Friday, April 27, 2018

Sindh Nama انتظامی بے حسی کی انتہا اور سندھ

April 20, 2018 
 سندھ نامہ سہیل سانگی 
 سملم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کا دورہ سندھ میاں نواز شریف کی لندن روانگی، مجوزہ نگراں حکومت کا قیام ، غیر قانونی تارکین وطن کو قومی شناختی کارڈ اور پاکستانی شہریت کے اجراء اور اس کے خلاف احتجاج کے معاملات سندھی اخبارات کا موضوع رہے۔ 
احتجاج کرنے والوں نے نادرا کے چیئرمین کی یہ وجاحت مسترد کر دی ہے کہ ” کسی غیر ملکی کو قومی شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جارہا ہے“۔ ان کا کہنا ہے کہ پالیسی اور طریقہ کار ایسا رکھا گیا ہے جس میں غیر ملکیوں کو کارڈ جاری کئے جارہے ہیں۔ اخبارات کا مطالبہ ہے کہ اس ضمن میں حکومت واضح پالیسی کا اعلان کرے۔ 
ادھر حکومت سندھ نے نئے مالی سال کے بجٹ میں کوئی نیا منصوبہ شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا نئے سال کا پورا بجٹ جاری منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ ایم پی ایز کو جاری ہونے والے چار چار کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈ بھی روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 
یہ بھی پتہ چلا ہے کہ شہروں کو دیئے جانے والے خصوصی پیکیج نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت سندھ گزشتہ تین سال سے صوبے میں ہزاروں کی تعداد میں ملازمتیں دینے کا اعلان کرتی رہی، لیکن تاحال اس پر عمل نہیں کر سکی ہے۔ حالیہ فیصلے کے مطبق این ٹی ایس اور سندھ یونیورسٹی کے ذریعے ٹیسٹ کے بعد بھرتی ہونے والے کانٹریٹ اساتذہ کو مستقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت 21500 اساتذہ کی ملازمت مسقتل ہو جائے گی۔ صوبے کے محکمہ بلدیات کے چار افسران کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کی گرففتاری پہلے سے جاری تفتیش کے سلسلے میں ہوئی ہے۔

انتظامی بے حسی کی انتہا 
 روز نامہ کاوش ” انتظامی بے حسی کی انتہا اور سندھ “ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ میں انتظامی بے حسی نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے ۔ منتظمین کی انتظامی ذمہ داریوں سے لاتعلقی کے باعث مسائل انتہائی گمبھیر ہو گئے ہیں۔ امن و امان کا مسئلہ ہو یا صحت اور تعلیم کا، یا عوام کے لئے شہری سہولیات کہیں بھی حکومت کی سنجیدگی نظر نہیں آتی۔ سندھ کئی ماہ سے خسرے کے مرض کا مسکن بنا ہوا ہے۔ درجنوں بچوں کی زندگی چلی گئی۔ محکمہ صحت اتنا بیمار ہے کہ اپنے قائم رہنے کے وجود کا جواز کھو چکا ہے۔ لگتا ہے کہ ملکی آبادی کم کرنے کے مشن پر کام کر رہا ہے۔ 
سندھ میں لوگوں کو ایک طرف صحت اور صفائی کی سہولیات کی بنیادی سہولیات میسر نہیں، اور اس انتظامی نااہلی کے نتیجے میں جو لوگ بیمار ہو جاتے ہیں انہیں علاج معالجے کی سہولیات حاصل نہیں۔ صوبے میں خطرناک امراض سے تحفظ کے لئے جاری ویکسین پروگرام پر بھی ٹھیک سے عمل نہیں ہو رہا ۔ جس کی وجہ سے کئی معصوم بچوں کی زندگی کا چراغ وقت سے پہلے بجھ رہا ہے۔ یہ دکھ بھی منتظمین کی آنکھوں میں پانی نہیں لا رہا۔ اس سے ناتظامیہ کی بے حسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ صورتحال چند روز میں پیدا نہیں ہوئی۔ سندھ کے عوام نے ایک پورا عشرہ انتظامی بے حسی کا گزارا ہے ۔ تھر میں غذائی قلت، اور مختلف امراض کے باعث معصوم بچے کی اموات کا سلسلہ تاحال جاری تھا کہ یہاں بھی خسرہ پھیل گیاہے۔ لیکن محکمہ صحت جس کی باگ دوڑ دو ڈاکٹروں ( وزیر اور سیکریٹری) کے پاس ہونے کے باوجود یہ محکمہ اپنی صحت کا متقاضی بنا رہا۔ وزیر صحت کے سینیٹر بننے کے بعد اب یہ محکمہ بغیر وزر کے چل رہا ہے۔ اس محکمہ کا قلمدان اب وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس ہے۔ موصوف کے پاس پہلے ہی کئی محکموں کا قلمدان ہونے کی وجہ سے صحت کے قملدان کا بوجھ بھی ان پر آ گیا ہے۔ اس اہم محکمہ کا قلمدان کسی کو نہ دینے کی وجہ شاید یہ ہے کہ اب انتخابات ہونے والے ہیں، اس مختصر مدت کے لئے کیس کو وزارت کیوں دی جائے لہٰذا اس محکمہ میں انتظامی افراتفری عروج پر ہے۔ صرف یہ نہیں کاچھو کے علاقے میں بچے خواہ کواتین اور مرد خطرناک امراج میں مبتلا ہیں، جس کے لئے اسلام آباد سے ویکسین کرانے کے مشورے دیئے جارہے ہیں۔ سندھ میں غربت کی حالت یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں کر پارہے ہیں۔انہیں اسلام آباد سے ویکسین کرانے کے مشورے دینا کسی طنز سے کم نہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے خطرناک وائرس خود محکمہ صحت کو لگا ہوا ہے۔ جو بچوں کے معمولی امراض کا علاج کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتا۔ آج کے سائنس، ٹیکنالاجی کے دور میں ٹیمیں بھیج کر، اور ویکسین کر کے امراض سے بچا جاسکتا ہے اور ان کا وقت پر موثر طریقے سے علاج بھی کیا جاسکتا ہے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کام کے لئے بہتر انتظام کاری اور فیصلے اور عمل کرنے کی نیت بھی ہو۔
نواب شاہ کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی دیں
روزنامہ سندھ ایکسپریس ” نواب شاہ کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی دیں“ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ نواب شاہ جو اب شہید بینظیر آباد سے پہچانا جاتا ہے، وہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا آبائی شہر بھی ہے۔ اس شہر کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں آج بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ایک خبر کے مطابق گزشتہ ایک ماہ سے شہر میں پینے کے پانی کی قلت ہے۔ فلٹر پلانت کام بے مقصد بن گیا ہے۔ ایک ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا فلٹر پلانٹ پانچ سال گزرنے کے باوجود مطلوبہ پانی فراہم نہیں کر سکا ۔ مالی طور پر بہتر لوگ پانی خرید کر کے استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ غریب لوگ سنکھیئے والا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ واٹر کمیشن صوبے بھر کے شہروں میں پینے کے پانی کی رسد کا جائزہ لے رہاہے۔ اس صورتحال میں نواب شاہ کے رہائشی ایک ماہ سے پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ پینے کے پانی کی فراہمی مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ہمارے پاس نہ مقامی سطح پر اور نہ صوبائی سطح پر فرض نبھانے کی روایت ہے ، ایسے میں اس شہر کے لاکھوں کوگ اس بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ یہ ذمہ داری یہاں کے منتخب نمائندوں کی بھی ہے کہ وہ اس سنگین صورتحال کا نوٹس لیں اور شہر میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ 

No comments:

Post a Comment