Friday, February 1, 2019

سندھ سیاسی گہماگہمی کی طرف بڑھ رہا ہے


سندھ نامہ سہیل سانگی
سندھ سیاسی گہماگہمی کطرف بڑھ رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف ریفرنس کی تیاری کی جارہی ہے۔ آئندہ چند ہفتوں میں عوامی جلسے جلوس کرنے جارہی ہے۔ اس کے جواب میں پی ٹی آئی اور اپوزیشن جماعتیں بھی اس صوبے میں سرگرمیاں تیز کرنے جارہی ہیں۔ سندھ اسمبلی نے بلدیاتی اداروں کے قانون میں 7 ترامیم منظور کرلی ہیں۔اب میئر، ڈپٹی میئر، کونسل کے چیئرمین، وائیس چیئرمین کو دو تہائی اکثریت کے بجائے سادی اکثریت سے ہٹایا جاسکے گا۔ اپوزیشن جماعتوں پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے نے ترمیم کی مخالفت کی ۔اپوزیشن کے مطابق یہ ترامیم پیپلزپارٹی نے اپنے مخالفین کو عہدوں سے ہٹانے کے لئے کی ہیں۔ مخالفین نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ اراکین کو خرید کرکے مخالف عہدیداران کو ہٹایا جائے گا۔ ان میں سے چھ ترامیم الیکشن کمیشن کی سفارش پر کی گئی ہیں۔ پیپلزپارٹی کا یہموقف ہے کہ بلدیاتی اداروں کے عہدیداران کو سادہ اکثریت سے ہٹانے سے متعلق ترمیم اس لئے کی گئی ہے کہ قانون کے مطابق وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کو بھی سادہ اکثریت سے ہٹایا جا سکتا ہے ۔
منی لانڈرنگ کیس میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، فریال تالپور اور دیگران کی بینکنگ کورٹ نے 14 فروری تک ضمانت قبل از گرفتاری میں توسیع کردی ہے۔گزشتہ سماعت کے موقع پر تفتیشی افسر اسلام آباد میں مصروفیت کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہوئے سکے ۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اس مقدمے کا ریکارڈ نیب کے حوالے کرنا ہے۔ سپریم کورٹ نے مزید تحقیقات کے لئے معاملہ نیب کے حوالے کیا ہے لہٰذا بینکنگ کورٹ اس پر مزید کارروائی نہیں کرسکتی۔ عملدرآمد بینچ بھی بنائی ہے ۔اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور ان کے تین بیٹوں، بحریہ ٹاؤن کے ریاض ملک کوشش کر رہے ہیں کہ بینکنگ کورٹ سے ضمانت حاصل کرلیں۔
سندھ اور وفاق کے درمیان بھی کشیدگی بڑھنے کے اشارے مل رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کہتے ہیں کہ ہم سندھ کے حقوق وفاق سے چھین کر لیں گے۔انہوں نے متنبیہ کیا کہ اگر یہ پکڑ دھکڑ جاری رہی تو وزیراعظم بھی نہیں بچ سکیں گے۔ وزیراعظم کوچار خطوط لکھے ہیں مگر کسی کاجواب نہیں ملا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ حکومت سندھ کے ساتھ محکمہ ریلوے تعاون نہیں کر رہا۔
سندھی اخبارات نے روڈ حادثات، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور محفوظ سفری سہولیات کو اپنے اداریوں مین موضوع بحث بنایا ہے۔
’’ ریلوے نظام کیا صرف ایک صوبے کی سہولت کے لئے ہے ؟ ‘‘ کے عنوان سے روزنامہ کاوش لکھتا ہے اس ملک کو انگریز دور میں جو سہولت ملی ، اس کو ہمارے حکمران بڑھانے کے بجائے اسے برقرار بھی نہیں رکھ سکے۔ ان میں ریلوے نظام بھی شامل ہے۔ ریلوے کے محفوظ اور سستے سفر کی سہولت سے عوام کو محروم کیا جارہا ہے۔ سندھ میں نہ صرف حیدرآباد میرپورخاص، حیدرآباد بدین، لاڑکانہ سمیت مختلف لائینیں تباہ کردی گئی ہیں۔ مین لائن کی ٹرینیں بھی دستیاب نہیں۔ سندھ میں متعدد چھوٹے بڑے اسٹیشن بند کردیئے گئے ہیں۔ اگرچہ مواصلات کے نئے ذرائع رائج ہو چکے ہیں تاہم دنیا ھر میں ریلوے کی اہمیت کم نہ ہو سکی ہے۔ جدید ٹیکنالاجی کو بروئے کار لا کر اسے جدید تر اور محفوظ بنایا جارہا ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کی ادا مختلف ہے۔ یہاں منصوبے کے تحت ریلوے نظام کو تباہ کیا گیا۔ سندھ میں ٹرینوں کا صرف گزر ہوتا ہے سہولت برائے نام ہے۔ حیدرآباد بدین لائن پر پہلے اپ اور ڈاؤن دو ٹرینیں چلتی تھی۔ بعد میں ایک ٹرین چلنے لگی ۔ گزشتہ دو سال سے وہ بھی بند ہے۔ اور صرف ہفتے میں ایک روز چلائی جاتی ہے۔ یہی صورتحال لاڑکانہ لائن کی ہے جہاں پر 16 ٹرینیں بند کردی گئی ہیں ۔ مختلف ٹرینیں خسارے کی آڑ میں بند کردی گئی ۔ تاجروں کے مطالبے کے باوجود نائیٹ کوچ شروع نہیں کی گئی۔ صوبے کے دوسرے روٹس پر یہی صورتحال ہے۔ ایک طرف پیسنجر ٹرین کی سہولت ختم کردی گئی دوسری طرف ایکسپریس ٹرینوں کے اسٹاپ ختم کردیئے گئے۔ جس کی وجہ سے سندھ کے لوگ محفوظ اور سستی سفری سہولیات سے محروم ہو گئے ہیں۔ ریلوے کو زیادہ کمائی مال برداری سے ہوتی تھی۔ ایک ادارے کو فائدہ پہنچانے کے لئے ریلوے کے شعبہ مال برداری کو تباہ کیا گیا۔ ریلوے اسٹاپ ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تائیم ٹیبل سے بھی شعبدہ بازی کی گئی۔ ٹرینوں کے اوقات آگے پیچھے کر کے نجی شعبے کے ٹراسپورٹرز کو کھلا میدان فراہم کیا گیا۔ اس سے ریلوے کی آمدنی پر اثر پڑا۔ لیکن یہ صورتحال ہاتھ سے خراب کی گئی۔ رہی سہی کسر ریلوے ملازمین نے پوری کردی۔ کہتے ہیں کہ ٹرینوں میں اگرر یلوے پولیس نہ ہو تو ریلوے میں خسارہ کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔ ریلوے نظام کو تباہ کر کے ایک پورے کلچر کو ختم کیا گیا ہے۔ جو ریلوے سے منسلک تھا۔ ٹرینوں کے اسٹاپ ختم ہونے اور ریلوے اسٹیشن بند ہونے سے ہزاروں لوگ بیروزگار ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا روزگار ریلوے اسٹیشنوں سے منسلک تھا۔ دوسری طرف نجی ٹرانسپورٹرز کو میدان خالی ملا، جس کی وجہ سے وہ اس شعبے پر چھا گئے۔ ٹرالر، کوچز اور وینیں بڑھ گئیں اس سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ گئی۔تیل کا استعمال بڑھنے سے امپورٹ بل بھی بڑھ گیا۔ ویسے بھی تیل کی امپورٹ کے پیچھے ایک منظم مافیا موجود ہے۔بلاشبہ ریلوے نظام کو تباہ کرنے میں کرپشن کا بھی اہم کردارہے۔ خاص طور پر انجنوں کی خریداری مین کرپشن سے متعلق شکایات آتی رہی ہیں۔ ایسے انجن خریدے گئے جو مختلف اسٹشنوں پر فیل ہو گئے۔ نتیجۃ ٹرینیں لیٹ ہونے لگیں۔ ٹرینوں کے لیٹ ہونے نے بھی نقسان پہنچایا۔
اس ملک کی سرکاری سطح پر میسر کی جانے والی ہر سہولت پر سندھ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور صوبے کا۔ سندھ کے لوگوں کو سستی اور محفوظ سفری سہولت سے محروم رکھنا ناانصافی ہے۔ ہم وزیر ریلوے سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سندھ میں برسوں سے ند ریلوے اسٹاپ بحال کئے جائیں۔بند ٹرینیں چلائی جائیں۔ ریلوے ٹائیم ٹیبل عوام کی سہولت کے
مطابق مرتب کیا جائے۔ میرپورخاص بدین اور لاڑکانہ سمیت مختلف بندروٹس بحال کئے جائیں۔

Sindh Nama, Sindhi Press, Sindhi Media

سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، سندھ نامہ، سندھی پریس، سندھی میڈیا
Sindh Nama - Railway system and Sindh - Sohail Sangi - Nai Baat - Sindhi Press

No comments:

Post a Comment