نئی تعلیمی پالیسی پر مشاورت
سندھ نامہ سہیل سانگی
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ سندھ میں نئی تعلیمی پالیسی پر مشاورت جاری ہے۔ گزشتہ ماہ حیدرآباد میں منعقدہ ورکشاپ کے بعد کراچی میں بھی ایک ورکشاپ منعقد ہوا جس میں انہی تجاویز کو دہرایا گیا۔ تعلیمی پالیسی مرتب کے لئے دی گئی تجاویز کے اہم نکات یہ تھے۔ اسکولوں میں پینے کے پانی اور واش رومز کی سہولیات کی فراہمی، اساتذہ کی بھرتی کے لئے بی ایڈ اور ایم ایڈ کی شرط نہ کرنا۔نصاب کو جدید بنانا، تاریخ سے متعلق مواد میں جعلی ہیروز کا مواد نکال کر اس دھرتی کے اصل ہیروز اور خواتین سے متعلق مواد شامل کرنا۔ ان تجاویز میں کہا گیا ہے کہ اچھا گریجوئیٹ اگر بی ایڈ یا ایم ایڈ نہیں پاس نہیں ہوتا وہ ٹیچر کی اسامی کے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اساتذہ کی بھرتی کے لئے ایم ایڈ اور بی ایڈ کی شرط ختم کی جارہی ہے۔ کیونکہ علامہ اقبال یونیورسٹی میں کوئی بھی شخص پچاس ہزار روپے فیس ادا کر کے یہ ڈگریاں لیکر آجاتا ہے۔ اس موقع پر وزیرتعلیم سید سردار علی شاہ نے واضح کیا کہ قانون پر عمل نہ کرنے والے اسکولوں کی رجسٹریشن ختم کردی جائے گی۔
دنیا کے ممالک میں جو معیار تعلیم ہے ہم اس سے دو صدی پیچھے ہیں۔ ہم آج بھی انیسویں صدی کے معایر تعلیم سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ اساتذہ کی مہارت، تعلیم دینے میں سنجیدگی اور خلوص کا موازنہ کیا جائے تو ایک بڑی پستی کا پتہ چلتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی معیار کے بجائے اگر ملک کے دوسرے صوبوں کی تعلیم سے بھی موازنہ کیا جائے تو بھی ہم یں ندامت کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ صوبے میں موجود نجی اسکولوں سے سرکاری اسکولوں کے معیار کاموازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نجی اسکولوں کا معیار ارفع اور اعلیٰ ہے۔ اصل قصہ سرکاری شعبے کے اسکولوں کی پستی کا ہے۔ بلاشبہ بہتر تعلیمی پالیسی سے تعلیمی بہتری ممکن ہے۔ معیاری تعلیم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انفرا اسٹرکچر بھی بہتر ہو۔ اسکولوں کی عمارات بہتر ہوں، وہاں بجلی، پانی، واش روم، اور چودیواری سمیت سہولیات موجود ہوں۔ تاکہ بچے پرسکون اور آرام دہ ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔
یہ بھی درست ہے کہ تعلیمی نصاب کی حالت ابتر ہے۔ یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ آخر بچے کو کیوں کر پڑھایا جائے؟ نصاب جدید تقاضوں کے مطابق ہو،نا چاہئے۔نصاب کے حوالے سے بعض عالمی ضروریات اور تقاضے ہیں اور دوسرے مقامی۔ یعنی نصاب کو تہذیب اور ثقافت سے ہم آہنگ ہونا چاہئے۔ یہ نصاب یہاں کی تاریخ کا عکس ہو۔ اس میں مزاج اور نفسیات کا خیال رکھا جائے۔ دوسرا مسئلہ یہ نصاب پڑھانا اور اس میں موجود علم منتقل کرنے کا ہے۔ یہ نصاب پڑھانے کے لئے جدید تربیت یافتہ اساتذہ کا ہونا لازمی ہے۔ کم از کم وہ تعلیم کی پروفیشنل ڈگری (بی ایڈ ایم ایڈ) رکھنے والے ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نچلی کلاسوں میں پروفیشنل ڈگری ضروری ہے۔ اس سطح پر بچوں کی شخصیت کی تعمیر اور اس کو صحیح رخ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب تو بھڑیں پالنے کے لئے بھی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اسپیشلائیزیشن کا دور ہے۔ کیا گاڑی چلانے کے لئے ڈرائیونگ لائسنس ضروری نہیں؟ اگر کوئی بغیر تربیت کے بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ کرے گا تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ کیا پائلٹ کو بغیر تربیت کے جہاز اڑانے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
جہاں تک نجی اسکولوں کی رجسٹریشن ختم کرنے کا معاملہ ہے ، اس موضوع پر وزیر تعلیم اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ لب کشائی کر چکے ہیں۔ کیا یہ بتانے کی زحمت کی جائے گی کہ سندھی مضمون نہ پڑھانے والے ، سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل نہ کرنے والے کتنے بڑے اسکولوں کی رجسٹریشن ختم کی گئی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ نئی تعلیمی پالیسی لازمی طور پر مرتب کی جائے، اس مقصد کے لئے ماہرین اور حاضر سروس ٹیچرز سے بھی مشاورت کی جائے۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’بدین کے کاشتکاروں کا معاشی قتل‘‘ کے عنوان سے اداریے میں رقمطراز ہے کہ گزشتہ ایک سال سے سندھ میں پانی کی قلت کی شدید شکایات بڑھ گئی ہیں۔ اس قلت کا اثر سندھ کے زرعت پر مجموعی طور پر اور مختلف علاقوں کے کاشتکاروں کی معاشی حالت پرخصوصی طور پر پڑرہا ہے۔ قلت کے شکار علاقوں میں معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے۔ شاخوں میں پانی نہ آنے کی وجہ سے زمینیں بنجر ہو رہی ہیں۔ اگر صرف صوبے کے ضلع بدین کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے، تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں پر کیا صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ ایک عرصے سے پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے فصلوں کی کاشت نہیں ہو سکی ہے۔بدین کے کاشکار ایک عرصے سے پانی کی قلت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کراتے رہے ہیں۔ جب چوہدری افتخارمحمد چیف جسٹس تھے، بدین کے کاشتکار احتجاج ریکارڈ کرانے اسلام آباد بھی گئے تھے۔ لیکن انہیں صرف کئی یقین دہانیاں ہی ملی، پانی نہیں مل سکا۔ گزشتہ روز کی رپورت کے مطابق امام واہ میں پانی کی شدید قلت ہے۔ اس کینال میں دس ماہ سے جاری قلت کے خلاف احتجاج کاشتکار اور دیگر رہائشیوں نے گزشتہ روز احتجاج کیا۔ مظارہین کا کہنا ہے کہ دس ماہ سے پانی نہ پہنچنے کے بعد علاقے میں قحط کی صورتحال ہے۔ پینے کا پانی نہ ملنے کی وجہ سے مویشی پیاسے مر رہے ہیں۔ زراعت مکمل طور پر تباہ ہے۔ لوگ پچاس روپے گیلن کے حساب سے پانی خرید کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کینال میں صرف دو ماہ کے لئے پانی دیا جاتا ہے۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ آبپاشی عملہ صرف بااثر اور پیسے ادا کرنے والوں کو پانی مہیا کرتا ہے۔ مسلسل قحط کا شکار کاشتکاروں کے پاس اب پیسے بھی نہیں رہے کہ وہ آبپاشی عملے کو دے کر انی خرید کر سکیں۔ ہم سمجھتے ہیں بدین کے کاشتکاروں کا یہ مطالبہ جائز ہے۔ اس ضمن میں محکمہ آبپاشی اور حکومت کے دیگر اداروں کو فوری اقدامات کرنے چاہیءں۔
آئل ریفائنری سندھ میں قائم کی جائے کے عنوان سے روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ پاکستان میں ایشیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ سعودی تعاون سے بلوچستان کی ساحلی پٹی گوادر کے پاس قائم ہونے والی یہ ریفائنری دنیا کی تیسری اور ایشیا کی سب سے بڑی ریفائنری ہوگی۔ وزیر اعظم عمران خان کے مطابق اس ریفائنری پر پندرہ ارب روپے کی لاگت آئے کی۔ اور اس سرمایہ کاری کے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ سندھ میں بدین، سانگھڑ، جامشورو، گھوٹکی، شہدادکوٹ کے پاس تیل کے ذخائر ملے ہیں۔ جہاں سے کئی بیرل تیل روزانہ نکالا جارہا ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں تیل ملک کے کسی صوبے سے نہیں نکالا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود آئل ریفائنری سندھ سے باہر لگائی جارہی ہے۔ وفاقی خواہ صوبائی حکومت کو اس ضمن میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ جہاں سے تیل نکل رہا ہے وہیں ریفائنری قائم ہونی چاہئے۔
Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media
سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا