بلاول بھٹو کو غلط بریفنگ
میرے دل میرے مسافر ۔۔۔۔ سہیل سانگی
بلاآخر بلاول بھٹو نے تھر کے نوجوانوں کی آواز کو تسلیم کر لیا۔اور یہ اظہار کیا کہ وہ تھر کے لئے واقعی کچھ کرناچاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے تھر میں کوئلے سے چلنے والے 330 میگاواٹ کے دو بجلی گھروں کا افتتاح کرتے ہوئے تھر میں این ای ڈی یونیورسٹی کے کیمپس کے قیام اور ایک پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت جنرل یونیورسٹی کے قیام کے لئے وزیراعلیٰ سندھ کو ہدایات دی۔ گزشتہ ایک ہفتے سے تھر کے نوجوانوں اور فکر دانش کی طرف سے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا میں مہم چل رہی تھی کہ تھر میں یونیورسٹی قائم کی جائے ۔بلاول بھٹونے اس مہم کو مانتے ہوئے کہا کہ آج کل تھر میں یونیورسٹی کے لئے سوشل میڈیا پر مہم چل رہی ہے۔ تھر میں ایک نہیں دو یونیورسٹیاں ہونی چاہئیں۔
سندھ صوبے کی مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کا کام کرنے والے ساٹھ اساتذہ نے ایک غیر رسمی تنظیم تھر اکیڈمیہ فورم کے پلیٹ فارم سے حکومت سندھ، وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر حکام کو ایک درخواست ارسال کی کہ قحط زدہ اور پسماندہ تھر کی ترقی صرف یہاں پر موجود افرادی قوت کی ترقی سے ہی کی جاسکتی ہے۔مشترکہ درخواست بھیجنے ولاوں میں تین سابو وائیس چانسلرز، اور تیس سے زائد پی ایچ ڈی اسکالرز شامل ہیں۔ قحط کی صورت میں ہر سال حکومت کو قحط زدگان تک تین سے چار ارب روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ لہذا علاقے کی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ افرادی قوت کی ترقی یہاں پر اعلیٰ تعلیم و فنی تربیت کے ادارے قائم کرنے سے ہی ممکن ہے۔
تھر کے لوگوں کو شکایت رہی کہ تھر سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی و سینیٹ کی جانب سے تھرکی مجموعی ترقی کے لئے کوئی جامع مطالبہ نہیں پیش کیا گیا۔ یہ منتخب اراکین اسمبلی حکومت کی جانب سے دی گئی مختلف منصوبوں پر ہی مطمئن رہے۔ لیکن تھر کے پڑھے لکھے طبقے نے کئی برسوں کے انتظار کے بعد پہلکاری کردی۔ اس پہلکاری کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے سراہا اور تسلیم بھی کیا۔کئی ممالک میں ایسا ہی
ہوتا ہے کہ پہلکاری پڑھا لکھا طبقہ ہی کرتا ہے۔
بلاول بھٹو کے اس اعلان کو سمجھنے کے لئے اصل مطالبے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر یہ مطالبہ اساتذہ کی جانب سے پٹیشن بھیجنے کے بعد تین روز تک دوسرے یاور تیسرے نمبر پرٹرینڈ بنا رہا رہا۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ تھر آج کل بہت ہی تکلیف دہ صورتحال سے گزررہا ہے۔ بارش کے آسرے پر چھوڑے ہوئے اس صحرائی علاقے کو پانی کی قلت، غذائیت کی کمی، بھوک اوربدترین افلاس، صحت کی بری حالت، پسماندگی ، تعلیم کی کمی، بیروزگاری کے سخت چیلینجز کاسامنا ہے۔ یہ سب مسائل نئے نہیں، درحقیقت ایک طویل عرصے سے جاری ان مسائل نے انسانی جانیں بھی لی ہیں۔
تھر بائیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا اٹھارہ لاکھ آبادی ولا یہ علاقہ چوبیس ہزار دیہات پر مشتمل ہے جو کہ صوبے میں انسانی ترقی کے انڈیٰکس میں 29 ویں نمبر پر ہے۔ تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔تھر کی ساتھ تحصیلوں میں صرف دو کالج اور آٹھ ہائر سیکنڈری اسکول ہیں۔ جن میں سے چار کی سرکاری طور پر بطور ادارے کے منطوری نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ اور دیگر سہولیات کی کمی ہے۔کوئی اعلیٰ تعلیمی ادارہ چار سو کلو میٹر کی رینج میں موجود نہیں۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ غربت کی وجہ سے اس پسماندہ علاقے کے بچے یونیورسٹی یا اعلیٰ فنی تعلیم کیلئے حیدرآباد اور کراچی تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس وجہ سے تعلیم ان کے لئے کم پرکشش ہو جاتی ہے اور شرح خواندگی مین مزید کمی کا باعث بنتی ہے۔
انٹرمیڈیٹ تک پڑھنے والوں میں سے بمشکل پانچ فیصد بچے شہر اور اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتے ہیں۔یونیورسٹی کے قیام سے مجموعی طور پر اور خاص طور پر خواتین میں شرح خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ اسکالرز کے مطابق پائدار ترقی کے لئے سائنس ، ٹیکنیکل اور سماجی علوم کی اعلیٰ تعلیم ضروری ہے۔
تھر کی بھوک، بدترین غربت اور تکالیف کو دور کرنے کے لئے اس صحرائی علاقے میں سرکاری شعبے میں کثیر شعبہ جاتی یونیورسٹی کا قیام ضروری ہو گیا ہے۔ تھر کول پروجیکٹ اور وہاں سے بجلی گھروں کی تعمیر سے علاقے میں روزگار اور کاروبار کے مزید مواقع نکلیں گے۔ تھر کے لوگ اگر مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گے تو یہ ایک بڑا موقعہ اس علاقے کے غریب لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا اور تمام تر ترقی کے باجود یہ لوگ غریب ہی رہیں گے۔ ترقی ان سے کوسوں دور ہی رہے گی۔
ایک روز پہلے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے حیدرآباد یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر کہا کہ وزیراعظم عمران خانتھر میں یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے ہیں اور اگلی ملاقات میں وہ وزیراعظم سے اس موضوع پر بات کریں گے۔ تھر کاا مسئلہ بچوں کی اموات کی مسلسل خبروں کی وجہ سے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ گورنر کے اس بیان نے مزید دباؤ پیدا کردیا۔ حالانکہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ چھاچھرو کے موقع پر استقبالیہ تقریر میں تھر یویورسٹی کی فرمائش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اس معاملے کو گول کردیا تھا۔
یہ ایک مثبت امر ہے کہ بلاول بھٹو نے عوامی دباؤ کو تسلیم کیا۔فوری ردعمل کے طور پر ان اعلانات کو سراہا جارہا ہے۔ لیکن ان کے ان اعلانات میں کیا کیا ہے؟بلاول نے تھر جانے سے ایک روز قبل اجلاس میں پوچھا تھا کہ تھر یونیورسٹی کا مطالبہ ہو رہا ہے اس کے بارے میں کیاکرنا ہے؟ لگتا ہے کہ بلاول صاحب کو صحیح بریفنگ نہیں دی گئی۔
بلاول بھٹو سے پہلے تھر کول منصوبے کی ایک کمپنی سندھ اینگرو کے سابق چیف شمس الدین شیخ مئی 2018 میں این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے تھر کیمپس کے قیام کا اعلان کر چکے ہیں۔ یونیورسٹی تھر کے علاقے اسلام کوٹ میں انہوں نے یہ اعلان کراچی میں منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں کیا تھا۔ ایک کول کمپنی کے اعلان کردہ منصوبے کو دوبارہ پارٹی سربراہ سے ایک سال بعد کرایا گیا۔ این ای ڈی یونیورسٹی کی یہ تجویز ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد نے چند ہفتے پہلے منظور بھی کر لی ہے۔ یہ تجویز بطور سندھ اینگرو کے ایک پروجیکٹ کے طور پر ہے۔ماہرین کے مطابق یہ کول کمپنی چاہتی ہے کہ کول منصوبے اور اس سے متعلق اپنے حق میں تحقیق اور رائے عامہ بنانے کے لئے ایک ایسا ادارہ قائم کرے۔ اور اپنی پسند کی رپورٹس بنوائے۔
تھر میں یونیورسٹی کے قیام کے اعلانات کی کہانی پرانی ہے۔ 2012 میں سندھ اسمبلی نے تھر میں ی کراچی یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔ سندھ یونیورسٹی نے تو 2017 میں تھر کیمپس کا باقاعدہ اعلان کر کے داخلے کا شیڈیول بھی جاری کیا تھا۔زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
بلاول بھٹو نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں جنرل یونیورسٹی کی بات کی ہے جس کے لئے انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو ہوم ورک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے میں کئی اجلاس اور رپورٹس کی ضرورت پڑے گی۔اور ایک طویل وقت لگے گا۔کیا یہ یونیورسٹی بھی کول کمپنیوں کی حصیداری سے ہوگی؟پرائیویٹ پارٹنرشپ میںیونیورسٹی کی تجویز تھر کے لئے کتنی قابل عمل ہے؟ تھر کا بچہ جو اسکول کی فیس بھی نہیں دے سکتا وہ پرائیویٹ یونورسٹی کے اخراجات کیسے پورے کر پائے گا؟
پیپلزپارٹی کے سپریمو آصف علی زرداری نے بھی دو سال پہلے تھر ایرڈ یونیورسٹی کے قیام کا علان کیا تھا اور وزیراعلیٰ سندھ کو ہدایات دی تھی۔ لیکن تاحال کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔ اب یہ اعلان دوسری شکل میں پیش کیا جارہا ہے۔بلاول بھٹو نے تھر کی ترقی کے لئے جیسا کہ اظہار کیا ہے اس کو اسی جذبے اور روح کے ساتھ عمل کرائیں۔
تھر میں یونیورسٹی کے قیام کے اعلانات کی کہانی پرانی ہے۔ 2012 میں سندھ اسمبلی نے تھر میں کراچی یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔ سندھ یونیورسٹی نے تو 2017 میں تھر کیمپس کا باقاعدہ اعلان کر کے داخلے کا شیڈیول بھی جاری کیا تھا۔زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
میرے دل میرے مسافر ۔۔۔۔ سہیل سانگی
بلاآخر بلاول بھٹو نے تھر کے نوجوانوں کی آواز کو تسلیم کر لیا۔اور یہ اظہار کیا کہ وہ تھر کے لئے واقعی کچھ کرناچاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے تھر میں کوئلے سے چلنے والے 330 میگاواٹ کے دو بجلی گھروں کا افتتاح کرتے ہوئے تھر میں این ای ڈی یونیورسٹی کے کیمپس کے قیام اور ایک پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت جنرل یونیورسٹی کے قیام کے لئے وزیراعلیٰ سندھ کو ہدایات دی۔ گزشتہ ایک ہفتے سے تھر کے نوجوانوں اور فکر دانش کی طرف سے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا میں مہم چل رہی تھی کہ تھر میں یونیورسٹی قائم کی جائے ۔بلاول بھٹونے اس مہم کو مانتے ہوئے کہا کہ آج کل تھر میں یونیورسٹی کے لئے سوشل میڈیا پر مہم چل رہی ہے۔ تھر میں ایک نہیں دو یونیورسٹیاں ہونی چاہئیں۔
سندھ صوبے کی مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کا کام کرنے والے ساٹھ اساتذہ نے ایک غیر رسمی تنظیم تھر اکیڈمیہ فورم کے پلیٹ فارم سے حکومت سندھ، وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر حکام کو ایک درخواست ارسال کی کہ قحط زدہ اور پسماندہ تھر کی ترقی صرف یہاں پر موجود افرادی قوت کی ترقی سے ہی کی جاسکتی ہے۔مشترکہ درخواست بھیجنے ولاوں میں تین سابو وائیس چانسلرز، اور تیس سے زائد پی ایچ ڈی اسکالرز شامل ہیں۔ قحط کی صورت میں ہر سال حکومت کو قحط زدگان تک تین سے چار ارب روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ لہذا علاقے کی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ افرادی قوت کی ترقی یہاں پر اعلیٰ تعلیم و فنی تربیت کے ادارے قائم کرنے سے ہی ممکن ہے۔
تھر کے لوگوں کو شکایت رہی کہ تھر سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی و سینیٹ کی جانب سے تھرکی مجموعی ترقی کے لئے کوئی جامع مطالبہ نہیں پیش کیا گیا۔ یہ منتخب اراکین اسمبلی حکومت کی جانب سے دی گئی مختلف منصوبوں پر ہی مطمئن رہے۔ لیکن تھر کے پڑھے لکھے طبقے نے کئی برسوں کے انتظار کے بعد پہلکاری کردی۔ اس پہلکاری کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے سراہا اور تسلیم بھی کیا۔کئی ممالک میں ایسا ہی
ہوتا ہے کہ پہلکاری پڑھا لکھا طبقہ ہی کرتا ہے۔
بلاول بھٹو کے اس اعلان کو سمجھنے کے لئے اصل مطالبے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر یہ مطالبہ اساتذہ کی جانب سے پٹیشن بھیجنے کے بعد تین روز تک دوسرے یاور تیسرے نمبر پرٹرینڈ بنا رہا رہا۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ تھر آج کل بہت ہی تکلیف دہ صورتحال سے گزررہا ہے۔ بارش کے آسرے پر چھوڑے ہوئے اس صحرائی علاقے کو پانی کی قلت، غذائیت کی کمی، بھوک اوربدترین افلاس، صحت کی بری حالت، پسماندگی ، تعلیم کی کمی، بیروزگاری کے سخت چیلینجز کاسامنا ہے۔ یہ سب مسائل نئے نہیں، درحقیقت ایک طویل عرصے سے جاری ان مسائل نے انسانی جانیں بھی لی ہیں۔
تھر بائیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا اٹھارہ لاکھ آبادی ولا یہ علاقہ چوبیس ہزار دیہات پر مشتمل ہے جو کہ صوبے میں انسانی ترقی کے انڈیٰکس میں 29 ویں نمبر پر ہے۔ تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔تھر کی ساتھ تحصیلوں میں صرف دو کالج اور آٹھ ہائر سیکنڈری اسکول ہیں۔ جن میں سے چار کی سرکاری طور پر بطور ادارے کے منطوری نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ اور دیگر سہولیات کی کمی ہے۔کوئی اعلیٰ تعلیمی ادارہ چار سو کلو میٹر کی رینج میں موجود نہیں۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ غربت کی وجہ سے اس پسماندہ علاقے کے بچے یونیورسٹی یا اعلیٰ فنی تعلیم کیلئے حیدرآباد اور کراچی تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس وجہ سے تعلیم ان کے لئے کم پرکشش ہو جاتی ہے اور شرح خواندگی مین مزید کمی کا باعث بنتی ہے۔
انٹرمیڈیٹ تک پڑھنے والوں میں سے بمشکل پانچ فیصد بچے شہر اور اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں یونیورسٹیوں تک پہنچ پاتے ہیں۔یونیورسٹی کے قیام سے مجموعی طور پر اور خاص طور پر خواتین میں شرح خواندگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ اسکالرز کے مطابق پائدار ترقی کے لئے سائنس ، ٹیکنیکل اور سماجی علوم کی اعلیٰ تعلیم ضروری ہے۔
تھر کی بھوک، بدترین غربت اور تکالیف کو دور کرنے کے لئے اس صحرائی علاقے میں سرکاری شعبے میں کثیر شعبہ جاتی یونیورسٹی کا قیام ضروری ہو گیا ہے۔ تھر کول پروجیکٹ اور وہاں سے بجلی گھروں کی تعمیر سے علاقے میں روزگار اور کاروبار کے مزید مواقع نکلیں گے۔ تھر کے لوگ اگر مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل نہیں کر پائیں گے تو یہ ایک بڑا موقعہ اس علاقے کے غریب لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا اور تمام تر ترقی کے باجود یہ لوگ غریب ہی رہیں گے۔ ترقی ان سے کوسوں دور ہی رہے گی۔
ایک روز پہلے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے حیدرآباد یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب کے موقعہ پر کہا کہ وزیراعظم عمران خانتھر میں یونیورسٹی قائم کرنا چاہتے ہیں اور اگلی ملاقات میں وہ وزیراعظم سے اس موضوع پر بات کریں گے۔ تھر کاا مسئلہ بچوں کی اموات کی مسلسل خبروں کی وجہ سے موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ گورنر کے اس بیان نے مزید دباؤ پیدا کردیا۔ حالانکہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ چھاچھرو کے موقع پر استقبالیہ تقریر میں تھر یویورسٹی کی فرمائش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اس معاملے کو گول کردیا تھا۔
یہ ایک مثبت امر ہے کہ بلاول بھٹو نے عوامی دباؤ کو تسلیم کیا۔فوری ردعمل کے طور پر ان اعلانات کو سراہا جارہا ہے۔ لیکن ان کے ان اعلانات میں کیا کیا ہے؟بلاول نے تھر جانے سے ایک روز قبل اجلاس میں پوچھا تھا کہ تھر یونیورسٹی کا مطالبہ ہو رہا ہے اس کے بارے میں کیاکرنا ہے؟ لگتا ہے کہ بلاول صاحب کو صحیح بریفنگ نہیں دی گئی۔
بلاول بھٹو سے پہلے تھر کول منصوبے کی ایک کمپنی سندھ اینگرو کے سابق چیف شمس الدین شیخ مئی 2018 میں این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کے تھر کیمپس کے قیام کا اعلان کر چکے ہیں۔ یونیورسٹی تھر کے علاقے اسلام کوٹ میں انہوں نے یہ اعلان کراچی میں منعقدہ ایک عالمی کانفرنس میں کیا تھا۔ ایک کول کمپنی کے اعلان کردہ منصوبے کو دوبارہ پارٹی سربراہ سے ایک سال بعد کرایا گیا۔ این ای ڈی یونیورسٹی کی یہ تجویز ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد نے چند ہفتے پہلے منظور بھی کر لی ہے۔ یہ تجویز بطور سندھ اینگرو کے ایک پروجیکٹ کے طور پر ہے۔ماہرین کے مطابق یہ کول کمپنی چاہتی ہے کہ کول منصوبے اور اس سے متعلق اپنے حق میں تحقیق اور رائے عامہ بنانے کے لئے ایک ایسا ادارہ قائم کرے۔ اور اپنی پسند کی رپورٹس بنوائے۔
تھر میں یونیورسٹی کے قیام کے اعلانات کی کہانی پرانی ہے۔ 2012 میں سندھ اسمبلی نے تھر میں ی کراچی یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔ سندھ یونیورسٹی نے تو 2017 میں تھر کیمپس کا باقاعدہ اعلان کر کے داخلے کا شیڈیول بھی جاری کیا تھا۔زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
بلاول بھٹو نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں جنرل یونیورسٹی کی بات کی ہے جس کے لئے انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو ہوم ورک کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے میں کئی اجلاس اور رپورٹس کی ضرورت پڑے گی۔اور ایک طویل وقت لگے گا۔کیا یہ یونیورسٹی بھی کول کمپنیوں کی حصیداری سے ہوگی؟پرائیویٹ پارٹنرشپ میںیونیورسٹی کی تجویز تھر کے لئے کتنی قابل عمل ہے؟ تھر کا بچہ جو اسکول کی فیس بھی نہیں دے سکتا وہ پرائیویٹ یونورسٹی کے اخراجات کیسے پورے کر پائے گا؟
پیپلزپارٹی کے سپریمو آصف علی زرداری نے بھی دو سال پہلے تھر ایرڈ یونیورسٹی کے قیام کا علان کیا تھا اور وزیراعلیٰ سندھ کو ہدایات دی تھی۔ لیکن تاحال کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔ اب یہ اعلان دوسری شکل میں پیش کیا جارہا ہے۔بلاول بھٹو نے تھر کی ترقی کے لئے جیسا کہ اظہار کیا ہے اس کو اسی جذبے اور روح کے ساتھ عمل کرائیں۔
تھر میں یونیورسٹی کے قیام کے اعلانات کی کہانی پرانی ہے۔ 2012 میں سندھ اسمبلی نے تھر میں کراچی یونیورسٹی کا کیمپس قائم کرنے کی قرارداد منظور کی تھی۔ سندھ یونیورسٹی نے تو 2017 میں تھر کیمپس کا باقاعدہ اعلان کر کے داخلے کا شیڈیول بھی جاری کیا تھا۔زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔
http://e.naibaat.pk/ePaper/lahore/12-04-2019/details.aspx?id=p10_04.jpg
سہیل سانگی کالم ، اردو کالم، میرے دل میرے مسافر
No comments:
Post a Comment