Friday, November 6, 2015

د سندھ اب دوسرے مرحلے کی طرف

سندھ نامہ سہیل سانگی 
 بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد سندھ اب دوسرے مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہے۔پہلے مرحلے کے انتخابات میں گیارہ افراد مارے گئے۔ سندھ کے اخبارات نے ان انتخابات کو ہی اپنا موضوع بنایا ہے۔ اداریوں، کالموں اور تجزیوں میں انتخابات کے انتظامات، نتائج کے اثرات، اور نئے رجحانات پر لکھاہے۔ اخبارات نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ خیرپور جیسا واقعہ کسی اور ضلع میں نہ دہرایا جائے۔
 انتخابات کے نتائج پر رائے زنی کرتے ہوئے روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سندھ چند بااثر خاندانوں کو ٹھیکے پر دیا گیا ہے۔ جو اختیار اور اقتدار کی چابی اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ خاندان اپنے گھر کے ہر فرد کو اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ اکثریت حاصل کرنے والی ان سیاسی جماعتوں کے پاس ان اضلاع میں کوئی اور آپشن نہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اسٹیٹسکو برقرار رکھنا چاہتی ہیں ۔ پہلے مرحلے بعد دوسرے مرحلے میں بھی ٹکٹوں کی تقسیم زمین کے قطع کی طرح ہونے جارہی ہے۔ سندھ ایک بار پھر بھوتاروں کی جیب میں جا رہی ہے۔ جہاں بلدیاتی ادارے پہلے سے اے ٹی ایم بنے ہوئے ہیں۔ جب چاہیں جتنا چاہیں پیسے نکال سکتے ہیں۔ پہلے ٹی ایم اوز تھے اگرچہ وہ بھی ان بھوتاروں کے غلاموں کی طرح ہی تھے اور ہر حکم بجا لاتے تھے۔ لیکن اب تو وہ خود براہ راست ان اختیارات کے مالک ہوگئے ہیں ۔ان کا احتساب کون کرے؟ عوام تو نہیں کر پا رہا ہے۔ اب نیب نے چند مقامات پر احتساب کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صوبائی معاملات میں نیب کی مداخلت کو جائز سمجھتے ہیں۔ ہم اس بات کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں کہ سیاسی جماعتین اور صوبائی حکومت اپنا خود احتسابی نظام قائم کرے تاکہ باہر سے کسی کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران نیب کی پکڑ دھکڑ کے بعد سندھ کے بلدیاتی اداروں کے اکوﺅنٹس میں کروڑہا روپے بچ گئے ہیں۔ جبکہ مختلف شہروں میں صفائی، نکاسی آب اور گلیوں اور سڑکوں کی حالت زار ہے۔ سندھ کے عوام وسائل کے ہوتے ہوئے بھی سہولیات سے محروم ہیں۔ لگتا ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات بھی ان کو شہری سہولیات نہیں دے سکے گا۔ 
 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ ملک میں جب انتخابات کی موسم آتی ہے تو ہر شخص یہی ورد کرتا ہے کہ انتخابات خیر سے ہو جائیں۔ کہیں کوئی تصادم اور تضاد نہ ہو۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں بارہ قیمتی جانیں ضایع ہوگئیں۔ اب وزیراعلیٰ سندھ کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں فیصؒہ کیا گیا ہے کہ صوبے کے پندرہ اضلاع میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کراچی کی طرز پر ٹارگیٹیڈ آپریشن کیا جائے گا۔ جبکہ حساس ترین پولنگ اسٹیشنوں پر فوج اور رینجرز تعینات کرنے ، پیٹرولنگ کے لئے ریپڈ رسپانس فور س کو ذمہ داری دینے اور ایک ہفتے کے لئے اسلح کے لائسنس معطل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حساس پولنگ اسٹیشنوں پر پیشگی حفاظتی اقدامات کر لئے جائیں تو درازا خیرپور کی طرز کے سانحے سے بچا جاسکتا ہے۔ بات صرف فیصلہ کرنے کی نہیں بلکہ ان فیصلوں پر پورے جذبے کے ساتھ عمل کرنے کی ہے ۔ 
روزنامہ عوامی آواز بھی اسی موضوع پر اداریے میں لکھتا ہے کہ الیکشن کو پرامن اور شفاف رکھنے کے لئے بھی اس طرح کے فیصلے ضروری
 ہیں۔

No comments:

Post a Comment