Thursday, November 19, 2015

کئی جماعتوں کا تنظیمی ڈھانچہ نچلی سطح تک موجود ہی نہیں



Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
سندھ نامہ ۔۔۔ سہیل سانگی 
۰۲۔ نومبر ۵۱۰۲ع

سندھ میں گزشتہ ایک ہفتے تک بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی گہماگہمی رہی۔ اخبارات نے بھی اداریے، کالم اور
 مضامین اسی موضوع پر شایع ہوتے رہے۔ اخبارات کی زیادہ تر توجہ اس معاملے پر تھی کہ پہلے مرحلے میں خیرپور ضلع میں جو بارہ افراد کا قتل ہوا تھا اس واقعہ کو کسی طرح سے نہ دہرایا جائے۔ اخبارات مختلف حوالوں سے انتظامیہ کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے رہے تاکہ انتخابات صاف شفاف اور پع امن ہو سکیں۔ میڈیا کا رول اس وجہ سے بھی سامنے آیا کہ روزنامک کاوش اور دیگر بعض اخبارات نے صرف انتخابی سرگرمیوں اور انتظامیہ کو مشورہ دینے تک میڈٰا کو محدود نہیں رکھا، بلکہ ہر ضلع کا پروفائل بھی دیا کہ وہاں پر شہری اور بنیادی سہولیات کی کیا صورتحال ہے؟ کون کون سے منصوبے ادھورے پڑے ہوئے ہیں میڈیا کا یہ ایک روشن پہلو تھا جس کے ذریعے ووٹروں، امیدواروں اور سیاسی جماعتوں وک یاد دلایا جاتا رہا کہ وہ شہری سہولیات کی عدم موجودگی پر بات کریں اور عوام سے وعدے کریں۔ 
 دوسرا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد کی صورتحال پر اخبارات نے اداریے لکھے ہیں۔ روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ یہ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے یہ پہلے بلدیاتی انتخابات تھے ۔ ورنہ اس سے پہلے یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوتے رہے ہیں ۔ان انتخابات میں یہ بات عیان ہوگئی کہ کئی جماعتوں کا تنظیمی ڈھانچہ نچلی سطح تک موجود ہی نہیں تھا۔ اس لئے صرف حکمران جماعتیں ہی فائدے میں رہیں۔ خواہ سندھ میں پیپلزپارٹی ہو یا پنجاب میں نواز لیگ یا پھر کے پی میں تحریک انصاف۔ 

 آتھ سال قبل جمہوریت کا سلسلہ دوبارہ جڑا ہے تب سے اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتیں عوام کی خدمت کم اور اپنی کرسی بچانے پر زور زیادہ دیتی رہی ہیں۔ شاید یہی سلسلہ آگے بھی جاری رہے۔ اس کی بناید وجہ یہ ہے کہ حکمران جماعتوں نے تعلیم ، روزگار، صحت، مواصالات اور دیگر اہم امور کی طرف توجہ نہیں دی ۔ ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہارنے والی جماعت ہمہشہ جیتنے والوں پر دھاندلی کے الزامات خواہ ان میں کوئی وزن یا سچائی نہ بھی ہو، عائد کرتی ہے ۔ نتیجے میں مقامی، صوبائی اور ملکی سطح پر انتشار پھیلتا ہے۔ اور یہ صورتحال ام ومان خراب کرنے کا باعث بنتی ہے۔ 
 دوسرے مرحلے کے انتخابات کے دوران بعض الیکشن عملے کی کوتاہیاں بھی نظر آئیں۔ حیدرآبا کی دو یو سیز میں انتخابی نشان غلط چھپے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے یہاں پولنگ ملتوی کرنی پڑی۔ ہارنے والوں کو اپنی شکست قبول کرنی چاہئے اور جیتنے والوں کو کھلے دل کے ساتھ ہارنے ولاوں سے ہاتھ ملا کر ساتھ مل کر چلنا چاہئے تاکہ عام لوگوں کو شہری سہولیات میسر ہو سکیں۔ 

 روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ حکومت نے روڈ پروٹیکشن ایجنسی کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا ہے تاکہ روڈوں پر ہونے والی بڑی سرمایہ کاری کا تحفظ کیا جاسکے۔ صوبائی حکوم نے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات نے غیر ملکی فنڈنگ پر مشتمل منصوبوں کی نگرانی کرنے اور ملکی خواہ غیر ملکی اداروں سے کلئرنس ھاصل کرنے کے لئے ایک فوکل پرسن کے تقرر کی بھی منظوری دی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ صوبے میں 560 کلو میٹر کے 181 منصوبے معایری کام کے ساتھ مقررہ مدت میں مکمل کئے جائیں ۔ 
ان منصوبوں کے لئے تین ارب روپے پہلے ہی جاری کئے جا چکے ہیں ۔ ان سڑکوں میں سے 50 کلو میٹر ٹھٹہ کراچی رود کو ڈبل کرنا، سانگھڑ نواب شاہ 60 کلو میٹر روڈ کو مکمل کرنا شامل ہے ۔ حکومت سندھ کو چاہئے کہ صوبے میں سڑکوں کا جال بچھانے کے لئے ایک جامع فارمولا بنائے۔ ان سڑکوں کی تعمیر اولیت کی بناید پر کی جائے جن کا تعلق براہ راست صوبے کی معیشت سے ہے۔ یہ سڑکیں کچھ اس طرح کی بنائی جائیں کی آئندہ تیس سال تک ان کی مرمت یا دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ سڑکوں کا معیار، ان کی ضرورت کی بنیاد پر تعمیر اور وقت پر کام مکمل ہونا یہ تینوں شرائط بہت اہم ہیں۔ جن کا تعمیراتی کام کے دوران خیال رکھا جانا چاہئے ۔

 روزنامہ کاوش لکھتا ہے کہ اگرچہ ہمارا ملک زرعی ہے لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ جیسے ہی فصل تیار ہوتی ہے اس کی قیمتوں کا تنازع اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اب سندھ میں گنے کی فصل تیار ہو چکی ہے لیکن اس کی قیمت طے نہیں ہوسکی ہے۔ کاشتکاروں کا مطالبہ ہے 230 روپے فی من گنے کی قیمت مقرر کی جائے۔ پاکستان شگر ملز ایسو سی ایشن 160 روپے فی من پر ہی بضد ہے ۔ گنے کی پسائی اکتوبر میں شروع ہونی تھی۔ لیک نومبر کا ا نصف ماہ گزر چکا ہے، اور فسل سوکھ رہی ہے۔ ن تاحال اس کی قیمت مقرر نہیں کی جاسکی ہے ۔ گزشتہ بر بھی جب گنے کی فصل اتری تھی تو قیمت کا معاملہ کھڑا ہو گیا تھا۔ حکومت اور محکمہ زراعت اس معاملے میں سنججیدہ نظر نہین آرہے ہیں۔ لہٰذا گنے کی قیمت کے جھگڑے کو طول دیا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد سے جلد گنے کی قیمت کا تعین کر کے صوبے کی زرعی معیشت کو بحران سے بچایا جائے۔

 روزنامہ نئی بات کے لئے 

No comments:

Post a Comment