حکمرانوں کے ساتھ ساتھ موسم بھی نامہربان
سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ اسمبلی نے اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد بعض ایم پی ایز کو اچھی کارکردگی کے سرٹیفکیٹ دیئے۔ تعجب کی بات ہے کہ بعض ایسے اراکین اسمبلی بھی شامل ہیں ، جن کی اجلاسوں میں شرکت نہیں رہی۔ اور بحث میں حصہ نہیں لیا۔ یہاں تک کہ ایک ایسے ایم پی اے بھی شامل ہیں، جو گرفتار ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات میں مقدمہ چل رہا ہے۔ میڈیا نے اس عمل پر تنقید کی ہے۔ اگر یہ دو چیزیں اچھی کارکردگی کے حوالے سے قابل ستائش تسلیم کی جائیں گی تو اس اسمبلی کا معیار کیا سمجھا جائے گا۔ میڈیا نے سوال کیا ہے کہ ایک منتخب ایوان جب اس طرح کے فیصلے کرتا ہے، تو اس ایوان کی عوام میں قدر کم ہو جاتی ہے۔
گرمی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت
گرمی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت
سندھ میں حالیہ گرمی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت نے ایک تکلیف دہ صورتحال پیدا کردی ہے۔ اس سے شہری خواہ دیہی دونوں آبادیاں متاثر ہورہی ہیں۔ سندھ کے تمام اخبارات نے اس صورٹاھل کو اپنا موضوع بنا یا ہے۔ ’’حکمرانوں کی طرح موسم بھی عوام پر نامہربان‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر حکمرانوں کی توجہ نہیں۔ ایک طرف موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے گرمی ماضی کے ریکارڈ توڑ رہی ہے، دوسری طرف بجی فراہم کرنے والی کمپنیوں کا ظلم بھی شہریوں پر جاری ہے۔ گزشتہ روز سندھ کے شہروں میں درجہ حرارت 45 سے 48 فیصد رہا۔ اس جان لیوا گرمی میں لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ دیہی علاقوں کو یہ کمپنیاں حساب میں ہی نہیں لاتی۔ صورتحال یہ ہے کہ حیدرآباد، لاڑکانہ، خیرپور، سیوہن، نوابشاہ، اور ان کے گردو نواح میں دس سے بارہ گھنٹے تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ رہی۔ فطرت میں مداخلت کی وجہ سے موسم تو لوگوں پر نامہربان ہے ، بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں بھی سندھ کے لوگوں سے غیر اعلانیہ دشمنی نبھا رہی ہیں۔ دیہی علاقوں میں پانی کی قلت، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گرمی نے زندہ رھنے کے راستے مسدود کردیئے ہیں۔ تھوڑی بہت فرق کے ساتھ شہروں میں بھی یہی عالم ہے۔ موسمی تبدلیوں کے لئے طویل مدت کی منصوبہ بندی چاہئے۔ جن مسائل کا حل حکمران اور افسرشاہی فوری طور پر نکال سکتی ہے وہ مسائل تو حل کئے جاسکتے ہیں۔
سندھ میں پانی کی قلت شدت اختیار کر رہی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ دس سے بارہ گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ لاڑ کے علاقے کے باسی پانی کی قلت کی وجہ سے تھر جانے پر مجبورہو گئے ہیں۔ ماضی میں ہوتا یہ رہا ہے کہ بارشیں نہ پڑنے کی وجہ سے قحط سالی میں تھر کے لاڑ کے علاقے میں آکر رھتے تھے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے لوگ اپنے آبائی گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں، دوسری طرف کینالوں اور شاخوں کے آغاز میں رھنے والوں کوزیادہ پانی کے فصل گنے اور کیلے بونے کی فکر ہے۔ پانی کی غیر منصافنہ تقسیم سے نہ صرف سندھ کی زراعت پر منفی اثرات پڑے ہیں بلکہ مجموعی طور پر وہاں کی معاشی حالات پر بھی اثرات پڑے ہیں۔
اگر معاملہ یوں ہی چلتا رہا، درجہ حرارت میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ کے باعث سانس لینا بھی مشکل ہو جائے گی۔ پانی کی کمی کی وجہ سے زراعت نہیں ہوگی۔ زراعت نہ ہونے کی وجہ سے دیہی علاقے پیچھے رہ جائیں گے۔ دیہی علاقوں کی زندگی اور معیشت براہ راست شہروں سے منسلک ہے۔ لہٰذا دیہی معیشت کے منفی اثرات سے شہر بھی بچ نہیں سکیں گے۔ سندھ آج کل سہ رخی عذاب کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک طرف آسمان سے آگ کے گولے برس رہے ہیں ۔ تیسری طرف بجلی کی نہ ختم ہونے والی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ ہے۔ تیسری طرف لوگ پانی کے لئے ترس گئے ہیں۔ ماہ صیام میں بھی بجلی کمپنیوں کو خیال نہیں کہ وہ اعلان شدہ لوڈشیڈنگ کے مطابق بجلی فراہم کریں۔ جن علاقوں میں آٹھ گھنتے لوڈشیڈنگ کا اعالن ہے وہاں بارہ گھنٹے بجلی بند رھتی ہے۔ سندھ میں پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے نہروں کے آخری سرے کے علاقوں میں خریف کی فصلیں نہیں کاشت کی جاسکی ہیں۔ جن کاشتکاروں کے پاس سو ایکڑ زمین ہے، وہ ایک ایکڑ بھی زمین آباد نہیں کرسکے ہیں۔ پانی پر سیاست بھی ہوتی رہی ہے۔ اپنی کھیت آباد رکھنے کے لئے وڈیرے خواہ کاشتکار حکمران پارٹی کا سہارا لیتے ہیں۔ سندھ میں بجلی کی فراہمی کا معاملہ بھی اسی طرح سے ہے ۔ جس علاقے میں دو تین بااثر لوگ رہتے ہیں وہاں بجلی کی فراہمی بغیر رکاوٹ کے جاری ہے۔
ہندو میریج ایکٹ
ہندو میریج ایکٹ
روزنامہ عبرت ہندو میریج ایکٹ میں ترمیم ایک احسن فیصلہ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ سندھ اسمبلی نے مسلم لیگ فنکشنل کے ایم پی اے نندکمار گوکلانی کا پیش کردہ ہندو میریج ترمیمی بل منظور کیا۔ جس کی حمیات حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم اور ایوان میں موجود دیگر جماعتوں نے بھی کی۔ اس بل کے ذریعے مختلف شقیں، ہندو میریج ایکٹ میں شامل کی گئی ہیں۔ ان ترامیم کی روء سے کوئی بھی ہندو جوڑا علحدگی کے لئے عدالت میں درخواست دائر کر سکے گا۔ عدالت بیانات اور حقائق کی روشنی میں فیصلہ سنائے گی۔ ترمیمی بل کے مطابق ایسی کسی شادی کی قانونی حیثیت نہیں ہوگی جو اٹھارہ سال سے کم عمر میں کی گئی ہو، یا بغیر رضامندی کے ہو، اسی طرح سے زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی کی بھی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ ایسی شادی کو عدالت ختم کرسکے گی۔ ترمیمی بل کے مطابق شادی شدہ ہندو عورت کو بھی طلاق کے لئے عدالت میں درخواست دینے کا حق حاصل ہوگا۔ ہندو عور اس صورت میں یہ درخواست دے سکے گی کہ اگر شوہر دوسری شادی کررہا ہے یا دو سال سے اس کی دیکھ بھال نہیں کر رہا ہے۔ بل نے بیوہ ہندو عورتوں کو دوسری شادی کی اجازت دی ہے۔
یہ حقیقت ہے سندھ میں ہندو برادری کو متعدد مسائل درپیش رہے ہیں۔ خاص طور پر اغوا کر کے زبردستی شادی کرنے کے معاملات معمول بنے ہوئے تھے۔ اس عذاب کی وجہ سے کئی ہندو خاندان یہاں سے انڈیا منقتل ہو گئے۔ اس صورتحال میں نہ صرف ہندو برادری بلکہ اہل فکر ودانش ضرورت محسوس کر رہی تھی کہ ہندو لڑکیوں کے تحفظ کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ یہ ترمیمی بل ایک احسن قدم ہے۔ امید کی اجسکتی ہے کہ اس ضمن میں ہونے والی ناانصافی کا خاتمہ ہوسکے گا
http://bathak.com/daily-nai-baat-newspapers/column-sohail-saangi-jun-2-2018-169167
http://insightpk.com/urducolumn/nai-baat/sohail-sangi/hukmarano-ke-saath-mausam-bhi-na-meharban
No comments:
Post a Comment