Sunday, October 4, 2015

عوام کے لاکھوں ووٹوں پر شوگر ملوں کے 30 ووٹ بھاری۔۔۔

روزنامہ عوامی آواز ’’ عوام کے لاکھوں ووٹوں کے بجائے شوگر ملوں کے 30 ووٹ ‘‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ گنے کے کاشتکاروں کو گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی خراب کرنے کی صورت حال جاری رکھی جائے گی یا اس میں کچھ تبدیلی لائی جائے گی؟ سندھ نے گزشتہ برس یہ بھگتا کہ گنے کے بجائے کاشتکار پستیرہیں۔ ان کی فصل ضائع ہوتی رہی۔ شوگر مال مالکان حکومت کو کو جیسے کہیں گے وہ ویسا ہی کرے گی ۔ اجلاس طلب کر کے دو تین مرتبہ تاریخیں دی جائیں گی۔ گنے کی قیمت بڑھنے کے بجائے امدادی قیمت مقرر کرنے میں اتنی دیر کی جائے گی کہ گنے کا رس اور کاشتکاروں کا خون بھلے تب تک خشک ہو جائے۔
خبر ہے کہ گنے کی امدادی قیمت مقرر نہیں کی جاسکی ہے شوگر مل مالکاں نے اکتوبر میں گنے کی پیسائی
 شروع کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے ان احکامات کو انہوں نے مسترد کر دیا ہے کہ شوگر ملیں گنے کی پیسائی دس اکتوبر سے شروع کریں۔ مل مالکان نے گنے کی قیمت 169 روپے فی من خود دینے اور حکومت کی جانب سے کاشتکاروں کو سبسڈی دینے کامطالبہ کردیا ہے صوبائی وزیر زراعت نے وزیر اعلیٰ سے مشاورت کے لئے دس روز کی مہلت مانگی ہے۔
گنے کی امدادی قیمت اور پیداواری ہدف مقرر کرنے کے لئے صوبائی وزیر زراعت سردار علی نواز مہر کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں کاشتکاروں کے نمائندوں نے مطالبہ کیا کہ گنے کی امدادی قیمت 230 روپے فی من مقرر کی جائے۔ کیونکہ گزشتہ برسوں کے دوران پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔
پنجاب میں گنے کی قیمت 184 روپے فی من مقرر کی گئی ہے۔ سندھ میں مخصوص حالات کے پیش نظر یہ قیمت 230 روپے کی جائے۔ جس پر پاکستان شوگر ملز ایسو سی ایشین سندھ زون کے عہدیداران نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ امدادی قیمت 160 روپے برقرار رکھتے ہوئے حکومت مل مالکان کو 12 روپے فی من کے حساب سے سبسڈی دے۔ ان کا کہنا ہے کہ گنے کی قیمت بڑھانے کے لئے چینی کی قیمت میں بھی اضافہ ضروری ہے۔ کیونکہ کارخانے چار ماہ میں بارہ ماہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چینی تیار کرتے ہیں۔ اگر گنے کی قیمت بڑھائی گئی تو ہر طرف گنے کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔ پھر چینی کے ذخائر جمع ہو جائیں گے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ دونوں فریقین کی تجاویز جمع کرنے کے بعد حکومت 10- 12 روز میں سندھ شوگر کین بورڈ کا اجلاس طلب کر کے گنے کی امدادی قیمت کا اعلان کرے گی۔ سندھ آبادگار بورڈ کے نمائندے ذوالفقار یوسفانی کا کہنا ہے کہ مل مالکان ضد پر کھڑے ہیں۔انہوں نے گزشتہ سال کی قیمت یعنی 160 روپے فی من اور حکومت کی جانب سے 12روپے فی من پر سبسڈی دینے کامطالبہ کیا ہے۔ مل مالکان نے واضح طور پر صوبائی وزیر زراعت کو بتایا کہ وہ 10 اکتوبر سے کرشنگ شروع نہیں کر سکتے۔ بلکہ نومبر کے آخر یا دسمبر میں ملوں کی چمنیاں جلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال چینی کی قیمت 45 روپے فی کلو تھی جو اب بڑھ کر 65 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔
پیپلزپارٹی کے پاس اب صرف سندھ صوبے میں ہی حکومت ہے۔ پارٹی کے رہنماؤں کو چاہئے کہ سندھ کے کسانوں اور عوام کے بھلے کے لئے بعض اچھے کام بھی کرنا شروع کرے۔ اگر 30 شوگر ملوں کے 30 مالکان یا تیس سرمایہ دار خاندانوں کے مفادات سے بہتر وہ لاکھوں عوام ہیں جو ان تیس خاندانوں کے مقابلے میں ووٹ دے سکتے ہیں۔
روزنامہ کاوش ارسا کے اجلاس میں پانی کی قلت کا ذکر کے عنوان سے لکھتا ہے کہ یکم اکتوبر سے شروع ہونے والی ربیع کے موسم کے دوران 14 فیصد پانی کی قلت کا جائزہ لینے اور اس کمی کو سامنے رکھ کر صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا فارمولا طے کرنے کے لئے گزشتہ روز ارسا کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں تین صوبوں کے ممبران اور سندھ کے ایڈیٰشنل سیکریٹری نے شرکت کی ۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ یکم اپریل سے 30 ستمبر تک بہت سار پانی سمندر میں ضایع ہو چکا ہے ۔ لہٰذا ربیع میں صوبوں کو 14 فیصد کم پانی فراہم کیا جائے گا۔ ربیع میں سندھ کو 12.90 ملین ایکڑ فٹ، پنجاب کو 17.08 ملین ایکڑ فٹ، بلوچستان کو 1.02 ملین فٹ پانی فراہم کیا جائے گا۔ جبکہ خیبر پختونخوا کو 0.70 ملین فٹ پانی مل سکے گا۔ اجلاس میں پنجاب کے نمائندے نے ایک بار پھر یہ نقطہ اٹھایا کہ کالاباغ ڈٰیم، بھاشا اور اکھوڑی ڈیم اگر بن جاتے تو اتنا پانی ضائع نہیں ہوتا۔ اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری سندھ نے پنجاب کی جانب سے چشمہ جہلم لنک کینال کے ذریعے پانی حاصل کرنے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔
دوسرے صوبوں کے مقابلے میں صوبہ سندھ اس وجہ سے بھی پانی کی قلت کو زیادہ برداشت کرتا ہے کہ کیونکہ یہ صوبہ ٹیل پر ہے۔ پانی ملک کے بالائی صوبوں سے ہو کر یہاں پہنچتا ہے۔ ارسا نے فیصلہ کیا ہے کہ ربیع کی سیزن کے دوران صوبوں کو 14 فیصد کم پانی فراہم کیا جائے گا۔ لیکن عملا سندھ کو اس سے بھی زیادہ قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سندھ پانی کی قلت کے خلاف مسلسل شکایات اور احتجاج ریکارڈ کراتا رہا ہے۔ لیکن صورتحال یہ بنی ہے کہ ماضی میں جو معاہدے ہوئے ان پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔ ارسا کے اجلاس میں ایک بار پھر کالاباغ ڈٰیم کی راگنی چھیڑی گئی ہے۔ اگرچہ تین صوبے سرکاری طور پر کئی بار اس منصوبے کو مسترد کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود پنجاب ہر مرتبہ سرکاری طور پر یہ ضروری سمجھتا ہے کہ وہ اس متنازع آبی منصوبے کا ذکر کرے۔ پنجاب جس پانی کو سمندر میں جانے کو ضیاع سمجھتا ہے یہ پانی کوٹری سے نیچے سمندر تک کے علاقے کی معیشت اور ڈیلٹا کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ بلکہ سمندر میں کم مقدار میں پانی چھوڑنے کی وجہ سے ہر سال سمندر سندھ کی ہزاروں ایکڑ زمین نگل جاتا ہے ۔ اگر صوبوں کو کم پانی دیا گیا تو لازمی طور پر یہاں کی فصلیں متاثر ہونگی جس سے معیشت اور عام لوگوں کے زندہ رہنے کے وسائل میں کمی واقع ہوگی۔ پانی کی قلت ختم کرنے کے دیگر طریقے بھی ہیں جنہیں اپنانے کی ضرورت ہے، یہ ضروری تو نہیں کہ کالاباغ کے مردہ گھوڑے کو ہر بار اٹھایا جائے اور صوبوں کے درمیاں غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔

No comments:

Post a Comment