Friday, October 23, 2015

خاموش بلدیاتی اانتخابات اور جعلی بھرتیاں

روزنامہ نئی بات
Sindh Nama - Sohail Sangi

سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی 

سندھ میں خاموش بلدیاتی اانتخابات ہونے جارہرے ہیں ان انتخابات کی پولنگ میں باقی ایک ہفتہ ہے، لیکن تاحال انتخابی مہم شروع ہی نہیں ہوئی۔ نہ روایتی گہماگہمی ہے، نہ بینر نہ پوسٹر، نہ کارنر میٹینگیں۔امیدواروں عوام سے رجوع نہیں کر پائے ہیں۔ لہٰذا پروگرام یا وعدے وعید بھی نہیں ہو رہے ہیں۔ امیدوار اور سیاسی جماعتیں صرف چند بااثر افراد کی حمایت کرنے کی سعی میں ہیں۔ یہ بھی شکایات ہیں کہ وقت پر امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری نہیں کی گئی۔ یہ انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں نہیں بلکہ انتظامیہ کی نگرانی میں ہو رہے ہیں۔ جہاں پر رٹرننگ افسران روینیو، اور دیگر صوبائی محکموں سے لئے گئے ہیں۔ ان انتخابات کی حلقہ بندیوں اور رٹرننگ افسران کے تقرر پر آخر وقت تک اعتراضات جاری رہے۔ ان تمام شکایات میڈیا میں رپورٹ ہوتی رہی۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ مخالفین کو انتخابات سے باہر رکھنے کے لئے ان کو ہرااں کرنے اور دباؤ ڈالنے کی اطلاعات ملی ہیں۔ شہدادکوٹ میں سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے امیدوار سردار جروار کے گھر پر ڈی ایس پی کی سرکردگی میں ’’ چھاپہ‘‘ مارا اور ان کے چار مالزمین کو گرفتار کر لیا۔ بعد میں مذاکرات کے بہانے سردار جروار کو بھی بلا کر انہیں گرفتار کر لای گیا۔ نوابشاہ میں پی ٹی آئی کے امیدوار گل بہار خاصکیلی کو دستبردار ہونے کے لئے اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ انہوں نے تنگ آکر خود کشی کرنے کی کوشش کی ۔ مختلف اضلاع میں آر اوز پر جانبداری اور حکومتی فریق ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں احتجاج بھی ہوتے رہے لیکن الیکشن کمیشن نے ان شکایات اور احتجاجوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی وڈیروں کی انا کی بلی تھیلی سے باہر آگئی۔ مست فیل کی طرح اس انا کو نہ انتظامیہ اور نہ کوئی قانون روک سکا ہے ۔ خود کو جدی پشتی ھاکم سمجھنے والے ان سے ہم صری یا برابری کا حق کسی اور کو دینے کے لئے تیار نہیں۔ دنیا میں بھلے ایسے منصبوں کو عوامی خدمت کا منصب سمجھا جاتا ہو، اور وہاں پر عوامی نمائندگی کو ضروری سمجھا جاتا ہو، لیکن ہمارے ہاں یہ وڈیرا شاہی کسی طور پر بھی مسند چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ انتظامیہ کی طاقت بھی ’’ حاکم کھڑی ہاں میں تیرے بنگلے دے نال‘‘ کے مثل ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ الیکشن کمیشن اور حکومت سندھ کو ان شکایات کا فوری طور پر نوٹس لینا چاہئے اور ان کا ازالہ کرنا چاہئے، تاکہ انتخابات شفاف اور غیر متنازع بن سکیں۔ 
روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ حکومت سندھ کی خصوصی انکوائری کمیٹی نے تصدیق کی ہے کہ پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں محکمہ بلدیات میں 13 ہزار غیر قانونی ملازمین بھرتی ہوئے ہیں۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ان بھرتیوں کو کالعدم قرار دیا جائے۔ چیف منسٹر انپیکشن ٹیم نے سال 2012 کے دوران کی گئی غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق رپورٹ وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سیکریٹری کو بھیج دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تحقیقت کے دوران تقرر نامے اور ان کی تصدیق کے احکامات جعلی ثابت ہوئے ہیں۔ اکثر ملازمین کو ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں تبادلہ کر کے جعلی بھرتیاں کی گئی ہیں۔
میرٹ کو کچلنے کی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ معاملہ پیسوں کے عوض ہو یا کسی کی چٹھی یا سفارش پر بھرتی کا ہو، ملازمتیں نیلام ہوتی رہی ہیں۔ اہل اور باصالاحیت نوجوانوں کی حق تلفی ہوتی رہی ہے۔ ایک ہی محکمہ میں 13 ہزار بھرتیاں کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اہلیت اور میرٹ کا گلا گھونٹنے والوں کو احتساب کیا جائے۔ اور جعلی بھرتیوں کا ہمیشہ کے لئے راستہ بند کرنے کی تدابیر کی جائیں۔ 
روزنامہ عبرت نے میرٹ کو نظر انداز کرنا کے عنوان سے سندھ پبلک سروس کمیشن کے دفتر پو نیب کے چھاپے کے حوالے سے اداریہ لکھا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ تعلیمی بورڈز اور وہ ادارے جہاں پر مقابلے امتحانات کے ذریعے گریڈ 16 اور 17 میں بھرتیاں کی جاتی ہیں ان کے ابرے میں شکایات گزشتہ کچھ برسوں سے مسلسل ر ہی تھی۔ یہ بھی ہوتا رہا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کو ایک طرف رکھ کر ایڈہاک بنیادوں پر بارہ راست افسران کی بھرتیاں کی گئیں۔ سندھ پبلک سروس کمیشن میں 2003 میں ہونے والی بدعنوانی اک اب نوٹس لیا گیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے سندھ کے مختلف محکموں میں کرپشن کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہے۔ سندھ کا کوئی بھی ذی شعور شخص اپنے اداروں کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتا۔ کیونکہ یہ ادارے سلامت ہونگے تو سندھ اور یہ ملک بھی سلامت ہوگا۔ باقی لوٹ مار کرنے والے عناصر کو نہ سندھ سے نہ اداروں سے اور نہ ہی سندھ کے عوام سے کوئی دلچسپی ہے ۔ حیدرآباد تعلیمی بورڈ میں ایجنٹوں کے ذریعے پیسے وٓصول کر کے رزلٹ تبدیل کئے جاتے رہے۔ اور کرپشن کے ذریعے من پسند نمبر اور گریڈ دیئے جاتے رہے۔ ان شکایات پر کئی بار چاھپے مارے گئے، جوابا افسران کے گھروں پر فائرنگ کی گئی۔ رواں سال کسی حد تک حیدرآباد تعلیمی بورڈ میں رزلٹ میں اس ہیرا پھیری کو روکا جاسکا ہے۔ اسی طرح کی ہیرا پھری سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات میں بھی ہوتی رہی۔ جس کی اب تحقیقات کی جارہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں تعلیمی بورڈ اور سندھ پبلک سروس کمیشن کے ماتحانات اور نتائج کو شفاف بنانا از حد ضروری ہے، کیونکہ ایک طرف ملک کی انتظامی مشنری چلانے کے لئے اہل افراد کا سامنے آنا ضروری ہے تو دوسری طرف محنتی نوجوانوں کو ان کا حق دینا ضروری ہے۔

October 23, 2015 for nai baat 

No comments:

Post a Comment