Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت کیوں ؟
برمیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے پر سندھ کے خدشات
سندھ نامہ سہیل سانگی
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ اگرچہ محکمہ شماریات کے سربراہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ مردم شماری کے نتائج پر سندھ کے تحفظات دور کئے جائیں گے۔ لیکن تاحال اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ابھی یہ تنازع نمٹ نہیں سکا تھا کہ وفاقی حکومت نے آئین میں ترمیم کر کے کراچی میں غیر قانونی طور پر مقیم برمیوں، بنگالیوں اور بہاریوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی حکومت کے اس منصوبے نے سندھ کی ڈیموگرافی میں نابرابری پیدا ہونے کا خوف پیدا کردیا ہے۔
سنیٹ میں نواز لیگ اور ایم کیو ایم کے سنیٹرز نے ایک تحریک جمع کرائی ہے جس پر پالیسی بیان دیتے ہوئے امور داخلہ کے مملکتی وزیر طلال چوہدری نے کہا کہ گورنر سندھ نے برمیوں اور بنگالیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے معاملے پر بات کی ہے۔ حکومت نے اس مقصد کے لئے کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔
آج کل نواز لیگ کی سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ نیا رومانس چل رہا ہے۔ اس قربت کے عوض شیاد نواز لیگ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہو۔ لیکن اس سے قبل پیپلزپارٹی کے سنیٹر مرتضیٰ وہاب بھی ایم کیو ایم کی نسرین جلیل اور نواز لیگ کے طلال چوہدری جیسا موقف دے چکے ہیں۔
آج کل نواز لیگ کی سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ نیا رومانس چل رہا ہے۔ اس قربت کے عوض شیاد نواز لیگ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہو۔ لیکن اس سے قبل پیپلزپارٹی کے سنیٹر مرتضیٰ وہاب بھی ایم کیو ایم کی نسرین جلیل اور نواز لیگ کے طلال چوہدری جیسا موقف دے چکے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب نے کہا تھا کہ میانمار میں برمی مسلمانوں پر مظالم کے خلاف ہم آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن جو برمی پاکستان میں رہ رہے ہیں انہیں حقوق نہیں مل رہے ہیں۔ یہاں حقوق سے پیپلز پارٹی کے سنیٹر کی مراد انہیں سندھ کے رہائشی کے طور پر قومی شناختی کارڈ جاری کرنا ہے۔ ایسا ہی ایک بیان پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھڑو بھی دے چکے ہیں۔
برمیوں، بنگالیوں اور بہاریوں کو قومی شناختی کارڈ کے اجراء کے لئے پہلے پیپلزپارٹی نے رائے عامہ بنائی۔ اب اس رائے عامہ کی بنیاد پر ایم کیو ایم اور نواز لیگ نے آئین میں ترمیم کے لئے سنیٹ میں تحریک پیش کی ہے۔
برمیوں، بنگالیوں اور بہاریوں کو قومی شناختی کارڈ کے اجراء کے لئے پہلے پیپلزپارٹی نے رائے عامہ بنائی۔ اب اس رائے عامہ کی بنیاد پر ایم کیو ایم اور نواز لیگ نے آئین میں ترمیم کے لئے سنیٹ میں تحریک پیش کی ہے۔
سیاسی جماعتیں سندھ اور خاص طور پر اس کے صوبائی دارالحکومت میں اپنے سیاسی بقا کے لئے مختلف ادوار میں اس طرح کے حساس مسائل پر تحریکیں لاتی رہی ہیں۔ اب نواز لیگ اور ایم کیو ایم نے مشترکہ طور پر یہ تحریک پیش کی ہے، سندھ کے حقوق کی دعویدار صوبے کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی بھی اسی طرح کا اظہار کر چکی ہے۔ ان سب کو سندھ کے صوبائی داالحکومت میں غیر قانونی طور پر مقیم ان تارکین وطن کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کا معاملہ یاد آیا ہے۔
ان سب کی یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ کراچی میں غیر قانونی طور رہائش پذیر ان افراد کی منفی سرگرمیوں کے نتائج نہ صرف کراچی بلکہ پورا ملک بھگت چکا ہے۔ ملک میں دہشتگردی کی جو لہر چل رہی ہے اس کو روکنے کے لئے غیر قانونی طور پر مقیم ان برمیوں، بہاریوں اور بنگالیوں کو فی الحال کیمپوں میں منتقل کر کے ، انہیں واپس اپنے اپنے ملک بھیجنے کے انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ جس صوبے کے پرانے اور حقیقی باشندوں کو حالیہ مردم شماری پر خدشات ہوں، انہیں اقلیت میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہو، وہاں ھکومت منظم طور پر قانون سازی کر کے آئین میں ترمیم کرنے جارہی ہے۔ اس اقدام سے صوبے اور وفاق کے درمیان مزید دوریاں بڑہیں گی، بہتر ہے کہ حکومت آئین میں ایسی کوئی متنازع ترمیم نہ کرے ۔ جس کے سندھ اور وفاق پر منفی اثرات مرتب ہوں۔
یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ جس صوبے کے پرانے اور حقیقی باشندوں کو حالیہ مردم شماری پر خدشات ہوں، انہیں اقلیت میں تبدیل ہونے کا خطرہ ہو، وہاں ھکومت منظم طور پر قانون سازی کر کے آئین میں ترمیم کرنے جارہی ہے۔ اس اقدام سے صوبے اور وفاق کے درمیان مزید دوریاں بڑہیں گی، بہتر ہے کہ حکومت آئین میں ایسی کوئی متنازع ترمیم نہ کرے ۔ جس کے سندھ اور وفاق پر منفی اثرات مرتب ہوں۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’سندھ کی تعلیم میں کیا بدلاؤ آیا؟ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ گزشتہ دس سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے۔ صوبے میں اسکول مویشیوں کے باڑے، وڈیروں کی اوطاق، یا گودام بنے ہوئے ہیں۔ بعض صورتوں میں سرزمین پر اسکول ہی موجود نہیں۔ یہ سندھ حکومت کی بڑی ناکامی ہے جس کا اعتراف وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ گزشتہ روز ان الفاظ میں کر چکے ہیں کہ لاکھوں بچوں کا اسکول سے باہر ہونا ہماری ناکامی ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ناکامی کے اعتراف کے بعد بھی صورتحال کو بہتر بنانے میں حکومت سنجیدہ نہیں۔ لالو رینک کے گاؤں ورند ماچھی مین بوائز پرائمری اسکول باڑے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ استاد گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ناکامی کے اعتراف کے بعد بھی صورتحال کو بہتر بنانے میں حکومت سنجیدہ نہیں۔ لالو رینک کے گاؤں ورند ماچھی مین بوائز پرائمری اسکول باڑے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ استاد گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔
گاؤں والوں نے محکمہ تعلیم کے افسران کو خط لکھے، احتجاجی مظاہرے کئے ۔ لیکن کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ یہ صورتحال مکمل تباہی کی نشاندہی کرتی ہے۔ کسی بہتر معاشرے میں اگر ایسا واقعہ رپورٹ ہوتا تو تہلکہ مچ جاتا۔ لیکن یہاں پر کسی چھوٹے افسر کو بھی پروہ نہیں۔
حکومتی دعوؤں کے پیش نظر اس اسکول کے بارے میں رپورٹ آنے پر وزیر تعلیم کو مستعفی ہو جاچاہئے تھا۔ لیکن ہمارا وزیر تعلیم سرخ قالین پر چلتا ہے اور تقاریر کرکے کے ہم سب کو تعلیم بہتر کرنے کے بھاشن دیتا ہے۔ میڈیا مسلسل بااثر افراد کے زیر قبضہ اسکولوں کی نشاندہی کرتا رہا ہے۔
حکومتی دعوؤں کے پیش نظر اس اسکول کے بارے میں رپورٹ آنے پر وزیر تعلیم کو مستعفی ہو جاچاہئے تھا۔ لیکن ہمارا وزیر تعلیم سرخ قالین پر چلتا ہے اور تقاریر کرکے کے ہم سب کو تعلیم بہتر کرنے کے بھاشن دیتا ہے۔ میڈیا مسلسل بااثر افراد کے زیر قبضہ اسکولوں کی نشاندہی کرتا رہا ہے۔
تعلیم کو بتاہ کر کے حکمرانوں نے سندھی قوم کی بربادی کی بنیادیں رکھ دی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے بموں اور میزائیلوں کی ضرورت نہیں۔ اس قوم کو اپاہج کرنے کے لئے اس کی تعلیم تباہ کردو۔ ہمارے ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ حکمران اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں نہیں پڑھاتے۔ لہٰذا نہ ان کو کوئی نقصان ہے اور نہ ہی ضمیر پر بوجھ۔ تعلیمی اداروں میں کرپشن کی انتہا ہے۔ جہاں ضلع اور تحصیل سطح کے افسران ان اداروں کے فنڈ ہضم کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تھصیل، ضلع اور ڈویزن سطح کے افسران کا بلا امتیازاحتساب کیا جائے۔
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں آئی جی سندھ پولیس اے ڈی کواجہ کا تبادلہ کر کے عبدالمجید دستی کو سندھ کا نیا پولیس سربراہ مقرر کرنے کی سفارش وفاقی حکومت کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کابینہ کے اجلاس میں صوبائی پولیس سربراہ اے ڈی کواجہ کو اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔
اے ڈی خواجہ نے یہ موقف رکھا کہ انہیں صوبے اور وفاق کی مشترکہ مرضی سے آئی جی سندھ مقرر کیا گیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ اس عہدے پر ماضی میں 14 پولیس افسران فائز رہ چکے ہیں۔ اور یہ عہدہ گریڈ 21 اور 22 دونوں کے لئے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ فیصلہ کرنے کا آپ کو اختیار ہے لیکن یہ فیصلہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اور یہ بھی یاد رکھا جائے گا کہ ایک ایسے آئی جی پولیس کو ہٹا دیا گیا جس پر کوئی سنجیدہ الزام نہیں تھا۔ نہیں پتہ کہ اے ڈی خواجہ کے اس موقف پر اجلاس کے شرکاء کے دل پر کوئی اثر ہوا یا نہیں، لیکن عوام ان کے اس موقف کو ضرور یاد رکھیں گے۔
پولیس منفی کردار کی وجہ سے بدنام رہی ہے۔ ابھی بھی کلی طور پر یہ کردار تبدیل نہیں ہوا۔ لیکن اے ڈی خواجہ نے بعض اہم اصلاحات ضرور کی۔ جس کے بعد متاثرہ لوگ اپنی شکایات پولیس کے پاس لے جانے لگے تھے۔ یوں اس اہم محکمہ پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو رہا تھا۔ سندھ کے عوام اے ڈی خواجہ کو اسی عہدے پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ سندھ حکومت نے عوام کے ان جذبات کو نہیں سمجھا وہ وفاق سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔
Nai Baat Nov 4, 2017 Sindh Nama - Sindhi Press --- Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment