70 فیصد ترقیاتی رقم کیوں خرچ نہیں ہوئی؟
سندھ نامہ سہیل سانگی
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ حکومت ترقیاتی بجٹ کا 70 فیصد حصہ استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس ترقیاتی بجٹ کے تحت 2250 منصوبوں میں سے صرف 500 منصوبے مکمل ہوسکے ہیں۔رواں مالی سال کے آٹھ ماہ میں 258 ارب روپے میں سے 20 ارب روپے جاری کئے گئے۔ باقی رقم جاری نہ ہونے یا استعمال نہ ہونے کی صورت میں مالی سال کے اختتام پر واپس خزانہ میں چلی جائے گی۔ ترقیاتی بجٹ کا استعمال توانائی، تعلیم، لوکل باڈیز، اور امداد باہمی کے شعبوں میں ہونا تھا۔ محکمہ تعلیم پر مختص بجٹ میں سے صرف 21 فیصد رقم خرچ کی جا سکی ہے۔ محکمہ توانائی پر مختص بجٹ میں سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہو سکا۔ انسانی حقوق اور اقلیتوں کے لئے مختص بجٹ کا 10 فیصد خرچ کیا جا سکا ۔
ان محکموں پر نظر ڈالی جائے تو ان شعبوں میں بحران کا پتہ چلتا ہے۔ توانائی کا کا بحران سندھ سمیت پاکستان کے دوسرے صوبوں مین بھی حاوی رہا۔ موسم سرما میں گیس کی اور موسم گرما میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ رہی۔ ان دونوں کا تعلق محکمہ توانائی سے ہے۔ لیکن تاحال اس شعبے کے ترقیاتی بجٹ پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔
سندھ میں تقریبا دس ہزار اسکول ایک کلاس روم پر مشتمل ہیں۔یعنی مناسب بلڈنگ کے بغیر ہیں۔صوبے میں ساٹھ لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔ 18 ہزار اسکولوں میں صرف ایک استادہے۔پچاس فیصد اسکولوں میں پینے کے پانی اور واش روم کی مناسب سہولیات موجود نہیں۔ جس محکمہ کی یہ صورتحال ہو وہاں 21 فیصد بجٹ استعمال ہو اور باقی تقریبا 80 فیصد بجٹ ضایع ہو جائے، اس کو عمل کو کیا نام دیا جائے۔
انسانی حقوق کے معاملے میں بھی صورتحال خاصی گمبھیر ہے۔ اقلیتی امور کے حوالے سے یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکیوں کا اغوا اور شادی کے واقعات آئے دن میڈیا میں رپورٹ ہوتے رھتے ہیں۔صوبائی حکومت ان عوای اہمیت کے مسائل پر کتنی سنجیدگی سے غور کررہی ہے، یہ قابل دید ہے۔
اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں کہ پینے کے پانی کا بحران شدت اختیار کررہا ہے کہیں ڈرینیج کا نظام درہم برہم ہے۔ شہریوں کو پبلک پارکس کی انتظامات کے بارے میں بھی شکایات ہیں۔جو کہ تباہی کا شکار ہین، جن کی مرمت کی ضرورت ہے، یہ وہ مسائل ہیں جن کا تعلق محکمہ بلدیات سے ہے۔ لیکن حکومت نیان تمام معاملات پر رقم خرچ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
یہ عجیب صورتحال نہیں کہ عوام کا پیسہ پڑا ہوا ہے اور عوام مسائل کا شکار ہیں، لیکن پیسے خرچ نہیں کئے جاتے۔ یہ رقم آئندہ دو ماہ بعد واپس محکمہ خزانہ میں چلی جائے گی۔یعنی ضایع ہو جائے گی۔ آخر یہ رقم ضایع کیوں کی جارہی ہے؟ سندھ میں لوگ جس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں وہ کسی طور پر بھی ایسی نہیں کہ لوگوں کو سہولیات پہنچانے کے لئے رقم خرچ کرنے کی ضرورت نہ ہو۔آج بھی جتنا ترقیاتی کام ادھورا ہے اور بعض منصوبے جن کی فوری ضرورت ہے، ان لئے ایسے دس بجٹ بھی کم ہونگے۔ صوبے کے عوامی نمائندوں کو چاہئے کہ وہ کوئی ایسا مکینزم بنائیں کہ ترقیاتی بجٹ پورے اور صحیح طور پر خرچ ہو سکے۔
بلاول بھٹو کی تھر یاترا
روزنامہ سندھ ایکسپریس ’’بلاول بھٹو کی تھر یاترا‘‘ کے عنوان سے لکھتا ہے کہ ملک کو ایک عرصے سے توانائی کے بحران کا سامنا ہے،اب ہم مالی بحران سے بھی گزر رہے ہیں۔ ایسے میں تھر کے دور دراز علاقے میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا دو بجلی گھروں کا افتتاح ہوا کے تازے جھونکے سے کم نہیں۔ اب یہ امید ہو چلی ہے کہ بجلی کی قلت دور رکنے کے لئے کچھ مزید بجلی دستیاب ہو گئی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے تھر میں این ای ڈی یونیورسٹی کھولنے کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئلے پر اصل حق مقامی باشندوں کا ہے۔ ان کو فائدہ پہنچانے کے لئے مقامی لوگوں کو مفت بجلی فراہم کی جائے گی اوران کے بل حکومت سندھ ادا کرے گی۔ یہ سب اچھی باتیں ہیں۔ لوگوں کو خوشی تب ہوگی جب ان اعلانات پر عمل ہوگا۔ کیونکہ ہماری حکومت اعلان کرنے میں دیر نہیں کرتی، لیکن جب کسی اعلان پر عمل نہیں کیا جائے گا تو لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ پائے گا۔
ایک اور بات جو حکومت کو سمجھنی چاہئے کہ صرف یونیورسٹی کا کیمپس کافی نہیں۔ کیونکہ کیمپس میں چند محدود شعبے ہوتے ہیں۔تھر کے لوگوں کو مکمل یونیورسٹی کی ضرورت ہے۔ یہ یونیورسٹی جدید شعبوں اور علوم کی ہونی چاہئے۔ اگر ٹیکنالاجی کا شعبہ ہے تو جدید ٹیکنالاجی سے متعلق شعبے ہونے چاہئے، تھر کو مفت بجلی کی فراہمی کے لئے فوری طور پر لائحہ عمل تیار کرنا چاہء کہ کتنے یونٹس تک بجلی مفت دی جائے گی، اور وہ کون لوگ ہونگے جو اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے؟ صرف بجلی کی فراہمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ غذائی قلت اور صحت کی سہولیات کی بھی کمی ہے۔ حکومت کو ان مسائل کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ سب سے اہم معاملہ اعلانات پر عمل درآمد اوران پر عمل کے وقت کا ہے۔
سندھ کے حصے سے ایف بی آر کی کٹوتی
حکومت سندھ نے ایف بی آر کی جانب سے سندھ کے حصے سے ود ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کے خلاف عدالت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت ایک اجلاس میں آگاہی دی گئی کہ گزشتہ برسوں کے دوران ایف بی آر نے ود ہولڈنگ ٹیکس کا جھوٹا دعوا کر کے سندھ کے حصے سے 7 ارب، 5 کروڑ، 47 لاکھ روپے کی کٹوتی کر لی ہے۔
حکومتی سطح پر بات چیت کے باوجود یہ رقم واپس نہیں کی جارہی۔ وزیراعلیٰ نے سیکریٹری خزانہ کو ہدایت کی کہ اس رقم پر سود کا بھی حساب لگایا جائے۔ تاکہ وفاق سے اس اصل رقم کے ساتھ سود کی رقم بھی وصول کی جاسکے۔ وزیراعلیٰ نے یہ بھی ہدایت کی کہ اس رقم کے حوالے سے پورا کیس تیار کیا جائے، تاکہ اس مقصد کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کیاجاسکے کیونکہ وفاقی حکام ہماری کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں۔
No comments:
Post a Comment