزدوری سے پیدا کی گئی فصل کا معاوضہ اس کی لاگت کے برابر بھی نہیں ملتا۔ زرعی اجناس کی صحیح قیمتیں نہ ملنے کی وجہ سے کسان اور چھوٹا کاشتکار مفلس ہو گیا ہے۔ سندھ کی اکثریتی دیہی آبادی کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ جو مسلسل بحران کا شکار ہے۔ صوبے کی حکمران جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ اس کی پالیسیاں دراصل اپنے ہی ووٹر کو مزید غریب کر رہی ہیں۔
’’روزنامہ کاوش ‘‘نے موسمی تبدیلیوں کے پس منظر میں سندھ میں پانی کی قلت کا معاملہ اٹھایا ہے ۔ یہ ایک نیا پہلو ہے۔ اس ضمن میں سندھ حکومت کی لاتعلقی پر تنقید کی ہے۔
اخبار ’’سندھ کے پانی کا مقدمہ اور ہمارا نیرو‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں پر ایک ہنگامہ بپا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں انسان کی زندگی و بقا اور ماحولیاتی سے مطابقت اور نئے ماحول میں زندہ رہنے کے طریقے تلاش کئے جارہے ہیں۔ چین کے صحرا گوبی کو ڈرپ آبپاشی نظام کے ذریعے آباد کردیا گیا ہے۔ دنیا کے بعض ممالک سمندر کے پانی کو میٹھا کر کے انسانی استعمال کے لائق بنا کر وہاں کے باشندوں کو مہیا کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے نیرو بانسری بجانے میں مصروف ہیں ۔ انہیں کسی منصوبہ بندی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ عوام ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ لہٰذا نہ ہی کسی مطالعہ یا تحقیق کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ اندازہ کر سکیں کہ آئندہ چند برسوں میں سندھ کی کیا حالت ہو گی۔
اقوام متحدہ نے تبدیل شدہ حالات میں زندہ رہنے اور ترقی کے لئے 17 ہدف مقرر کئے تھے جس میں سنیٹیشن یعنی صحت اور صفائی ستھرائی چھٹے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ ان اہداف کی سندھ کے منتظمین کو فکر نہیں۔اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ذمہ داری صوبوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی صحت صفائی اور پینے کے پانی وغیرہ کی ضروریات کو دیکھیں۔ محکمہ منصوبہ بندی ابھی تک گہری نیند میں ہے۔ وہ اس پر سنجیدہ ہونے کے لئے تیار نہیں کہ دریائے کابل پر ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ 20 فیصد کم ہو جائے گا۔
سندھ کو حصے میں جو پانی دیا جاتا ہے اس میں سے 30 فیصد پانی پہلے ہی گم ہو جاتا ہے۔ محکمہ آبپاشی کی صورتحال یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی وزیر ہی مقرر نہیں۔ مزید انتظامی تدبر یہ ہے کہ صوبائی سیکریٹری بھی نان ٹیکنیکل افسر ہے۔ جس کو پانی کی انتظام کاری اور ریگیولیشن کا کوئی تجربہ نہیں۔ جب اس محکمے کو اس طرح سے چلایا جائے گا تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ آغاز میں موجود کاشتکاروں کو پانی ملے گا اور جو آخر میں ہونگے وہ پریشان ہونگے۔
واپڈا اور ارسا سے لیکر سیڈا تک 18 ادارے ہیں جو پانی کی انتظام کاری کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ لیکن پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے کوئی نظام مرتب نہیں ہو سکا۔ پرویز مشرف کے دور میں ٹیلی میٹری نظام قائم کیا گیا تاکہ دریائے بہاؤ کو سیٹلائیٹ کے ذریعے مانیٹر کیا جاسکے۔ اس کا انتظام واپڈا کے حوالے کیا گیا۔ لیکن یہ سسٹم بھی ناکام ہو گیا۔ سندھ کے حکمران صوبے کے لئے منصفانہ حصہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
سندھ کے منصوبے نظرانداز ہوتے رہے۔ دراوت اور گاج ڈیم بھی نہیں بن سکے۔ 15 سال سے رینی کینال کا منصوبہ بھی رولے کا شکار ہے۔ محکمہ
آبپاشی سیاسی بنیادوں پر چلایا جارہا ہے۔ سیڈا کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جارہا ہے۔ سیڈا کی کارکردگی دیکھ کر سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہ گاڑیاں کونسے سیارے پر چلتی ہیں؟ اگر سندھ میں چلتی تو یہاں کی آبپاشی کی حالت یقیننا بہتر ہوتی۔ تنخواہوں، دیگر مراعات اور وائیٹ ہاءؤس کی طرح تعمیر شدہ دفتر کو چھوڑ کر صرف گاڑیوں کے تیل کا بجٹ اگر لیا جائے ، اس سے ضلع کا ایک ہاسپیٹل چل سکتا ہے۔ سیڈا کا کام فارمرز آرگنائزیشن قائم کرکے ان کی تربیت کرنا اور کاشتکاروں کو غی ر ملکی دورے کرانا ہے۔ تاکہ وہ دوسرے ممالک میں مروجہ نظام سے واقف ہو سکیں۔
سندھ کے منتظمین تاحال واٹر پالیسی بھی نہیں بنا سکے ہیں۔ یہ پالیسی یقیننا دوسرے صوبوں سے مختلف ہوگی۔ کیونکہ اس صوبے کو زوال پزیر سندھو کے ڈیلٹا کو زندگی دینے کے لئے پانی چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے ٹھوس منصوبہ بندی کرکے سندھ کے پانی کا مضبوط مقدمہ تیار کیا جائے۔
روزنامہ عبرت لکھتا ے کہ سندھ اسمبلی نے پروفیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ منظور کیا ہے۔ اس بل کے تحت کام کرنے کے مقامات پر اتنظامات اور صحتمند ماحول رکھنا لازم ہوگا۔ کام کے مقامات مثلا کارخانے، دکان، شاپنگ مال، شادی ہال، وغیرہ میں حفاظتی انتظامات مکمل رکھنے پڑیں گے۔ نئے قانون کے مطابق سندھ اکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ کونسل قائم کی جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ کے محنت کشوں کے لئے یہ ایک اچھی خبر ہے کہ کام کرنے کے مقامات اور حالات کار کو محفوظ بنایا جارہا ہے۔ قانون بن جانا اچھی بات ہے۔ حکومت وقت پر لازم ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے، اور اس کا ایک ایسا مکینزم بنائے کہ محنت کش لوگ سکون سے کام کرسکیں۔
سندھ نامہ سہیل سانگی
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے شگر ملز وقت پر نہ چلانے اور گنے کی قیمت مقرر نہ کرنے کے خلاف سندھ میں تحریک جاری ہے۔ اب یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔ جہاں عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ کو 29 نومبر کو طلب کرلیا ہے۔ درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے گنے کی قیمت 180 روپے من مقرر کردی ہے لیکن سندھ حکومت اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کر پائی ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات سید ناصر شاہ کا کہنا ہے کہ کاشتکار ایک ہفتہ صبر کریں ۔انہیں مناسب دام دیئے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کی نااہلی کی وجہ سے چینی کے اسٹاک پڑے ہیں۔ جنہیں ایکسپورٹ نہیں کیا جاسکا ہے۔ سندھ کے اخبارات نے کاشتکاروں کے اس احتجاج اور مطالبات کے حق میں اداریئے لکھے۔ اخبارات نے فیض آباد کے دھرنے کو بھی موضوع بنایا ہے اور کہا ہے کہ ریاست کی رٹ کو تماشہ نہ بنایا جائے۔ ان دو مسائل پر سندھ کے اخبارات کی متفقہ رائے ہے۔
’’حکومت کو سندھ کے کاشتکاروں کا احتجاج نظر نہیں آتا ‘‘کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے کاشتکار سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ روز گمبٹ کے قریب قومی شاہراہ پرکاشتکاروں نے دھرنا دیا۔ اس دھرنے میں کاشتکاروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ ایک طرف اشیائے صرف و خوردنی کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے جس کو حکومت روکنے میں ناکام رہی ہے۔
دوسری جانب جب بھی کوئی زرعی جنس اترتی ہے تو تاجر مافیا اس کی قیمتیں گرا دیتی ہے اور محنت مزدوری سے پیدا کی گئی فصل کا معاوضہ اس کی لاگت کے برابر بھی نہیں ملتا۔ زرعی اجناس کی صحیح قیمتیں نہ ملنے کی وجہ سے کسان اور چھوٹا کاشتکار مفلس ہو گیا ہے۔ سندھ کی اکثریتی دیہی آبادی کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ جو مسلسل بحران کا شکار ہے۔ صوبے کی حکمران جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ اس کی پالیسیاں دراصل اپنے ہی ووٹر کو مزید غریب کر رہی ہیں۔
’’روزنامہ کاوش ‘‘نے موسمی تبدیلیوں کے پس منظر میں سندھ میں پانی کی قلت کا معاملہ اٹھایا ہے ۔ یہ ایک نیا پہلو ہے۔ اس ضمن میں سندھ حکومت کی لاتعلقی پر تنقید کی ہے۔
اخبار ’’سندھ کے پانی کا مقدمہ اور ہمارا نیرو‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں پر ایک ہنگامہ بپا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں انسان کی زندگی و بقا اور ماحولیاتی سے مطابقت اور نئے ماحول میں زندہ رہنے کے طریقے تلاش کئے جارہے ہیں۔ چین کے صحرا گوبی کو ڈرپ آبپاشی نظام کے ذریعے آباد کردیا گیا ہے۔ دنیا کے بعض ممالک سمندر کے پانی کو میٹھا کر کے انسانی استعمال کے لائق بنا کر وہاں کے باشندوں کو مہیا کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے نیرو بانسری بجانے میں مصروف ہیں ۔ انہیں کسی منصوبہ بندی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیونکہ عوام ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ لہٰذا نہ ہی کسی مطالعہ یا تحقیق کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ اندازہ کر سکیں کہ آئندہ چند برسوں میں سندھ کی کیا حالت ہو گی۔
اقوام متحدہ نے تبدیل شدہ حالات میں زندہ رہنے اور ترقی کے لئے 17 ہدف مقرر کئے تھے جس میں سنیٹیشن یعنی صحت اور صفائی ستھرائی چھٹے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کے مقرر کردہ ان اہداف کی سندھ کے منتظمین کو فکر نہیں۔اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ ذمہ داری صوبوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی صحت صفائی اور پینے کے پانی وغیرہ کی ضروریات کو دیکھیں۔ محکمہ منصوبہ بندی ابھی تک گہری نیند میں ہے۔ وہ اس پر سنجیدہ ہونے کے لئے تیار نہیں کہ دریائے کابل پر ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ 20 فیصد کم ہو جائے گا۔
سندھ کو حصے میں جو پانی دیا جاتا ہے اس میں سے 30 فیصد پانی پہلے ہی گم ہو جاتا ہے۔ محکمہ آبپاشی کی صورتحال یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی وزیر ہی مقرر نہیں۔ مزید انتظامی تدبر یہ ہے کہ صوبائی سیکریٹری بھی نان ٹیکنیکل افسر ہے۔ جس کو پانی کی انتظام کاری اور ریگیولیشن کا کوئی تجربہ نہیں۔ جب اس محکمے کو اس طرح سے چلایا جائے گا تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ آغاز میں موجود کاشتکاروں کو پانی ملے گا اور جو آخر میں ہونگے وہ پریشان ہونگے۔
واپڈا اور ارسا سے لیکر سیڈا تک 18 ادارے ہیں جو پانی کی انتظام کاری کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ لیکن پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے کوئی نظام مرتب نہیں ہو سکا۔ پرویز مشرف کے دور میں ٹیلی میٹری نظام قائم کیا گیا تاکہ دریائے بہاؤ کو سیٹلائیٹ کے ذریعے مانیٹر کیا جاسکے۔ اس کا انتظام واپڈا کے حوالے کیا گیا۔ لیکن یہ سسٹم بھی ناکام ہو گیا۔ سندھ کے حکمران صوبے کے لئے منصفانہ حصہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
سندھ کے منصوبے نظرانداز ہوتے رہے۔ دراوت اور گاج ڈیم بھی نہیں بن سکے۔ 15 سال سے رینی کینال کا منصوبہ بھی رولے کا شکار ہے۔ محکمہ
آبپاشی سیاسی بنیادوں پر چلایا جارہا ہے۔ سیڈا کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جارہا ہے۔ سیڈا کی کارکردگی دیکھ کر سوال کیا جاسکتا ہے کہ یہ گاڑیاں کونسے سیارے پر چلتی ہیں؟ اگر سندھ میں چلتی تو یہاں کی آبپاشی کی حالت یقیننا بہتر ہوتی۔ تنخواہوں، دیگر مراعات اور وائیٹ ہاءؤس کی طرح تعمیر شدہ دفتر کو چھوڑ کر صرف گاڑیوں کے تیل کا بجٹ اگر لیا جائے ، اس سے ضلع کا ایک ہاسپیٹل چل سکتا ہے۔ سیڈا کا کام فارمرز آرگنائزیشن قائم کرکے ان کی تربیت کرنا اور کاشتکاروں کو غی ر ملکی دورے کرانا ہے۔ تاکہ وہ دوسرے ممالک میں مروجہ نظام سے واقف ہو سکیں۔
سندھ کے منتظمین تاحال واٹر پالیسی بھی نہیں بنا سکے ہیں۔ یہ پالیسی یقیننا دوسرے صوبوں سے مختلف ہوگی۔ کیونکہ اس صوبے کو زوال پزیر سندھو کے ڈیلٹا کو زندگی دینے کے لئے پانی چاہئے۔ ضرورت اس امر کی ہے ٹھوس منصوبہ بندی کرکے سندھ کے پانی کا مضبوط مقدمہ تیار کیا جائے۔
روزنامہ عبرت لکھتا ے کہ سندھ اسمبلی نے پروفیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ منظور کیا ہے۔ اس بل کے تحت کام کرنے کے مقامات پر اتنظامات اور صحتمند ماحول رکھنا لازم ہوگا۔ کام کے مقامات مثلا کارخانے، دکان، شاپنگ مال، شادی ہال، وغیرہ میں حفاظتی انتظامات مکمل رکھنے پڑیں گے۔ نئے قانون کے مطابق سندھ اکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ کونسل قائم کی جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ کے محنت کشوں کے لئے یہ ایک اچھی خبر ہے کہ کام کرنے کے مقامات اور حالات کار کو محفوظ بنایا جارہا ہے۔ قانون بن جانا اچھی بات ہے۔ حکومت وقت پر لازم ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے، اور اس کا ایک ایسا مکینزم بنائے کہ محنت کش لوگ سکون سے کام کرسکیں۔
Sindh Nama, Sindhi Press
http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/52532/Sohail-Sangi/Peoples-Party-Apne-Hi-Voter-Ko-Ghareeb-Kar-Rahi-Hai.aspx
http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/25-11-2017/details.aspx?id=p13_03.jpg