الیکشن 2018 کے نئے رجحانات
میرے دل میرے مسافر سہیل سانگی
پچیس جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات میں بعض نئے رجحانات سامنے آئے ہیں۔جو ایک سیاسی، سماجی، ٹیکنولاجی اورا دارتی حوالے سے نئی صورتحال کا اظہار ہیں۔ درج ذیل صرف اب تک کے رجحانات ہیں۔ جبکہ باقاعدگی سے انتخابی مہم کا آغاز ہونا اور پولنگ کے مراحل باقی ہیں۔ان انتخابات کے پس منظر میں تین باتیں صاف طور پر ابھر کر سمنے آئی ہیں۔ ایک یہ کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے یا ملتوی ہوجائیں گے۔ یہ التوا چند ہفتے کا بھی ہو سکتا ہے اور چندماہ کا بھی۔ انتخابات ہونے کی صورت میں آکر وقت تک غیر یقینی صورتحال کے بادل چھائے رہیں گے۔ یعنی غیر یقینی صورتحال میں ہی انتخابات ہونگے۔
پس منظر میں دوسری بات یہ ہے کہ انتخابی مہم مختصر اور دھوم دھڑاکے والی نہیں ہوگی۔ بڑی حد تک گونگی مہم ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کو بڑے جلسے کرنے یا عام رائے کو سرگرم کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ خیال ہے کہ یہ اس وجہ سے کیا جارہا ہے کہ ملک ایک تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اگر مندرجہ بالا دو چیزیں ہونے لگتی ہیں تو اسٹیٹسکو نہیں رہتا۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہر جماعت سمجھتی ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوگی ۔ وہ ہر صورت میں اپنی پسند کے نتائج چاہتی ہے۔ اکثر سیاسی جماعتوں کے نزدیک صرف وہی انتخابات ’’ آذادانہ ‘‘ قرار پائیں گے جس میں ان کے شیئر کو یقینی بنایا ہوا ہوگا۔
ان بنیادی مظاہر کے علاوہ کچھ اور زمینی حقائق بھی سامنے آئے ہیں۔ صاف ظاہر ہوا کہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں امیدواروں کوٹکٹ کے اجراء پر بحران کا شکار ہیں۔ وہ یا فیصلہ نہیں کر پا رہی ہیں یا ان کے فیصلوں کو پارٹی کے اندر مخلتف سطح پرچیلینج کیا جارہا ہے۔ پارٹیوں نے جو ٹکٹ جاری کئے ہیں، ان پر پارٹی کے اندر اختلافات ہیں اور ان اختلافات کا کھل کر اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ کئی مقامات پر پارٹی یہ رہنما اپنی پارٹی کے نامزد امیدواروں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جو ظاہر کرتے ہیں کہ پارٹی قیادت کے فیصلے درست نہیں۔ اس کی وجہ ملک کی بڑی جماعتوں کی جانب سے پارٹی، اس کا پروگرام اور کارکن اہم نہیں بلکہ الیکٹبل اہم قرار دیئے گئے تھے۔
پارٹیوں کے اندرونی معاملات:
کارکنوں کی احتجاجی مہم کا آغاز پی ٹی آئی کے کارکنوں نے کیا اور پارٹی کے سربراہ عمران خان کی رہائشگاہ بنی گالہ کے باہر کئی روز تک دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے کراچی میں بلاول ہاؤس کے باہر دھرنا دیا۔ انتخابات کیلئے ٹکٹوں کی تقسیم پر سیاسی جماعتیں پریشانی کا شکار رہیں، کئی مقامات پر جھگڑے اور مظاہرے ہوئے ۔ بعض حلقوں میں دباؤ کی وجہ سے پارٹیوں کو امید واروں تبدیل کرنے پڑے ۔حال ہی میں تحریک انصاف سندھ کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے گھر کے باہر کارکنان نے پی ایس 118 پر امیدوار اسد امان کو تبدیل کرکے ان کی جگہ ملک عارف کو ٹکٹ دینے کے خلاف شدید احتجاج اور دھرنا دیا۔ کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے قبل تحریک انصاف کراچی کے دفتر میں کارکنوں نے ہنگامہ آرائی کی تھی۔ ملتان میں پی ٹی آئی خواتین نے ٹکٹوں کی تقسیم کے خلاف شاہ محمود قریشی کی رہائشگاہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا اور دھرنا دیدیا،اس موقع پرخواتین کے دوگروپوں میں جھگڑا بھی ہوا جس میں دوخواتین زخمی ہو گئیں۔
الیکٹ ایبلز اور کارکنا ن کے جھگڑے:
سندھ میں اگرچہ پیپلزپارٹی ’’ ہم جنگل میں اکیلے شیر‘‘ کی طرح کا معاملہ ہے ،لیکن یہاں بھی صورتحال مکمل طور پر اس کے قابو میں نہیں۔ضلع مٹیاری میں پیپلز پارٹی کے مخدوم امید واروں کو جیالوں کی جانب سے بغاو ت کاسامنا ہے۔ ہالہ کے مخدوم خاندان نے اس سیاسی خاندان کو مناسب حد تک ایڈجسٹ نہ کرنے پر پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔ بعد ضلع میں تین ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔پیپلزپارٹی ضلع مٹیاری کے سابق صدرورکن سندھ اسمبلی پیرامیرشاہ ہاشمی نے سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 59پرمخدوم رفیق الزماں کوپارٹی ٹکٹ دیئے جانے پرسخت احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ مٹیاری کے لوگ مخدوم رفیق الزماں کوووٹ نہیں دینگے۔ مخدوم امین فہیم کے انتقال کے بعد مخدوم خاندان پہلی مرتبہ الیکشن لڑنے جارہا ہے۔
ساحلی ضلع ٹھٹھہ میں پیپلز پارٹی نے شیرازی برادران سے مصالحت کے بعد انہیں مطلوبہ پارٹی ٹکٹس جاری کردی ہیں۔ ضلع کے رہنماؤں اور پرانے کارکنوں نے پارٹی قیادت پر الزام عائد کیا ہے کہ قیادت نے بی بی کے ساتھیوں اور ہمدردوں کو نظر انداز کردیا۔پیپلزپارٹی کو تھرپارکر کے تین حلقوں میں مشکل کاسامنا ہے ۔ایک قومی اسمبلی کی نشست اور ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے پر تاحال کوئی فیصلہ نہیں کر پائی۔ یہ اسلام کوٹ کی صوبائی اسمبلی کا حلقہ ہے جو کوئلے کا علاقہ ہونے ک وجہ سے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں پارٹی کے نصف درجن الیکٹیبلز آمنے سامنے ہیں۔ ادھر نگرپارکر چھاچھرو کے صوبائی حلقہ پر پارٹی کے نامزد امیدوار کے سامنے دوپارٹی کے دو مقامی رہنما علی اکبر راہموں اور عبدالغنی کھوسو میدان ہیں۔جو دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کو قمبر شہدادکوٹ، گھوٹکی، نوشہروفیروز اور دادو میں بھی کارکنوں یا الیکٹیبلز کے احتجاج کا سمان ہے۔ عمرکوٹ میں مخدوم آف ہالہ کے قریبی علی مراد راجڑ نے گزشتہ دور کے صوبائی وزیر ثقافت سردار علی شاہ کے حق میں دستبردار ہونے سے انکار کردیا ہے۔
پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پارٹی کے نامزد امیدواروں کیخلاف سڑکوں پر احتجاج کیا جارہا ہے۔ اورامیدوار کی نامزدگی کا فیصلہ تبدیل نہ کرنے کی صورت میں احتجاجی دھرنا دینے اور امیدواروں کو سپورٹ نہ کرنے کی دھمکی دی جارہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 160 اور پی پی 144 کے امیدواروں کیخلاف مقامی لیگی قیادت نے حلقہ میں نامنظور کے بینرز لگائے، سابق صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کے خلاف حلقے میں بینرز آویز ا ں کئے اور احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ سرگودھا میں بھی ن لیگ کے کارکنان ٹکٹوں کی تقسیم کیخلاف احتجاجی جلوس نکالے گئے، مظا ہر ین نے این اے 90،پی پی 77،پی پی 78میں حامد حمید، عبدالرزاق ڈھلوں کو ٹکٹ دینے کامطالبہ کیا۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ پرپی پی 114فیصل آباد میں بھی ناراضگی موجود ہے۔ نوازلیگ کے رہنما و امیدوار پی پی 115کی جانب سے این اے 109میں میاں عبدالمنان کو ٹکٹ دینے کے خلاف احتجاجی جلسہ کیا گیا۔ نواز لیگ کی جانب سے پی پی 160 کیلئے توصیف شاہ کوٹکٹ جاری کی کرنے کے خلاف یونین کونسل کے چیئرمینوں و کارکنوں نے احتجاج کیا ہے۔ سرگودھامیں تحریک انصاف کے کارکنوں نے پارٹی قیادت کی طر ف سے ٹکٹوں کی تقسیم کے خلا ف بھر پور احتجا ج کا فیصلہ کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ چوہدری ممتا ز اختر کاہلو ں کو این اے90 کا ٹکٹ جا ری نہیں کیا گیا تو وہ احتجا ج کریں گے۔اس طرح کے متعدد اعتراضات اور اختلافات سامنے آئے ہیں۔
ووٹرز کی جانب سے جواب طلبی:
یہ تو تھے الیکٹبلز کے آپس میں یاکارکنان کے ایلکٹیبلز سے جھگڑے اوریا امیدواروں کی نامزدگی پر اعتراضات۔ ایک پہلو اور بھی ہے کہ ان امیدواروں کے ساتھ ووٹرز بھی ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں اور جواب طلبی کر رہے ہیں۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی جب کہوٹہ پہنچے تو مسلم لیگ نوازکے کارکنان نے ان کی گاڑی کا گھیراؤکرلیا مظاہرین نے سابق وزیراعظم عباسی کے خلاف نعرے لگائے۔مظاہرین نے انہیں انتخابی مہم کے وعدے یاد دلائے ۔سندھ میں پیر پاگارا کی قیادت میں قائم گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے گھوٹکی میں پیر عبدالحق عرف میاں مٹھو کو ٹکٹ دیا تھا۔ میاں مٹھو پر ہندو لڑکیوں کو اغوا اور ان کو زبردستی مذہب تبدیل کرانے اور شادی کرانے کا الزام ہے۔ سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد جی ڈی اے نے ان سے ٹکٹ واپس لے لیا ہے۔
سکندر حیات بوسن ن لیگ چھوڑنے کے بعد پہلی بار اپنے حلقے این اے 154 ملتان پہنچے تو شہریوں نے ان کی گاڑیوں کو گھیرے میں لے لیا۔ اورنے’لوٹے۔۔ لوٹے‘ کے نعرے لگائے۔ سکندر حیات بوسن علاقہ مکینوں کو وضاحتیں دیتے رہے۔اب پی ٹی آئی نے سخت تنقید کے بعد سکندر بوسن سے ٹکٹ واپس لے لیا ہے۔ چند روز قبل مسلم لیگ ن کے رہنما سردار جمال لغاری ڈیرہ غازی میں اپنے حلقے کے دورے پر پہنچے تو انہیں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نہیں ۔ اس طرح کے چند واقعات سندھ میں بھی پیش آئے ہیں۔ نصف درجن مقامات پر ایسا ہوا ہے کہ انتخابی مہم کے لئے امیدوار پہنچے تو ووٹرز نے جواب طلبی کی اور یہ بھی اتنا عرصہ کہاں تھے۔
سوشل میڈیا کا استعمال :
ووٹرز کی جانب سے کی جانے والی جواب طلبی کے واقعات سوشل میڈیا پر وائرل ہورہے ۔جس سے مزیڈ
امیدواروں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ان واقعات سے ہٹ کر بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کا استعمال ہورہا ہے جس میں امیدواروں کے حق میں یا ان کے خلاف معلومات اور بعض صورتوں میں کسی کہانیس منسلک کر کے تصویری یا ویڈیو کی شکل میں انتخابی مہم کے پیغامات چلائے جارہے ہیں۔ اس صورت میں امیدواران یا ان کے مخالفین رروایتی میڈیا کے محتاج نہیں رہے۔ عام لوگوں میں اس بات کو اہمیت دی جارہی ہے کہ امیدوار جیسا عام زندگی میں ہے ویسا میڈیا یا عوام کے سامنے جلسے میں بھی نظر آئے۔ سرگرم میڈیا اور سوشل میڈیا کے زمانے میں کوئی معلومات چھپی نہیں رہ سکتی۔ ڈیجیٹلائزیشن نے انتخابی مہم کو تبدیل کردیاہے۔ اب ہر کوئی آن لائین ہے۔
ٹیکنالاجی کے عنصر کا انتخابی مہم میں استعمال بلاشبہ اہم ہے اور اس کے اثرات کا فی الحال اندازہ نہیں لگایا جاسکتاہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ خود سیاسی محاذ پر بھی کچھ تو گربڑ ہے۔ سیاسی جماعتیں مقبولیت بڑھانے یا مخالف کو گرانے میں زیادہ مصروف رہتی ہیں۔سیاسی جماعتیں، پارٹی کارکنان، الیکٹیبلز اور ووٹرز کے درمیان بہت بڑے فاصلوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے باقاعدگی سے تنظیم سازی اور پارٹی کے اداروں کی عدم موجودگی ہے۔ جہاں پر عام آدمی اور پارٹی کیڈر غیر حاضر ہے۔