Friday, February 15, 2019

مالیاتی ایوارڈ پر سندھ کی رائے عامہ


مالیاتی ایوارڈ پر سندھ کی رائے عامہ
سندھ نامہ سہیل سانگی
قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس اور اس میں پیش کی گئی تجاویز سندھ کے اخبارات کا موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ اجلاس سے قبل بھی اخبارات میں اس موضوع پر اداریے، ، کالم اور تجزیے شایع ہوتے رہے۔ سندھ کے اخبارات نے مالی وسائل کی تقسیم کے حوالے سے حکومت سندھ کے موقف کی حمایت کی ہے۔ مجموعی طور پر سندھ کی رائے عامہ یہ ہے کہ کسی طور پر بھی صوبوں کا حصہ کم نہ کیا جائے۔ اور یہ کہ مالی وسائل کی بین الصوبائی تقسیم میں صرف آبادی کا بنیاد نہ بنایا جائے۔روزنامہ عبرت ’’قومی مالیاتی ایوارڈ اورسندھ کا موقف‘‘ کے عنوان سے ادایے میں لکھتا ہے کہ قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس میں صوبوں نے ایف بی آر کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔وزیراعلیٰ سندھ کا یہ موقف کہ فاٹا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا اس کا حصہ صبوں کے بجائے وفاق کے حصے میں سے دیا جائے۔ سندھ کا یہ موقف ہے کہ ٹیکس کی کم وصولی کی وجہ سے صوبوں کو حصے سے کم رقم ادا کی گئی۔رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں سندھ کو ساٹھ ارب روپے کم ادا کئے گئے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سال بھی اس صوبے کو 104 ارب روپے کم ملے۔ سندھ حکومت نے یہ دونوں بقایاجات ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ بعض ٹیکسوں کی وصولی صوبے بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ صوبائی ٹیکسوں میں کی وصولی میں 26فیصد اضافہ ہوا ہے۔لہٰذا سیلز ٹیکس اور بعض دیگر ٹیکسوں کی وصولی کا کام صوبوں کے حوالے کیا جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیا مالیاتی ایوارڈ نئی مردم شماری پر دینے کا معاملہ تب دیکھیں گے جب مردمشماری کا معاملہ حتمی طور پر طے ہوگا۔نتیجۃ چھوٹے صوبوے معاشی خواہ سماجی طور پر پسماندہ رہے۔ قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس کی سب سے مستحسن بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اٹھارویں ترمیم کو تسلیم کیا ہے۔یہ امر اس کئے بھی اہم ہے کہ گزشتہ کچھ ماہ سے یہ کہا جارہا تھا کہ حکومت اس ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیرخزانہ نے واضح طور پر بتایا کہ اس ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ۔اس بحث کی وجہ سے صوبوں کے درمیاں فاصلے بڑھ رہے تھے۔ اس وضاحت کے بعدصورتحال میں بہتری آنی چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاق کو چاہئے کہ وہ صوبوں کے مشوروں کو بھی خاطر میں لے آئے۔
وفاق اور صوبوں کے درمیاں مالی وسائل کی تقسیم کے سوال پر ایک عرصے سے کشمکش جاری ہے۔ خاص طور پر چھوٹے صوبوں کو شکایت رہی ہے کہ انہیں جائز حصہ نہیں مل رہا ۔ لیکن وفاق کی جانب سے ان کی شکایات کو بہت کم خاطر میں لایا گیا ۔
قومی مالیاتی کمیشن کے اجلاس میں سندھ کا کیس بھرپور طریقے سے رکھنے پر وزیراعلیٰ سندھ ؂ کو مبارکباد دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ میں خراب حکمرانییا کرپشن کے معاملات اپنی جگہ پر ہیں لیکن صوبے کی صورتحال خراب ہونے میں مالی وسائل کی کم دستیابی بھی ایک بڑی وجہ بنی رہی ہے۔ مالی وسائل کم ملنے کے اثرات ترقیاتی منصوبوں پر بھی پڑتے ہیں۔ وفاق کی جانب سے سندھ کو اس کا حصہ ملنے کی امید پر بعض منصوبے شروع کئے گئے تھے۔ لیکن یہ رقم نہ ملنے کی وجہ سے منصوبے ادھورے رہ گئے ہیں۔سندھ میں مسلسل تیسری مرتبہ پیپلزپارٹی کی حکمرانی رہی ہے۔ لیکن پنجاب حکومت کے مقابلے میں سندھ کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں رہی ہے۔ دراصل پیپلزپارٹی کے لئے یہ چیلینج تھا کہ وہ سندھ میں اپنی اچھی کارکردگی کو ثابت کرے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ صوبے کو مالی وسائل میں جائز حصہ ملنے کے بعد پیپلزپارٹی اپنی کارکردگی بہتر بنائے گی۔
روزنامہ کاوش اور سندھ ایکسپریس نے سندھ میں مجوزہ بھرتیوں پر ادایے لکھے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ سندھ حکومت اگر ہزارہا نوجوانوں کو ملازمتیں فراہم کرنے جارہی ہے ۔ ماضی میں پیپلزپارٹی حکومت کی جانب سے ملازمتیں دینے کا تجربہ کوئی اچھا نہیں رہا، محکمہ تعلیم میں بغیر میرٹ کے ملازمتیں دی گئیں۔ یہ بھرتیاں بغیر میرٹ کے اور پیسوں کے عوض ہوئیں۔بعض جعلی تقررنامے بھی جاری کئے گئے۔ حالیہ اعلان کردہ بھرتیاں میرٹ پر دینا لازمی ہو گا ہے۔ کیونکہ مختلف اداروں میں اہل افراد کی اشد ضرورت ہے۔ جب نااہل لوگ ادارے میں بھرتی ہو جاتے ہیں ، تو یہ لوگ نہ صرف اداروں پر بوجھ ہوتے ہیں بلکہ ادارے صحیح طور پر چل بھی نہیں پاتے ہیں۔ دوسری طرف میرٹ نظرانداز کرنے کی وجہ سے ذہین اور میرٹ رکھنے والے نوجوانوں میں مایوسی پھیل جاتی ہے۔ اس کے مجموعی طور پر تعلیم اور سماجی صورتحال پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ معاشرے کے تمام حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ بھرتیوں کو شفاف رکھا جائے ۔ سندھ کابینہ کی کمیٹی نے گریڈ چھ سے پندرہ تک ملازمتوں کی بھرتی غیرجانبدار ٹیسٹنگ ادارے کے ذریعے کرنے کی سفارش کی ہے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ان گریڈوں پر بھرتی کے لئے آئی بی اے سکھر، این ٹی ایس یا بحریہ فاؤنڈیشن کے ذریعے ٹیسٹ لیا جائے اور بعد میں اس ٹیسٹ کے نتائج کی بنیاد پر خالی اسامیاوں پر بھرتی کی جائے۔ سفارشات کے مطابق گریڈ ایک سے پانچ تک پر بھرتی متعلقہ محکموں یا اداروں کے ذریعے کی جائے۔ لیکن ان بھرتیوں کے لئے بھی ٹیسٹ اور انٹرویو منعقد کئے جائیں۔ محکمہ تعلیم میں چھ اساتذہ کی چھ ہزار اسامیوں ک پر بھرتی کے لئے ٹیسٹ کا ٹاسک آئی بی اے سکھر کو دیا گیا۔ آئی بی اے نے گزشتہ اکتوبر اورنومبر میں ٹیسٹ لیا۔ٹیسٹ پاس کرنے کا معیارساٹھ فیصد مارکس رکھا گیا۔ نتیجے میں بمشکل 24 فیصد پاس ہو سکے ۔ اب محکمہ تعلیم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاس کرنے کا معیار کا ازسرنو تعین کرکے پچاس فیصد کیا جائے۔ نیا معیار مقرر کرنے کے لئے یہ جواز پیش کیا گیا کہ دوبارہ ٹیسٹ کے انعقاد کی صورت میں ایک تعلیم سال ضایع ہوگا اور مالی وسائل کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ پچاس فیصد مارکس کا معیار سے رکھنے سے 76فیصد امیدوار پاس ہو جائیں گے تاہم چوبیس فیصد اسامیاں پھر بھی خالی رہ جائیں گی۔ حکومت کو بہرحال میرٹ کا پاس رکھنا چاہئے۔ تحریری ٹیسٹ کے بعد انترویوز میں بھی میرٹ اور شفافیت کو یقنینی بنانے کے انتظامات کئے جانے چاہئیں۔
صوبے میں ایک بار پھر چھوٹے بڑے جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔ حیدرآباد میں بڑھتی ہوئی جرائم کی وارداتیں چند سال پہلے صوبے کے اس بڑے شہر میں روز تین چار جرائم کی وارداتیں معمول بن گئی تھی۔ اس کو روکنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا کام بہتر طریقے سے کیا، جس کے بعد جرائم کا یہ سلسلہ رک گیا۔ اب ایک بار مجرم سرگرم ہو گئے ہیں۔ جس نے شہریوں کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے۔

Job and recruitment, NFC meeting

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا

No comments:

Post a Comment