Sindhi Press - Sindh Nama Sohail Sangi
April 29
سندھ کی زمینوں پر قبضے
سندھ نامہ ۔۔ سہیل سانگی
http://www.naibaat.com.pk/ePaper/lahore/30-04-2016/details.aspx?id=p13_02.jpg
http://www.naibaat.com.pk/ePaper/lahore/30-04-2016/details.aspx?id=p13_02.jpg
روزنامہ عوامی آواز لکھتا ہے کہ سندھ کے دارلحکومت کراچی میں موجود زمین کو یوں سمجھا جارہا ہے کہ شاید یہ زمین کسی کام کی نہیں۔ لہٰذا اس زمین کو کسی نہ کسی استعمال میں لایا جائے۔ پھر یہ مقاصد رہائشی ہوں یا کاروباری ، انتظامی ہوں یا فلاحی، زمین پر قانونی یا غیر قانونہ طور پر قبضہ کرنا ہے۔ زمین سے متعلق ہر قسم کی لاقانونیت کو روکنے کی ذمہ داری صوبے کے محکمہ روینیو کو دی گئی تھی کہ وہ صوبے میں موجود سرکاری زمین مختلف اداروں کو رقم کے عوض یا طے شدہ پالیسیوں کے مطابق نیلام یا کسی اور سسٹم کے تحت فروخت کرے یا اپنے استعمال میں لے آئے۔
قیام پاکستان کے بعد سندھ کی زمینوں کے استعمال پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک طرف کلیموں کے تحت زمیںینں حاصل کی گئیں دوسری طرف ترقی کے نام پر مختلف سرکاری خواہ غیر سرکاری ، سویلین اور فوجی اداروں نے محکمہ روینیو سے بڑے پیمانے پر زمینیں معمولی قیمت کے عوض حاصل کیں۔ عوام کو سہولت دینے کے نام پر اپنی سہولت کے سامان پیداکئے۔ وقت کے ساتھ یہ محسوس کیا گیا کہ یہ ترقی کے نام پر کراچی شہر کی سرکاری زمینوں کی تباہی ہے۔ جس کو روکنے کے لئے کوئی سسٹم بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ اور نہ آج تک بنایا گیا ہے۔ کراچی جو خاصخیلی، جوکھیو، گبول، کرمتی لوگوں کا شہر تھا اس کراچی شہر میں قدیمی باشندے جا کر کچی آبادیوں تک محدود ہو گئے۔ اور جنہوں نے زمینیں خرید کیں وہ کراچی شہر کے مالک اور معمار بن گئے۔
حال ہی میں کراچی شہر میں موجود ڈفینس ہاﺅسنگ سوسائٹی کے 225 پلاٹوں کا کیس میڈیا کے ذریعے سامنے آیا۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کیس کے بارے میں سندھ روینیو بورڈ کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ ایک موقر اردو روزنامہ نے خبر دی کہ ڈی ایچ اے حکومت سندھ سے چند روپے فی گز کے حساب سے زمین خرید کی اس میں تین سو گز کے فی پلاٹ بنا کر کل تین سو پلاٹ فی پلاٹ 89 ہزار روپے میں فروخت کر کے اس کے ذریعے دو کروڑ روپے حاصل کئے۔ دوسرے مرحلے میں ان پلاٹوں کی نوعیت رہائشی سے تبدیل کر کے کمرشل کر کے بائیس کروڑ روپے کمائے۔ اس خبر کے مطابق اگر ڈی ایچ اے یہ پلاٹ مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرتی تو اسے 45 ارب روپے کی آمدنی ہوتی خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سندھ کے سابق کور کمانڈر کی اس تمام کاروبار میں شامل نہ ہونے اور اجازت نہ دینے کی وضاحت اور اس پر ڈی ایچ اے کے سربراہ کا بیان اور وضاحت بھی شامل ہے۔
ہمارے پاس بھی ایک وضاحت ہے جو سندھ حکومت کو کرنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈفینس ہاﺅسنگ اتھارٹی سمیت ادارے رہائشی اور کمشل ، فلاحی اور دیگر درجہ بندی ے پلاٹ حکومت سندھ سے جس قیمت پر حاصل کرتے ہیں اور جو مقصد بیان کرتے ہیں اس کا فالو اپ سندھ خومت کیوں نہیں کرتی؟ اس کی وضاھت کون کرے گا؟ اسی طرح کی وجاحت کراچی شہر میں آغا خان اسپتال، لیاقت نیشنل اسپتال، اور دیگر فلاحی اداروں اور اسکولوں کے بارے میں بھی ہونی چاہئے۔ کیا ان اسپتالوں نے اپنے مقاصد میں یہ کہا تھا کہ عوام کے علاج معالجے کے لئے جو سہولیات فراہم کی جائیں گی وہ ملک بھر میں مہنگی ترین ہونگی؟ کای یہ بھی لکھا تھا کہ یہ اسپتال تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کی جائیں گی؟
روزنامہ عبرت لکھتا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی سمندری تباہی اور سمندر آگے آنے سے روکنے کے لئے تجاویز تیار کرنے والی سنیٹ کی سب کمیٹی نے ساحلی پٹی کا جائزہ لینے کے بعد سفارشات پیش کی ہیں۔ ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ اگر سمندر کو آگے بڑھنے کو روکنے کے لئے اقدامات نہیں کئے گئے تو 2060 میںنہ صرف کراچی، ٹھٹہ اور بدین کی ساحی پٹی سمندر برد ہو جائے گی بلکہ دونوں صوبوں میں ساحلی فوجی تنصیبات کو بھی نقصان پہنچے گا۔ سب کمیٹی نے ساحلی پٹی کے اس نازک معاملے کو ویزن 2015 میں شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔ اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے پر مشترکہ مفادات کی کونسل میں بھی غور کیا جائے۔ یہ معاملہ جتنا سنگین ہے اتنا ہی لاپروائی کا شکار ہے۔ دریائے سندھ میں ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی نہ چھوڑنے کے نتیجے میں دریا ڈیٰلٹائی علاقہ میں اپنا وجود کھو بیٹھا ہے۔ سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمیں سمندر کھا چکا ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ سمدنری جنگلات ختم ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں مچھلی کی پیدائش اور فروغ کا عمل میں رخنہ پڑ گیا ہے۔ جو کہ براہ راست ایک بڑی آبادی کا ذریعہ معاش ہے بلکہ غذائی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے۔ کمیٹی نے جس خدشات کا ذکر کای ہے وہ اعداو شمار اور ماہرین کی رپورٹوں کی بنیاد پر کئے ہیں لہٰذا اس ضمن میں فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
روزنامہ کاوش ”تھر کا درد “کے عنوان سے اداریے میں لکھتا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت پر قائم کی گئی چار رکنی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تمام حکومتی دعوﺅں کو مسترد کردیاہے۔ اور حکومت سے فوری طور پر تھر کو قحط زدہ علاقہ قرار دے کر بڑے پیمانے پر امدادی کارروایاں شروع کی جائیں اور تھر ڈولپمنٹ اتھارٹی کے قیام، ڈاکٹروں کی تقرری مطلوبہ تعداد میں کرنے ، افسران کی تقرری ذاتی مفادات کے باجئے خالص میرٹ پر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تھر میں قحط اور غذائی قلت کی وجہ سے گزشتہ تین سال سے مسلسل بچوں کے اموات کی خبریں آرہی ہے جس سے سندھ حکومت انکار کرتی رہی ہے۔ کیمشن نے تما صورتحال کے لئے صحت، آبپاشی، زراعت، لائیو اسٹاک ، آبپاشی سمیت سات محکموں کو ذمہ دار قرا دیا ہے۔
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ تھر کی اس صرتحال کے لئے خراب حکمرانی ہی ذمہ دار ہے۔ اس رپورٹ کے بعد حکومت کے انکار اور معاملات سے راہ فرار مسدود ہو چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت سندھ اس ضمن کیا کیا موثر اور عملی اقدمات کرتی ہے