Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
گنے کے بعد دھان کی قیمتوں کا تنازع،
خراب حکمرانی سے متعلق عدالتی ریمارکس،
احتجاج کرنے والے اساتذہ پر لاٹھی چارج
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
سندھ میں ابھی گنے کی قیمت کا بحران خت پر مال مالکان اور کاشتکاروں کے درمیان تنازع ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ دھان کی قیمتوں کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ سب سے زیادہ چاول پیدا کرنے والے علاقے لاڑکانہ ڈویزن میں ایک ہزار سے زائد رائیس ملیں اور منڈیاں بند ہوگئی ہیں اور تاجروں نے ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ گنے کے بحران سے سندھ کے زیریں علاقہ کی زرعی معیشت متاثر ہوئی تھی جبکہ دھان کے بحران سے صوبے کے بالائی علاقے کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ سندھ حکومت نے دھان کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ڈپٹی کمشنر کو دے دیا ہے۔ محکمہ خواراک اور دگر اداروں کو ایک طرف رکھ کر ملکی برآمدات کے اس جنس کو ڈپٹی کمشنر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ڈپٹی کمشنر نے دھان کی فی من قیمت 900 روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے اور ہائبرڈ اور نمی والے دھان پر دو سے تین کلو کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ سندھ حکومت نے دھان کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ڈپٹی کمشنر کو دے دیا ہے۔ محکمہ خواراک اور دگر اداروں کو ایک طرف رکھ کر ملکی برآمدات کے اس جنس کو ڈپٹی کمشنر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ڈپٹی کمشنر نے دھان کی فی من قیمت 900 روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے اور ہائبرڈ اور نمی والے دھان پر دو سے تین کلو کٹوتی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔
روزنامہ کاوش ”خراب حکمرانی سے متعلق عدالتی ریمارکس پر توجہ دیں“ کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ خراب حکمرانی کو نظر انداز کر کے عوام کو حکومت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربارہی میں قائم سپریم کورٹ کے بنچ نے ماحولیاتی آلودگی کیس کی سماعت کی جس میں چاروں صوبائی حکومتوں نے اپنے صوبے کے بارے میں رپورٹیں پیش کیں۔
سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے حکومت سندھ کی جانب سے رپورٹ پیش کرت ہوئے بتایا کہ حکومت سندھ نے کراچی کی صنعتوں کو نوٹس جاری کئے ہیں۔ اور تمام ٹریٹمنٹ پلانٹون کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کیس 2003 کا ہے اور بارہ سال میں حکومت نے صرف نوٹس جاری کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ باقی سب کام چھوڑ کر خراب حکمرانی کے معاملات کو دیکھے؟
سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے حکومت سندھ کی جانب سے رپورٹ پیش کرت ہوئے بتایا کہ حکومت سندھ نے کراچی کی صنعتوں کو نوٹس جاری کئے ہیں۔ اور تمام ٹریٹمنٹ پلانٹون کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کیس 2003 کا ہے اور بارہ سال میں حکومت نے صرف نوٹس جاری کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ باقی سب کام چھوڑ کر خراب حکمرانی کے معاملات کو دیکھے؟
یہ بات ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے چیف کہہ رہے ہیں کہ سندھ کے کئی علاقے ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہے۔ بلدیات میں گھوسٹ ملازمین کی بھر مار ہے۔ کیا صفائی کے کام کی نگرانی بھی سپریم کورٹ کے جج صاحبان کریں؟ ملکی اعلیٰ ترین عدالت کی صوبائی حکومتوں پر برہمی درست ہے۔ صرف سندھ کی حالت کو دیکھا جائے، کئی صنعتی ادارے ماحولیات کو آلودہ کرنے میں کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
کئی شگر ملوں کا آلودہ پانی انسانی بستیوں کے قریب سے گزرتا ہے۔ جس کی وجہ سے سانس اور چمڑی کی بیماریاں بڑے پیمانے پر پھیل گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس زہریلے اور آلودہ پانی کی بدبو نے رہائشیوں کا جینا محال کر دیا ہے۔
شہروں کی حالت یہ ہے کہ ہر طرف گندگی کے ڈھیر زنظر آتے ہیں۔
سندھ کے شہر اجڑ چکے ہیں اور کھنڈرات کا سماں پیش کر رہے ہیں۔ صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف امراض شہریوں کی زندگی کا جز لازم بن چکے ہیں۔ اور ہسپتالوں میں مریضوں کی رش ہے کہ ایمرجنسی میں بھی کوئی بسترہ خالی نہیں ملتا۔
کئی شگر ملوں کا آلودہ پانی انسانی بستیوں کے قریب سے گزرتا ہے۔ جس کی وجہ سے سانس اور چمڑی کی بیماریاں بڑے پیمانے پر پھیل گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اس زہریلے اور آلودہ پانی کی بدبو نے رہائشیوں کا جینا محال کر دیا ہے۔
شہروں کی حالت یہ ہے کہ ہر طرف گندگی کے ڈھیر زنظر آتے ہیں۔
سندھ کے شہر اجڑ چکے ہیں اور کھنڈرات کا سماں پیش کر رہے ہیں۔ صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف امراض شہریوں کی زندگی کا جز لازم بن چکے ہیں۔ اور ہسپتالوں میں مریضوں کی رش ہے کہ ایمرجنسی میں بھی کوئی بسترہ خالی نہیں ملتا۔
معاملہ صرف ماحولیاتی آلودگی یا کسی ایک محکمے کی خراب کارکردگی کا نہیں۔ اصل قصہ حکمرانی کے انداز کا ہے۔ ادارہ جس طرح کی کارکردگی دکھائیں گے حکمرانی کا عکس اسی سے ظاہر ہوگا۔ سندھ کو ایک طویل عرصے سے اچھے حکمرانی کا ثمر نہیں ملا ہے۔بدتر حکمرانی کا ایسا دور آیا کہ ہر معاملے میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو مداخلت رکنی پڑ رہی ہے۔
اگر حکومت سندھ کی کارکردگی اور انداز حکمرانی کو دیکھا جائے تو سفید سیاسہ سب عاں ہو جائیں گے۔ تعلیم ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ لیکن یہ اہم شعبہ بھی آکسیجن پر چل رہا ہے۔ کئی اسکول گودام، مویشیوں کے باڑے یا اوطاقیں بنے ہوئے ہیں سرکاری اسکولوں کا معیار اتنا غیر معیاری ہو گیا ہے کہ والدین غیر سرکاری اسکولوں کا رخ کرتے ہیں۔ محکمہ صحت کو خود بیمار ہے اور علاج کا متقاضی ہے ۔
پولیس میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے اہلکار بھوتاروں کے کہنے پر چلتے ہیں۔ بہتر حکمرانی ایک خواب سا لگتا ہے۔ اس کی وجہ حکمرانوں کی عوام کے مسائل سے لاتعلقی ہے۔ اداروں کی باگ دوڑ صحیح ہاتھوں میں نہیں۔ عوام کے دکھ درد اور مسائل بہتر حکمرانی کے ذریعے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ اور بہتر حکمرانی کے لئے حکمرانی کا انداز تبدیل کرنا پڑے گا۔
اگر حکومت سندھ کی کارکردگی اور انداز حکمرانی کو دیکھا جائے تو سفید سیاسہ سب عاں ہو جائیں گے۔ تعلیم ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ لیکن یہ اہم شعبہ بھی آکسیجن پر چل رہا ہے۔ کئی اسکول گودام، مویشیوں کے باڑے یا اوطاقیں بنے ہوئے ہیں سرکاری اسکولوں کا معیار اتنا غیر معیاری ہو گیا ہے کہ والدین غیر سرکاری اسکولوں کا رخ کرتے ہیں۔ محکمہ صحت کو خود بیمار ہے اور علاج کا متقاضی ہے ۔
پولیس میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے اہلکار بھوتاروں کے کہنے پر چلتے ہیں۔ بہتر حکمرانی ایک خواب سا لگتا ہے۔ اس کی وجہ حکمرانوں کی عوام کے مسائل سے لاتعلقی ہے۔ اداروں کی باگ دوڑ صحیح ہاتھوں میں نہیں۔ عوام کے دکھ درد اور مسائل بہتر حکمرانی کے ذریعے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ اور بہتر حکمرانی کے لئے حکمرانی کا انداز تبدیل کرنا پڑے گا۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دو مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ تیسرے مرحلے کے انتخابات ایک ہفتے بعد ہونگے۔ جب کہ آدھا مرحلہ اور بھی باقی ہے۔ وہ ہے صوبے کے 14 اضلاع میں 80 سے زائد اداروں میں اور ایک مکمل ضلع میں ملتوی شدہ انتخابات منعقد کرانا باقی ہیں۔ بھوتار ابھی سے ” ظل سبحانی بننے کے لئے جوڑ توڑ میں مصروف ہوگئے ہیں۔ سیاسی تاجر بھی میدان میں آگئے ہیں۔ ۔ صوبے کے مختلف اضلاع میں یہ عمل جاری ہے۔ اس معاملے میں سیاسی اخلاقیات کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ دراصل عوام کے ووٹ سے دھاندلی ہے۔
روز نامہ عبرت نے اساتذہ پر کراچی میں لاٹھی چارج کے خلاف اداریہ لکھا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ گزشتہ روز حکومت نے اس وقت تمام حدود پار کر لی جب کراچی میں اساتذہ پر لاٹھی چارج کیا گیا۔اس طرح لاٹھیاں شاید مجرموں پر بھی نہیں برسائی گئی ہونگی۔
سندھ بھر سے پرائمری استاد اور ایجوکیشن کے ملازمین مطالبات منوانے کے لئے کراچی پہنچے تھے۔ انہوں نے آتھ گھنٹے تک دھرنا دیا۔ لیکن حکومت کا کوئی بھی ذمہ دار عہدیدار ان سے ملنے، بات چیت کرنے یا یہ پوچھنے تک نہیں آیا کہ آخر آپ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے؟ بحالت مجبوری اساتذہ نے چیف منسٹر ہاﺅس کی طرف مارچ کیا۔ راستے میں اساتذہ کو روک کر ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔
سندھ بھر سے پرائمری استاد اور ایجوکیشن کے ملازمین مطالبات منوانے کے لئے کراچی پہنچے تھے۔ انہوں نے آتھ گھنٹے تک دھرنا دیا۔ لیکن حکومت کا کوئی بھی ذمہ دار عہدیدار ان سے ملنے، بات چیت کرنے یا یہ پوچھنے تک نہیں آیا کہ آخر آپ لوگوں کا مسئلہ کیا ہے؟ بحالت مجبوری اساتذہ نے چیف منسٹر ہاﺅس کی طرف مارچ کیا۔ راستے میں اساتذہ کو روک کر ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔
سندھ کی تعلیم کو ایک نئے ویزن کی ضرورت ہے۔ اس کے بگاڑ میں سرکاری افسران، سیاستدانوں سے لے کر اساتذہ تک سب شامل ہیں۔ لیکن احتجاج کرنے والے اساتذہ پر لاٹھیاں برسانا کسی طور پر بھی جمہوری ای انسانی قدم نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اساتذہ اور محکمہ کے احتجاج کرنے والے ملازمین سے بات چیت کرے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ محکمہ کو کوئی نیا ویزن دے۔
Nai baat Nov 27, 2015