Friday, November 13, 2015

حکومتی کارکردگی اور اداروں کے حدود و اختیارات کا تعین


حکومتی کارکردگی اور اداروں کے حدود و اختیارات کا تعین
Nov 13, 2015 for Nai Baat
سندھ نامہ سہیل سانگی 
 کراچی میں جاری دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے اخراجات کے حوالے سے سندھ اور وفاق کے درمیان کشیدگی سندھ کے اخبارات میں زیر بحث رہی ہے۔ اخبارات نے سندھ حکومت کے اس موقف کی حمایت کی ہے کہ آپریشن شروع کرتے وقت وزیراعظم نواز شریف نے بارہ ارب روپے مہیا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب وفاقی حکومت اس پر عمل نہیں کر رہی۔ روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ آپریشن کا تمام کریڈٹ کی دعوا کرنے والی وفاقی حکومت کو اس کے اخراجات بھی اٹھانے چاہئے۔ آپریشن میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اس کے ازالے کے لئے مطلوبہ وسائل کا بھی بندوبست کرنا چاہئے ۔ اخبار نے وفاقی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ سندھ کے اس جائز مطالبے کو تسلیم کرے۔ روزنامہ عوامی آواز نے اپنے ایک اور اداریے میں وزیراعظم کی کراچی میں منعقدہ دیوالی کے تہوار میں شرکت کو سراہا ہے۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے حیدرآباد میں بھگت کنور میڈیکل کامپلیکس تعمیر کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ وزیر اعظم کی ہندوﺅں کے تہوار میں شرکت پڑوسی ملک میں انتہا پسندی کی تازہ سیریل پر وار ہے ۔ اس اقدام سے دنیا بھر میں پاکستان اور بھارت کے رویوں کے بارے میں صاف آئینہ مل گیا ہے ۔
 روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت بعض بلدیاتی اداروں میں تین سو گھوسٹ ملازمین کا بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے تعلق ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ شعبہ انسداد دہشتگردی کے ایس ایس پی نوید خواجہ نے ایک انٹریو میں بتایا کہ کراچی سے گرفتار ہونے والے دہشتگردوں نے دوران تفتیش ا عتراف کیا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ سمیت دیگر بلدیاتی اداروں میں تین سو سے زائد گھوسٹ ملازمین کا تعلق بھارتی ایجنسی ”را“ سے ہے۔ پولیس افسر نے مزید بتایا کہ گرفتار شدگان نے اپنا تعلق ایک سیاسی جماعت سے بھی ظاہر کیا ہے۔ ان افراد نے محمد انور اور محمود صدیقی کے نام بطور سہولت کار بتائے ہیں ۔
دنیا کے پرامن اور ترقی یافتہ ممالک میں غیر ملکی افراد کا غیر قانونی طور پرقیام اتنا آسان نہیں ۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں افغان پناہ گزین ہوں یا دیگر پڑوسی ممالک سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن، وہ لاکھوں کی تعدا میں آباد ہوتے رہے ہیں۔ کئی سال سے پاکستان ان کا بوجہ اٹھاتا رہا ہے۔ ان سے پوچھ گچھ اور قانونی طور رہنے کے دستاویزات کی مناسب جاچ پڑتال نہ ہونا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے پاس ان غیر قانونی تارکین وطن کے پہنچنے کے تمام راستے کھلے ہوئے ہیں۔ نتیجے میں غیر قانونی تارکین وطن دعض اداروں اور افراد کی مدد سے خود کو سرکاری ملازمتوں بھی بھرتی ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی اداروں میں بھی اس طرح کا آپریشن کیا جائے جس سے ان عناصر کا خاتمہ ہو سکے جو تخریبکاروں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ اور یہی لوگ ملک کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ 
 روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ آج کل ملک میں حکومتی کارکردگی اور اداروں کے حدود و اختیارات کے تعین ، پارلیمان کی اہمیت اور آئین کی حکمرانی کے حوالے سے بحث چل رہی ہے ۔ بحث کا مرکزی نقطہ نیشنل ایکشن پلان ہے جس کے تحت خیال ہے کہ ملک کی تعمیر نو کی جارہی ہے ۔ آج اس پلان کے حوالے سے یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اس پلان پر کس حد تک عمل ہوا؟ اور ابھی کتنا باقی ہے؟ اس پلان پر حکومت کتنی سنجیدگی کے ساتھعمل کر رہی ہے؟ اداروں کا ایک دوسرے سے کس حد تک تعاون ہے؟ اس میں کونسے اداروں کا کیا اختیار ہے؟ کس ادارے کی حدود اختیارات کہاں شروع ہوتی ہیں اور کہاں ختم ہوتی ہیں؟ اس طرح کے سوالات جب عام ہونے لگے تو سنجیدہ سیاسی حلقوں میں تشویش پیدا ہونے لگی کہ آخر کیا اسباب ہیں کہ انتے برس گزر جانے کے بعد بھی ملک میں نہ خوشحالی آسکی نہ لوگوں کو حقوق مل سکے اور نہ امن بحال ہو سکا۔ موجودہ حکومت نے بھی عوام سے جو وعدے کئے تھے وہ تاحال ادھورے ہی رہے ہیں ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی نام سے کوئی بھی منصوبہ ہو، اس کا مقصد بہرحال عوام کی ترقی اور خوشحالی سے ہوتا ہے۔ اگر یہ مقصد سامنے رکھا جائے تو پھر الجھاوہ یوں ہے؟ ہمارے پاس ایک جمہوری آئین موجود ہے۔ پھر جہاں بھی اداروں کی حود کے تعین کا سوال اٹھتا ہے، ہماری قیادت مایوسانہ انداز میں ایک دوسرے کا منہ تکنے کے بجائے اس سے رہنمائی کیوں نہیں حاصل کرتی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ آئین کی بالادستی اور حکمرانی سے ہی ہم تمام مسائل اور مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں ۔ آئین میں ہر ادارے کے حدود اور کردار کا تعین کیا گیا ہے ۔اب سوال صرف کارکردگی کا ہے۔ موجودہ حکومت کو اپنی کاکردگی بہتر بناتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مرحلہ وار ہم وہ نتائج یقیننا حاصل کر لیں گے جو عوام کی ترقی اور خوشحالی کے باعث بنیں گے۔ 
 روزنامہ کاوش اداریے میں لکھتا ہے کہ ملک کی جبلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے خسارے کی حد 13.9 سے بڑھاکر15.27 مقرر کرید گئی ہے۔ جس کے بعد بجلی پیدا کرنے والی اور سپلائی کرنے والی کمپنیاں اپنے خسارے کی مد میں 2.27 فیصد رقم بلوں کے ذریعے صارفین سے وصول کر رہی ہیں۔ سکھر الیکٹرک سپلائی کمپنی ملک بھر میں خسارے کے حوالے سے پہلے نمبر پر اور حیسکو دوسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بجلی جانے کا کوئی تصور ہی نہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں بجلی کا بحران برسہا برس سے جاری ہے اور نہ حل ہونے کی کوئی تدبیر ہے اور نہ ختم ہونے کا کوئی امکان۔ قصہ یہ ہے کہ عوام کو بجلی کے ذریعے روشنی فراہم کرنے والا ادارہ خود اندھیروں کی لپیٹ میں ہے۔ بجلی کی چوری، لائین لاس، یا پھر صارفین سے اضافی بلوں کی وصولی کی شکایات اس ادارے کی ساکھ کو پرکھنے کے لئے کافی ہیں ۔ بجلی کے میٹر جو صارفین کو دیئے گئے ہیں وہ وہ پہلے ہی تیز رفتار ہیں۔ اس صورتحال میں ملک کی دس بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو 2.27 فیصد اضافی رقم وصول کرنے کی اجازت دینا کسی بھی طور رپر دانشمندانہ قدم نہیں۔

for Nai Baat 

No comments:

Post a Comment