Friday, June 22, 2018

زمین کی غیرقانونی تقسیم کی تحقیقات


https://www.naibaat.pk/22-Jun-2018/13889

روزنامہ عبرت سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان ن جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بنچ نے سندھ میں زمینوں کی لیز اور الاٹمنٹ کے مقدمہ کی سماعت کی ۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قبضہ مافیا پورے ملک کو کھاگئی ہے۔ ریاست کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ سرکاری پلاٹوں کی بندر بانٹ ہونے نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس نے پولٹری اور صنعتی مقاصد کے لئے زمین کی الاٹمنٹ کو شفاف بنانےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں جو کچھ ہوتا رہا ہے،قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا فیصلہ کریں گے۔ سندھ میں زمینیں اپنے لوگوں میں بانٹی گئی ہیں۔ لوگ گھر بیٹھے پلاٹ کی درخواست دیتے ہیں ، جن پر ان کی ہی پسند کے لوگوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے کر الاٹمنٹ کی جاتی ہے۔
قابل تحسین امر ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے سندھ میں زمین کی تقسیم کا نوٹس لیا ہے۔ اور متعلقہ فریقین سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ من پسند لوگوں کو زمین الاٹ کرنے کا معاملہ کوئی آج کل کا قصہ نہیں ہے۔ بلکہ اس ریاست کے وجود میں آنے سے لیکر آج تک جاری ہے۔ سیاستدان، افسرشاہی اور ان کے قریبی لوگ اپنوں کو نوازنے کے لئے کوڑیوں کے بھاؤ زمین الاٹ کرتے رہے ہیں۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ان کی ملکیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ دوسری طرف غریب ایک چھوٹے سے گھر کے لئے عمر بھر تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ لاکھوں خاندانوں کی کئی نسلیں کرایے کے مکانوں میں زندگی گزار دیتی ہیں۔ مگر کسی بھی دور کے حکمران نے ان کو گھر دینے کی زحمت نہیں کی ۔ دیہی علاقوں میں یہ المیہ ہے کہ وہاں لوگ بھوتار ، سرداریا وڈیرے کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اپنے گھر کے نہ مالکانہ حقوق ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنا گھر وڈیرے کی مرضی کے بغیر بیچ سکتے ہیں۔ کبھی کبھار سردار یا وڈیرے کی ناراضگی مول لینے پر رات کی تاریکی میں اپنے بچے لیکرجانے کا حکم ملتا ہے۔ مسلسل یہ مطالبہ کیا جاتا رہاہے کہ ہر گاؤں اور قصبے میں لوگوں کو گھر کے مالکانہ حقوق دے کر وڈیرے یا بھوتار کی محتاجی سے بچایا جائے۔ لیکن اس ضمن میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ شاید اس لئے کہ قانون بنانے والوں میں اکثریت ان بھوتاروں اور وڈیروں کی ہی ہے، وہ نہیں چاہتے کہ لوگ آزاد حیثیت میں زندگی گزار سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرگ لاکھوں بلکہ کروڑہا لوگ گھر سے محروم ہیں اور دوسری طرف صنعتی مقاصد کے نام پر ہزارہا ایکڑ زمین من پسند لوگوں کو الاٹ کی جاتی ہے۔ اس کی بڑی مثال چیف جسٹس کے یہ ریمارکس ہیں ’’کے ڈی اے نے 37 سال پہلے دو روپے فی ایکڑ کے حساب سے زمین لیز پر دی ۔ کیا ایکڑ کی قیمت دو روپے ہوسکتی ہے؟ صرف کے ڈی اے ہی نہیں، ہر چھوٹے بڑے شہر کے ادارے نے یہ ظلم کیا ہے۔ جس کی وجہ سے شہروں اور دیہی علاقوں کی منصوبہ بندی نہیں ہوسکی، جس کی جو مرضی میں آیا اس نے تعمیرات کردی، سڑکیں بنا لیں۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ اعلیٰ عدالت نے اس ناانصافی کا نوٹس لیا ہے۔ اگر اس تحقیقات کو منطقی نتیجے تک پہنچایا گیا ، کرپشن کے ذمہ دار افراد کو سزائیں دی گئی، تو ہم آئندہ نسلوں کے لئے ایک ایسا نظام اور ماحول چھوڑ کے جائیں گے جو ان کی خوشحالی کی طرف ایک اہم قدم شمار ہوگا۔
’’ نگران منتظمین سندھ میں قانونی حکمرانی کو یقینی بنا سکیں گے؟ ‘‘کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ نگران حکومت نے اقتدار تو سنبھال لیا ہے لیکن وہ بدانتظامی اور خراب طرزحکمرانی کا تسلسل تبدیل نہیں کرسکے ہیں۔ وہی لاقانونیت اور خونریزی جاری ہے۔ اخبارات کرائم ڈائری کا منظر پیش کرتی ہیں ۔ قانون جو طویل عرصے ہائبرنیشن میں چلا گیا تھا، وہ اس صورتحال سے نکل کر اپنی بالادستی تو دور کی بات ، موجودگی کو بھی ثابت نہیں کر سکا ہے۔ سندھ کے نئے آئی جی پولیس ’’عفو اور در گزر ‘‘ پر عمل پیرا ہے۔ سیاہ کاری اور پرانی دشمنی کے نام پر قتل رک نہیں سکے ہیں۔ چند ماہ یا چند سال کا قصہ نہیں ۔ سندھ ایک عرصے سے اداروں کا قبرستان بنا ہوا ہے۔ گورننس اداروں کی مجموعی کارکردگی کا نام ہے۔ جب یہ سرزمین اداروں کی قبرستان بنی ہوئی ہو، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ میں کس طرح کی گورننس رہی ہوگی؟ رہی سہی کسراداروں میں کرپشن اور سیاسی مداخلت نے پوری کردی۔ توقع تھی کہ نگران حکومت بدانتظامی کے اس تسلسل کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گی۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ بدانتظامی اور لاقانونیت کی جو اس کو ’’امانت ‘‘ملی تھی، اس کو نگرانوں نے جوں کا توں محفوظ رکھا ہوا ہے۔ اس میں کوئی بہتری لانے کو ’’خیانت‘‘ سمجھتے ہیں۔ انتخابات کے بعد یہ امانت باسلامت منتخب منتظمین کے حوالے کی جائے گی۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ہر ادارے میں سیاسی مداخلت ہے۔ اب ایسا کوئی عذر نہیں رہا۔ اب بہتری لانے کے مواقع ہیں ، ان کو یہ بہتری دکھانی چاہئے۔
سندھ میں پانی کی چوری ر وکنے کے لئے ایک بار پھر رینجرز تعینات کردی گئی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ سندھ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں بیراجوں میں اپنی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد چھوٹی بڑی نہروں پر رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ نگران حکومت کی مدت محدود ہے لہٰذا رینجرز کا تقرر کوئی بڑے نتائج نہیں دے سکے گا۔ یہ ضرور ہوگا کہ جن نہروں اور شاخوں پر غیر قانونی لفٹ مشینیں لگی ہوئی ہیں اس چوری میں کمی آئے گی۔ پانیکی چوری کی وجہ خراب انتظام کاری نہیں۔ پانی کی چوری کے لئے سیاستدانوں اور افسر شاہی نے محکمہ آبپاشی سے گٹھ جوڑ کر کے ایک الگ نظام قائم کرلیا ہے، جس کے تحت پانی چوری کے ساتھ ساتھ پانی کی غیر منصفانہ تقسیم بھی ہوتی ہے۔ اس چوری اور غیر منصفانہ پانی کی تقسیم کی وجہ سے آخری سرے کے کاشتکار زراعت کے پانی سے محروم رہتے ہیں بلکہ ان کو پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں۔ یہ درست ہے کہ صوبے میں پانی کی قلت ہے۔ لیکن انتظام کاری اور اچھی حکمرانی کی قلت اس سے بھی زیادہ ہے۔ اگر حکومت چاہے تو انتظام کاری کو بہتر بنا کر کسی حد تک آخری سرے کے کاشتکاروں کو پانی پہنچا سکتی ہے۔ نگران اگر واقعی کوئی ٹھوس اقدام کرتے ہیں تو آئندہ حکمرانوں کے لئے ایک مثال ہوگی۔ اور ایک راستہ ہوگا۔

http://www.awaztoday.pk/singlecolumn/60402/Sohail-Sangi/Zameen-Ki-Gair-Qanoon-Taqseem-Ki-Tehqeeqat.aspx 

http://politics92.com/singlecolumn/60402/Sohail-Sangi/Zameen-Ki-Gair-Qanoon-Taqseem-Ki-Tehqeeqat.aspx 

https://www.darsaal.com/columns/sohail-sangi/zameen-ki-gair-qanoon-taqseem-ki-tehqeeqat-4705.html


No comments:

Post a Comment