Friday, October 23, 2015

کالاباغ ڈیم کی بحث

Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ: سہیل سانگی 
روزنامہ نئی بات

سندھ  نامہ ۔۔۔ سہیل سانگی 

کالاباغ ڈیم کی بحث نے سندھ کے سیاسی، اور عوامی حلقوں میں ایک بار پھر ہلچل پیدا کردی ہے۔ تمام اخبارات نے اداریوں، کالموں اور مضامین کے ذریعے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے۔ گزشتہ روز حیدرآباد میں کالاباغ ڈیم پر ایک ڈائلاگ بھی منعقد ہوا، جس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس متنازع آبی منصوبے کو سندھ کے لئے نقصان دہ قرار دیا۔ 
روزنامہ سندھ ایکسپریس نے ’زکر ڈاؤن اسٹریم کوٹری زندگی کا‘‘ کے عنوان سے اداریہ میں لکھتا ہے کہ مطلوبہ پانی ڈاؤن اسٹریم کوٹری نہ چھوڑنے کی وجہ سے ہزاروں میل کے علاقے میں زندگی اور جینے کے وسائل تباہ ہوئے ہیں اس کا ذکر وقتا فوقتا اقتداری حلقوں میں ہوتا رہا ہے۔ لیکن جب بھی سندھ کو پانی دینے کا سوال آتا ہے تو حکومت بالکل انکاری ہو جاتی ہے۔ 
حال ہی میں سنیٹ کی منصوبہ بندی اور ترقی کے بارے میں اسٹینڈنگ کمیٹی نے داؤں اسٹریم کوٹری پانی نہ چھوڑنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ روزانہ پانچ ہزار کیوسک پانی چھوڑا جائے۔کیونکہ پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے ہر سال پچاس ہزار ایکڑ زمین سمندر اپنے لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اب تک 24 لاکھ ایکڑ زمیں سمندر ہضم کر چکا ہے۔ اگر اس حساس مسئلے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو آئندہ پچاس سال میں کراچی ٹھٹہ، سجاول اور بدین سمندر میں ڈوب جائیں گے۔ 
اخبار لکھتا ہے حال ہی میں وفاقی وزیر پانی و بجلی نے کالاباغ ڈیم کے حق میں جو کیس بنانے کی کوشش کی ہے وہ زمینی حقائق کے برعکس ہے۔
ڈاؤن اسٹریم کوٹری پانی چھوڑنے کو زیان قرار دینا غلط ہے۔ ڈاؤن اسٹریم کوٹری لاکھوں لوگ ہزاروں برس سے آباد ہیں ۔ جن کا دیرائے سندھ پر حق ہے۔ ہ سنیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی سفارشات کو اس حوالے سے سب سے بڑی سچائی سمجھتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان سفرشات پر عمل کیا جائے۔ 
’’تھر کول منصوبے پر وفاق کی عدم دلچسپی ‘‘کے عنوان سے’’ روزنامہ عبرت ‘‘اداریے میں لکھتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان شکایات کی طویل تاریخ ہے۔ جبکہ سندھ اور بلوچستان کے پاس شکایات کی ایک طویل فہرست بھی ہے۔ جس کے نتیجے میں ان دونوں صوبوں میں مختلف تحریکیں سر اٹھاتی رہی ہیں۔

بلوچستان باقاعدہ جنگ کے مرحلے سے بھی گزرتا رہا ہے۔ اس کے باوجود وفاق کے رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ان دونوں صوبوں کو مفتوح ہونے کا احساس دلایا جاتارہا ہے۔ اسی نوعیت کی شکایات اتوار کے روز وزیر اعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ تھر کول اور انرجی بورڈ کے اجلاس کے دوران سننے میں آئی ۔ اجلاس میں بورڈ کے ممبران نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت تھر کول منصوبے کو اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وفاق کے نمائندے تھر کول انجی بورڈ کے اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ اور نہ ہی اس منصوبے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں منعقدہ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیراعظم کو خط لکھ کر وفاق کے اس رویے سے متعلق آگاہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ زیر زمین گیسیفکیشن کے بارے میں ڈاکٹر ثمر مبارک سے بریفنگ کے بعد اس منصوبے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کیا جائیگا۔ 
ملک آج کل بدترین توانائی کے بحران سے گزر رہا ہے۔ دیہی علاقوں کو تو چھوڑیئے، شہروں میں بھی اندھیروں کا راج ہے۔ کارخانے، فیکٹریز اور دیگر چھوٹے بڑے کاروبار اس بحران سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جتنا انتشار دہشتگردی نے معاشرے میں پیدا کیا ہے اتنا ہی نقصان توانائی کے بحران نے کیا ہے۔ فرسٹریشن، ذہنی پریشانیاں، معاشی حوالے سے غیر یقینی صورتحال معاشرے کے ہر فرد کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے کئی اظہار کبھی اجتماعی اور کبھی انفرادی طور پر سامنے آتے رہتے ہیں۔
اگر تھر کول کے منصوبے پر عمل کیا جاتا تو اس طرح کی صورتحال سے بڑی حد تک بچا جاسکتا تھا۔ اب یہ خیال بھی پختہ ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت اور بعض مقتدرہ حلقے نہیں چاہتے کہ پنجاب سندھ کا محتاج بنے۔ ہم سمجھتے ہیں تھر کول انرجی بوڈ میں سامنے آنے والی شکایات فوری توجہ کی متقاضی ہیں۔ اب اس ضمن میں دیر نہیں ہونی چاہئے۔ 
روزنامہ کاوش صوبوں کو ملنے والی رائلٹی کہاں خرچ کی جارہی ہے کے عنوان سے لکھتا ہے کہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے سانگھڑ کی تیل اور گیس کمپینوں کی پیداور اور ترقایتی رقومات کے بارے میں کیس کی سماعت کی۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کہنا ہے کہ سندھ میں روڈوں کی حالت انتہائی زبون ہے۔ پتہ نہیں کہ رائلٹی کی رقم کہاں خرچ کی جارہی ہے۔ 
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم دیکھیں گے کہ آج تک کتنے فنڈز آئے؟ کتنے اور کہاں پر خرچ ہوئے؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ صوبے کے 16 اضلاع میں تیل اور گیس کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ سندھ کو تاحال 4 ارب، 75 کروڑ، 20 لاکھ روپے مل چکے ہیں جن میں سے دو ارب 91 لاکھ روپے مختلف اسکیموں پر خرچ کئے جاچکے ہیں ۔ 
سندھ کی سڑکوں کی حالت زار ہے، صوبے میں ترقیاتی کام نہیں ہورہے ہیں۔ دیہی علاقے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صوبے کو اس کے وسائل کی پوری رائلٹی نہیں مل رہی اور جو کچھ مل رہی ہے وہ ٹھیک سے خرچ نہیں کی جارہی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس تکلیف کا احساس عدالت کو تو ہوا لیکن ہامری جمہوری حکومت اور منتخب نمائندوں کو نہیں ہوا۔ سندھ کو رائلٹی کتنی ملتی ہے اور وہ کہاں خرچ کی جارہی ہے اس معاملے کو تمامباشعور لوگ دیکھیں۔ 
October 16, 2015 for Nai baat

No comments:

Post a Comment