Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
Nov 18, 2017
یہ ہے حکومت سندھ کی کارکردگی!
Nov 18, 2017
یہ ہے حکومت سندھ کی کارکردگی!
سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو دس سال مکمل ہونے کو ہیں۔ سندھ کے اخبارات اس س حساس صوبے میں حکومت کی کارکردگی اور پالیسیوں کا جائزہ لییتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اخبارات کی نظر میں سندھ کی دیہی آبادی بھی حکومتی پالیسیوں اور طرز حکومت سے مطمئن نہیں۔ دیہی آبادی کا اہم شعبہ زراعت بھی زوال پذیر ہے۔
”روزنامہ کاوش“ نے ” سندھ میں شگر کین بیلٹ کو تباہ نہ کریں“ کے عنوان سے ادارایہ لکھا ہے کہ شگر ملز شروع نہ ہونے اور گنے کی قیمت مقرر نہ ہونے کے خلاف سندھ میں کاشتکاروں کا احتجاج جاری ہے۔ ” باغ تو سارا جانے“لیکن سندھ کے حکمرانوں کو یہ احتجاج نظر نہیں آتا۔ منتظمین مسئلے کو حل کرنے کے برعکس اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ماسکو مزید الجھا رہے ہیں۔ سندھ میں گنے کی پسائی اکتوبر کے آغاز میں شروع ہونی ہے۔ لیکن حکمران نومبر کے وسط تک شگر ملز شروع کرانے سے عاجز نظر آتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں قرار داد کی منظوری کو روکنے کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
سندھ اسمبلی نے گنے کی پسائی میں تاخیر اور گنے کی قیمت کے بارے میں تحریک التوا مسترد کرتے ہوئے صرف شگر ملز جلدی شروع کرنے کی ترمیم کے ساتھ قرارداد منظور کی ہے۔ تحریک التوا پر اظہار خیال کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر نثار کھڑو نے کہا کہ ضروری نہیں کہ شگر ملز اکتوبر کے اوائل میں شروع ہوں۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ گنے کی دیر سے کٹائی سے گندم اور دیگر فصلیں متاثر ہونے کا تاثر بھی درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پانچ سندھی، اردو، اور انگریزی اخبارات پڑھتے ہیں انہیں کہیں بھی کاشتکاروں کی احتجا جی تحریک نظر نہیں آئی۔
سندھ زرعی صوبہ ہے۔ سندھ کو پانی کا منصفانہ حصہ ملنا، اور بعد میں محکمہ آبپاشی کی غلط انتظام کاری کی وجہ سے خطرات پیش ہیں۔ ان میں سے ایک خطرہ سندھ حکومت کی زراعت سے متعلق غلط پالیسی بھی ہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سندھ کا شگر کین بیلٹ تباہ ہورہا ہے۔ ہر سال شگر ملیں وقت پر نہیں چلائی جاتی۔ کاشتکاروں کا احتجاج بھی حکمرانوں کے رویے میں تبدیلی نہیں لا رہا ہے۔ سندھ شگر کین ایکٹ اور سندھ فیکٹریز ایکٹ بظاہر نافذالعمل ہیں۔ لیکن شگر ملز مالکان وقت پر ملیں چلانے کے لئے تیار نہیں۔ بلکہ اس ضمن میں سندھ اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد، جو کہ مجموعی طور پر سندھ کی زراعت اور یہاں کے عوام کے فائدے میں ہے، اس کو روکنے کے لئے حکمران جامعت تمام طریقے استعمال کر رہی ہے۔
جو کام حکومت کے حصے کا ہے وہ نہیں کیا جاتارہا ہے۔ گنے کی قیمت مقرر کرنا اور وقت پر شگر ملیں شروع کرانا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ ہوتا یہ رہا ہے کہ حکومت پہلے مل مالکان کا دفاع کرتی رہتی ہے۔ جب احتجاج بڑھ جاتا ہے تو مل مالکان کی منت سماجت کرتی نظر آتی ہے کہ ” اچھے بچے بنو، ایسا نہ کرو“۔ رواں سیزن میں حزب اختلاف کو سندھ اسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد پیش کرنے نہیں دی گئی۔ اور ترمیمی قرارداد پیش کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ جلد شگر ملیں شروع کی جائیں۔ قراداد کے متن میں جلد لفظ موجود ہے لیکن کسی معینہ مدت کا ذکر نہیں۔ چلیں یہ بھی مان لیےتے ہیں۔
سندھ کا منتخب ایوان سمجھتا ہے کہ گنے کی پسائی میں دیر ہوئی لہٰذا قرارداد میں لفظ ” جلد“ ڈالا گیا ہے۔ جہاں تک پارلیمانی امور کے وزیر نثار کھڑو کی منطق کا تعلق ہے کہ گنے کی دیتر سے کٹائی سے گندم یا دوسری فصلوں کو نقصان کا احتما ل نہیں۔ یہ عجیب منطق ہے کیونکہ اجب گنے کی کٹاءہوگی اور زمیں صاف ہوگی تب ہی گندم بوئی جائے گی۔ دیر سے گنے کی کٹائی کے نتیجے میں نہ صرف زمین فارغ نہیں ہوگی بلکہ کھڑی ہوئی گنے کی فصل کو گندم کے حصے کا پانی بھی دیا جاتا رہے گا۔ میڈیا پہلے بھی اس امر کی نشاندہی کرتا رہا ہے کہ دیر سے گنے کی کٹائی کی وجہ سے گنا خزک ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے اس کا وزن بھی کم ہونے لگتا ہے۔ جس کا نقصان کاشتکار کو اٹھانا پڑتا ہے۔
گنے فصل پنجاب میں بھی ہوتی ہے۔ لیکن وہاں پر کاشتکاروں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوتا۔ وہاں حکومت کاشتکاروں کو مل مالکان اور پاسما کے رحم کرم پر نہیں چھوڑتی۔ جہاں تک ویزر موصوف کو کاشتکاروں کا احتجاج نظر نہ آنے کا معاملہ ہے، وہ تو ” میں نہ مانوں“ کا معاملہ ہے۔ حکومت گنے کی قیمت دیر سے شروع کرتی ہے تب تک گنا سوکھ جاتا ہے۔ کاشتکار کو گنے کی لاگت تو دور کی بات اس کی کٹائی بھی مہنگی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی کاشتکار کھڑی ہوئی فصل جلا دیتے ہیں۔ سندھ میں جلانے کی لکڑئی بھی تقریبا 400 روپے من ہے۔ کاشتکاروں کو گنے کی قیمت لکڑی کے دام کے نصف برابر ملتی ہے۔
ضروت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر گنے کی قیمت مقرر کر کے شگر ملیں شروع کی جائیں اور آئندہ کے لئے ایک مستقل فریم ورک مرتب کیا جائے، تاکہ وقت پر گنے کی قیمتیں مقرر ہوں اور شگر ملین بھی وقت پر شروع ہوں۔ ایسا کرنے سے کاشتکار فصلیں بونے کا ایک مکمل ژیدیول بنا سکیں گے۔ اور زراعت ایک سسٹم کے تحت چلنا شروع ہو جائے۔
”یہ ہے حکومت سندھ کی کارکردگی! “ کے عنوان سے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ سندھ کے مختلف اداروں کی کارکردگی اور عوامی مسائل کا جو خاکہ روز پیش ہو رہا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر باشعور شخص کے پاس ایک ہی سوال ہے کہ کیا سندھ میں بہتر حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا؟ صرف گزشتہ ایک روز کی خبریں برعکس تصویر پیش کرتی ہیں۔ جس میں سندھ کے عوام کرب سے گزر رہے ہیں۔
صرف ایک نقطہ میرٹ کو ہی لے لیجیئے جس کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ سندھ ہائی کورٹ نے این ٹی ایس ٹیسٹ کیس میں ایک امیدوار کی درخواست کی سماعت کے دوران ریماکرس دیئے ہیں۔ کہ سرکاری اداروں میں جاہلوں کو بھرتی کیا جا رہاہے اور پڑھے لکھے محنتی افراد کو نظر انداز کر کے کئی مسائل کھڑے کئے جارہے ہیں۔ تعلیم کا معالہ بھی کچھ ایسا ہے۔ جس کے بارے میں حکومت کا دعوا ہے کہ معیار تعلیم بہتر بنانے کے لئے ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ اس ایمرجنسی کے نتائج یہ ہیں کہ صوبے کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں 76 اسکول بند آج بھی ہیں۔
تعلیم کے بعد صحت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس میں محکمہ صحت کی کارکردگی یہ ہے کہ سانگھڑ سول ہسپتال کی ادویات چھ ماہ تک ٹرک اڈے پر پڑی رہی۔ انتظامیہ کی نااہلی کے باعث لاکھوں روپے کی یہ دوائیں مستحق مریضوں تک پہنچنے کے بجائے پڑے پڑے خراب ہو گئیں۔ ٹرک اڈے کے مالکان کا کہنا ہے کہ کئی مرتبہ متعلقہ حکام کو اطلاع دی گئی کہ دوائیں وصول کر لی جائیں۔ لیکن کسی بھی سرکاری اہلکار نے زحمت نہیں کی۔
پولیس جس کا عوام زندگی سے روز کا واسطہ ہے۔ اس کے مظالم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ خبر ہے کہ گھوٹکی کے تھانہ کھینجو کی حدود میں ایک پولیس اہلکار نے مفت سگریٹ نہ دینے پر ایک کیبن والے کو زدوکوب کرنے کے بعد لاک اپ میں بند کردیا۔ شکایت کرنے پر پولیس اس کے کیبن اور گھر کا تمام سامان اٹھا کر لے گئی۔ انہیں بغیر جرم کے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ بعد میں ےیس ہزار روپے رشوت نہ دینے پر اس کو چرس رکھنے کے جھوٹے مقدمے میں ملوث کر نے کی دھمکی دیتے رہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو دس سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ ہے اس پارٹی کی حکومت کی کارکردگی جس نے سندھ سے اکثریت میں ووٹ ھاصل کئے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ حکومت پر لازم ہے کہ وہ ان خبروں کی روشنی میں اپنی اس کارکردگی کا عکس دیکھے جس کے لئے اس کا دعوا ہے کہ وہ بہتر ہورہی ہے۔ کاش سندھ حکومت کو اپنی ساکھ کا تھوڑا سا لھاظ ہوتا، تو وہ یقیننا اپنا احتساب کرتی۔
Sindh Nama, Sindhi Press
Sindh Nama Nai Baat Nov 18, 2017
Sohail Sangi
Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media
سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا
No comments:
Post a Comment